پاکستان کا بحران : اونٹ حکومت کی کروٹ بیٹھے گا یا اپوزیشن کی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-03-2022
پاکستان کا بحران : اونٹ حکومت کی کروٹ بیٹھے گا یا اپوزیشن کی
پاکستان کا بحران : اونٹ حکومت کی کروٹ بیٹھے گا یا اپوزیشن کی

 


 اسلام آباد: پاکستان میں سیاسی بحران اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا۔ اونٹ حکومت کی کروٹ بیٹھے گا یا اپوزیشن کی، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ فریقین اپنی ہونے والی یقینی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حکومت ایک طرف اپنے ہی اراکین کو سنبھالنے کی مشق میں لگی ہے تو دوسری طرف اپنے اتحادیوں کو ساتھ جوڑے رکھنے کے جتن بھی کر رہی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے حوالےسے حزب اختلاف کے مطالبے پر پاکستان کی  قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اور غیر معمولی اجلاس کل صبح ہوگا، ۔

سیکریٹریٹ نے ایجنڈا جاری کردیا جس میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی شامل ہے۔

غیرمعمولی اجلاس کی صدارت اسپیکر اسد قیصر کریں گے، قومی اسمبلی کے اجلاس کا 15 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا ہے جس میں پاکستانی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی شامل کی گئی ہے۔

ایجنڈے میں کہا گیا ہے کہ ایوان کے 152 ارکان کی رائے ہےکہ وزیر اعظم عمران خان ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں،لہٰذا انہیں عہدے سے ہٹا دیاجائے۔

ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے روایات کے مطابق اجلاس کو پی ٹی آئی کے ممبر کی رحلت کے باعث اجلاس کو تعزیتی ریفرنس میں تبدیل کرکے ملتوی کرنے کا امکان ہے، ایسا ہونے کی صورت میں اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں شدید احتجاج کا بھی قویٰ امکان ہے۔

ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ اپوزیشن ایوان میں پاور شو کرے گی اور اپنے تمام ارکان کو اجلاس میں شریک ہونے کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں، دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے ارکان کو اجلاس میں حاضر ہونے کے لیے کوئی خصوصی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی اجلاس اس وقت حکومتی اتحاد کے پاس 179 جبکہ اپوزیشن کے پاس 162 ممبران ہیں۔

اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی نے اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا تھا تاہم اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اجلاس کا ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا تھا جس پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی جارہی تھی۔

ادھر اپوزیشن بھی کم و بیش یہی کچھ کر رہی ہے۔ حکومتی اراکین کو اپنے ساتھ ملایا جا رہا ہے اور حکومتی اتحادیوں سے بھی ملاقاتیں زور و شور سے جاری ہیں۔ اس میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے کو ملے۔ مثلاً تحریک انصاف کے ناراض لیڈر عبدالعلیم خان جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہی ہم خیال گروپ کا اعلان کر دیا اور حکومت سے ناراض جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کر دیا۔ ایک وقت تو یہ محسوس ہوا کہ شاید تحریک انصاف کو بیرونی سے زیادہ اندرونی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ملکی میڈیا پر دو تین روز علیم خان کے علم بغاوت کا بڑا چرچا رہا۔ وہ جہانگیر ترین کے لاہور میں واقع گھر بھی گئے جہاں انہوں نے لندن میں بیٹھے جہانگیر ترین سے ویڈیو لنک پر گفتگو کی اور ساتھ چلنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس کہانی کا کلائمیکس اس وقت ہوا جب علیم خان اچانک اسلام آباد سے لندن روانہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے اس دورے کی تفصیلات کسی کے ساتھ شئیر نہیں کیں۔ البتہ چند روز لندن میں قیام کے بعد وہ واپس آئے اور اس کے بعد ان کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔

تحریک انصاف کے ایک وزیر جو علیم خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا ’مجھے علیم صاحب کی کال آئی تھی، غالباً یہ مارچ کی 7 تاریخ تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا اور میں چلا گیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ عمران خان کی حکومت جانے والی ہے، میرا ساتھ دو۔

جب میں نے پوچھا کہ آپ کو کس قسم کا ساتھ چاہیے تو ان کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ 40 ایم پی ایز ہیں کچھ وزرا بھی ہیں۔ اگر آپ ساتھ دینے کا وعدہ کرتے ہیں تو بزدار حکومت کے بعد الیکشن سے پہلے جو حکومت بنے گی۔ اس میں یہی وزارت ملے گی اور اگلے انتخابات میں مسلم لیگ ن کا پارٹی ٹکٹ بھی ملے گا۔‘ تحریک انصاف کے وزیر بتاتے ہیں کہ ’علیم خان میرے بڑے اچھے دوست اور بھائی ہیں۔ میں نے نہایت ادب سے انکار کیا، اس کے بعد انہوں نے پھر مجھے کہا کہ دو روز کا وقت لے لو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ مجھے اگلے چند روز میں سب کچھ فائنل کرنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ علیم خان بہت زیادہ جلدی میں دکھائی دیتے تھے۔ وہ اور بھی وزرا اور ایم پی ایز کو ملے اور اس کے بعد اچانک لندن روانہ ہو گئے۔

اس کے بعد ہوتا ہے علیم خان کی کہانی کا ڈراپ سین۔ مسلم لیگ نواز میں پارٹی قائد نواز شریف کے قریبی سمجھے جانے والے ایک رہنما نے اردو نیوز کو رازداری کی شرط پر بتایا کہ علیم خان کی نواز شریف سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ ’ملاقات میں علیم خان نے کھل کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے متعلق بات کی۔ لیکن اس ملاقات کی جو توقع علیم خان لے کر آئے تھے وہ بالکل پوری نہیں ہوئی۔ آپ یوں کہہ لیں کہ میاں صاحب کے پاس ان کو آفر کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس ملاقات کے بعد بھی وہ لندن میں چند روز اور رکے اور واپس پاکستان چلے گئے۔ وہ اب کیوں خاموش ہیں یہ انہی کو پتا ہوگا۔

ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار سلمان غنی علیم خان کی خاموشی پر کہتے ہیں ’میں اس کو ایک جملے میں سمونا چاہوں گا کہ علیم خان آندھی کی طرح آئے اور طوفان کی طرح چلے گئے۔ لندن سے واپسی کے بعد علیم خان کی خاموشی ’مجھے نہیں پتا ان کے ہاتھ میں کیا انشورنس تھی۔ کیونکہ اگر آپ غور سے دیکھیں تو انہوں نے گروپ کا اعلان تو کر دیا لیکن 40 میں سے ایک بھی شخص کو وہ منظرعام پر نہیں لا سکے۔

ان کی ایک ہی میٹنگ کی فوٹیج ابھی تک ٹی وی چینلز پر چل رہی ہے۔ جو وہ ترین کے گھر گئے تھے، اس میں چہرے دیکھیں۔ ایک ترین گروپ کے افراد تھے اور کچھ تحریک انصاف کے دیگر لوگ تھے جن کو علیم خان نے دعوت دی تھی جن میں صمصام بخاری وغیرہ تھے۔

انہوں نے اگلے ہی روز کہہ دیا تھا کہ وہ کسی گروپ کا حصہ نہیں۔’تو جب وہ لندن گئے تو سوائے اپنی جماعت کے خلاف غصے کے اظہار کے ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ میرے پاس اطلاعات یہی ہیں کہ لندن میں ان کی پذیرائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے انہوں نے فی الحال خاموشی میں ہی عافیت جانی ہے۔

علیم خان کی لندن یاترا پر پاکستان کے ٹی وی چینلز نے جب ان کی نواز شریف سے ملاقات کی خبریں چلائیں تو ان کے قریبی دوست اور تحریک انصاف کے پنجاب کے وزیر میاں خالد محمود نے ان کی طرف سے ایک وضاحت جاری کی کہ یہ ملاقات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ البتہ اب میاں خالد محمود اس صورت حال پر آن ریکارڈ بات کرنے مکمل طور پر گریزاں ہیں۔