پاکستان : تحریک عدم اعتماد پرقومی اسمبلی کا اجلاس تین اپریل تک ملتوی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 31-03-2022
پاکستان : تحریک عدم اعتماد پرقومی اسمبلی کا اجلاس تین اپریل تک ملتوی
پاکستان : تحریک عدم اعتماد پرقومی اسمبلی کا اجلاس تین اپریل تک ملتوی

 


اسلام آباد: پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعرات کو اپوزیشن کے ارکان نے اپنی اکثریت دکھاتے ہوئے حکومتی تحریک کو کثرت رائے سے نامنظور کر دیا ہے۔

حکومت کو شکست ہونے پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس اتوار کی صبح تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اپنی نشستوں پر دھرنا دے دیا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت سے سوا گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری صدارت کر رہے تھے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کی جانب سے قومی اسمبلی کے ایوان کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے لیے ان کیمرا قرار دینے کی تحریک پیش کی گئی۔ ڈپٹی سپیکر نے تحریک کی مںظوری کے لیے ووٹنگ کرائی تو حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کی ارکان کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث تحریک نامنظور ہو گئی۔ اس کے بعد ایوان میں وقفہ سوالات کیا گیا تاہم اپوزیشن کے تمام ارکان نے صرف یہ سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کب کرائے جائے گی؟

ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن ارکان کے سوالات کے جواب میں کہا کہ کوئی بھی رکن وقفہ سوالات میں دلچسپی نہیں لے رہا اس لیے اجلاس اتوار کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حکومتی ارکان ایوان سے چلے گئے جبکہ اپوزیشن ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے اپنی نشستوں پر دھرنا دے دیا۔ تاہم کچھ دیر بعد اپوزیشن اراکین نے دھرنا ختم کرکے اسمبلی ہال خالی کر دیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس بہت انتظار کے بعد پانچ بج کر 16 منٹ پر شروع ہوا مگر تحریک عدم اعتماد پر بحث تو نہ ہو پائی۔ انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کے مطابق حکومتی اراکین نے ’لوٹے لوٹے‘ کے نعرے لگائے تو اپوزیشن نے جواباً ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے۔ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے ہر سوال پر اپوزیشن کے اراکین نے یہی کہا کہ جلد از جلد ووٹنگ کروائیں ’ہمارا اس کے علاوہ کوئی سوال نہیں۔‘

تحریک انصاف کی رکن اسمبلی اسما حدید نے اتحادیوں کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے دیکھ کر ’غدار اور لوٹوں‘ کے نعرے لگائے۔ حکومتی بینچوں سے ’ضمیر فروش اور چور چور‘ کے نعرے بھی لگائے جاتے رہے۔

دیکھنے والے ششدر تھے کہ پارلیمان کے اندر اور باہر برسرپیکار اپوزیشن رہنما حکومتی بینچوں پر آ کر دیر تلک کوئی گتھی سلجھاتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے اراکین آغا رفیع اللہ، اختر مینگل، ن لیگ کے ایاز صادق حکومتی بینچوں میں آ کر پرویز خٹک اور شفقت محمود سے دس منٹ تک کھڑے گفتگو کرتے رہے۔

مونا خان کے مطابق خالد مگسی جو حکومتی اتحاد چھوڑ چکے ہیں وہ حکومتی بینچوں کی طرف آئے تو پرویز خٹک اور شفقت محمود انہیں ہنستے ہوئے ملے۔ صحافی حیران تھے کہ ان کے کارکنان آپس میں لڑ رہے ہیں جبکہ یہ سب ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں۔ حکومتی پارلیمانی وزیر علی محمد خان پارلیمنٹ ہال کے باہر باپ پارٹی کے رکن خالد مگسی کو تلخی سے کہا کہ ’آپ نے منافقت کی ہے۔

اس کا حساب آپ لوگوں کو دینا ہو گا۔‘ جواب میں خالد مگسی نے کہا کہ ’حساب تو آپ لوگوں کو بھی دینا ہو گا۔‘ اسی اثنا میں علی محمد نے ہال کا دروازہ کھولا اور خالد مگسی سے کہا ’آپ سر آپ جائیں اندر آپ کی زیادہ عزت ہے۔‘  

اجلاس شروع ہونے سے قبل ایوان میں کیا ہوتا رہا؟ قومی اسمبلی میں موجود انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کے مطابق اپوزیشن لیڈر چار بج کر دس منٹ پر ہال میں تشریف لائے تو اپوزیشن کے مختلف اراکین نے تصاویر بنوائیں۔ ساتھ بیٹھے صحافیوں نے تبصرہ کیا کہ شہباز شریف ابھی سے خود کو بائیں بغل والی کرسی ( جو وزیراعظم کے لیے مختص ہوتی ہے) پر محسوس کر رہے ہیں۔

حکومتی بینچوں پر 40 کے قریب اراکین موجود تھے جن میں زیادہ تعداد تحریک انصاف کی خواتین پارلیمانی اراکین کی تھی جو آپس میں گپوں میں مصروف تھیں جبکہ چار حکومتی وزیر بھی ہال میں موجود ہیں۔ اجلاس سے قبل ڈسکہ سے ن لیگ کا الیکشن جیتنے والی نوشین افتخار اپوزیشن بینچوں سے حکومتی بینچوں کی جانب آئیں اور تحریک انصاف کی خواتین سے آ کر بغل گیر ہوئیں اور سلام دعا کی بعد واپس اپوزیشن بینچوں کی جانب چلی گئیں۔