پاکستان: شدت پسندوں سے مذاکرات مگر دہشت گردی میں اضافہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-01-2022
پاکستان: شدت پسندوں سے مذاکرات مگر دہشت گردی میں اضافہ
پاکستان: شدت پسندوں سے مذاکرات مگر دہشت گردی میں اضافہ

 


اسلام آباد :روحان احمد

پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے 2021 سکیورٹی صورت حال کے سبب غیر یقینی کا سال رہا جس کی بڑی وجہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کا گرنا اور طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول سنبھالنا تھا۔سنہ 2021 میں سال 2020 کے مقابلے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 42 فیصد جبکہ ان سے ہلاکتوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔خطے میں انتہاپسند، مسلح گروہوں اور سکیورٹی کی صورت حال پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز‘ (پی آئی پی ایس) کے مطابق 2021 میں پاکستان میں 207 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں پانچ خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں 335 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔

سال 2020 میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تعداد 146 تھی اور ان حملوں میں 220 ہلاکتیں ہوئیں۔

پی آی پی ایس کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں بشمول فوج، پولیس، ایف سی اور لیویز کے 177 اہلکار حملوں میں ہلاک ہوئے اور پچھلے سال ہلاک ہونے والے سویلینز کی تعداد 126 تھی۔ 

سال 2020 میں دہشت گرد حملوں میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے 97 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال خودکش حملوں اور سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائیوں میں 32 جنگجو مارے گئے۔

سکیورٹی اداروں پر ہونے والے حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، داعش خراسان اور دیگر قوم پرست سندھی اور بلوچ انتہاپسند گروہ ملوث تھے۔

دہشت گرد حملوں میں اضافہ

پی آئی پی ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات اور ہلاکتیں افغانستان سے جڑے سرحدی صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دیکھنے میں آئیں۔ 

خیبر پختونخوا میں گذشتہ برس دہشت گردی کے 111 واقعات ہوئے جن میں 169 افراد ہلاک اور 122 زخمی ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ 53 دہشت گرد حملے قبائلی اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ہوئے۔ پاکستان کے اس صوبے میں چھ حملے انسداد پولیو ٹیموں یا ان کی حفاظت پر معمور سکیورٹی اہلکاروں پر کیے گئے۔ پی آئی پی ایس کی رپورٹ کے مطابق بیشتر حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، اس کے دیگر مسلح جتھے اور داعش خراسان ملوث تھے۔

واضح رہے 15 اگست 2021 میں افغانستان میں اشرف غنی حکومت ختم ہوگئی تھی اور طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

افغان طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان کی حکومت کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ افغانستان میں امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

افغان طالبان کی ثالثی کے تحت ہونے والے مذاکرات کے سبب پاکستانی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی نے 9 نومبر 2021 میں ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

ٹھیک ایک ماہ بعد 9 دسمبر کو کالعدم تنظیم نے جنگ بندی کے اختتام کا اعلان کیا اور الزام عائد کیا کہ پاکستانی حکومت نے مذاکرات کے دوران کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔

دوسری جانب پاکستانی حکومت نے ان مذاکرات کی تفصیلات میڈیا یا پارلیمان کے ساتھ تاحال شیئر نہیں کیں، تاہم گذشتہ ماہ پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے یہ ضرور کہا تھا کہ حکومت کا فی الحال کالعدم ٹی ٹی پی سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں، تاہم ’بالواسطہ رابطے‘ برقرار ہیں۔

بلوچستان دہشت گردی سے متاثر دوسرا صوبہ

صوبہ بلوچستان ملک کا دوسرا صوبہ ہے جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ پی آئی پی ایس کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان 2021 میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا دوسرا پاکستانی صوبہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گذشتہ برس بلوچستان میں 81 دہشت گرد حملوں میں 136 افراد ہلاک ہوئے اور یہ حملے مذہبی مسلح اور بلوچ قوم پرست تنظیموں کی جانب سے کیے گئے تھے۔

صوبے میں 2021 میں ہونے والے 81 دہشت گرد حملوں میں سے 71 حملے کالعدم قوم پرست تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز جیسی تنظیموں نے کیے۔ 

پی آئی پی ایس کی رپورٹ کے مطابق قوم پرست تنظیموں کی طرف سے کیے جانے والے حملوں میں 95 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دہشت گردی کے پانچ واقعات میں 14 افراد اور سندھ میں دہشتگ ردی کے چھ واقعات میں 13 افراد ہلاک ہوئے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی وجہ؟

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں کالعدم ٹی ٹی پی کا ہاتھ نظر آتاہے۔ کالعدم تنظیم کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق اس تنظیم نے 2021 میں 282 حملے کیے جن میں 509 افراد ہلاک ہوئے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے اعدادوشمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جاسکی۔

لیکن واقعات میں اضافہ پھر کیوں ہوا؟ خیبر پختونخوا میں مسلح گروہوں پر گہری نگاہ رکھنے والے سینیئر صحافی افتخار فردوس کا کہنا ہے کہ ’ہم خیبر پختونخوا کی صورت حال کو افغانستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ’کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات افغان طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے سے پہلے جاری تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’9 نومبر سے پہلے جتنے دہشت گرد حملے ہوئے اس کے پیچھے ٹی ٹی پی کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ مذاکرات سے قبل اپنی پوزیشن مستحکم کی جائے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان ابھی کسی نہ کسی سطح پر مذاکرات جاری ہیں۔

ان مذاکرات میں افغان طالبان کے کردار پر افتخار فردوس کہتے ہیں کہ ’ان مذاکرات کے حوالے سے افغان طالبان کی طرف سے متضاد بیانات آتے رہے ہیں۔

’پہلے افغان طالبان کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا کہ ان کا کوئی کردار نہیں لیکن جب وزیر خارجہ امیر خان متقی پاکستان آئے تو مذاکرات میں کردار ادا کرنے کا اقرار کیا۔‘ ان کے مطابق ’ان مذاکرات کے پیچھے پورے افغان طالبان نہیں بلکہ حقانی طالبان (نیٹ ورک) ان مذاکرات کے فروغ کے لیے کام کررہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے حملوں میں کمی بھی ہوتی ہے تو اس میں سب سے بڑی رکارٹ کالعدم ٹی ٹی پی کے دیگر گروہ ہیں۔

’ٹی ٹی پی میں کئی گروہ شامل ہیں اور ہر گروہ کے مطالبات مختلف ہوسکتے ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے امن لانے میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج پوری ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔

بلوچ قوم پرست تنظیموں سے مذاکرات

خیبر پختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی امن لانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے مذاکرات کی پالیسی اپنائی۔ گذشتہ سال جولائی میں ایک تقریب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ’وہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے حوالے سے سوچ رہے ہیں۔

اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے گذشتہ برس نواب اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمتی عمل کے لیے اپنا معاون خصوصی مقرر کیا۔

ان مذاکرات میں پیش رفت کے حوالے سے شاہ زین بگٹی سے متعدد بار رابطہ کیا گیا تاہم ان کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

بلوچستان کے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان نے مکران میں کھڑے ہو کر مذاکرات کی بات کی اور شاہ زین بگٹی کو نامزد بھی کردیا لیکن عملاً کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں مذاکرات اگر کامیاب