طالبان کے پیچھے پاکستان ہے ۔افغانستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-08-2021
شیطانی کھیل
شیطانی کھیل

 

 

 واشنگٹن : افغانستان میں کیا ہورہا ہے ،سب جانتے ہیں،امریکی افواج کے انخلا کے تقریبا مکمل ہونے کے ساتھ خانہ جنگی کا عالم ہے۔

طالبان کی یلغار نے ملک میں بد امنی اور تشدد کو ہوا دیدی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کیا کھیل چل رہا ہے اور اس کے پیچھے کون ہے ؟

لیکن اب اقوام متحدہ میں افغانستان کے سفیر اور مستقل مندوب غلام ایم اسحاق زئی نے پاکستان کا نام لے لیا۔ اقوام متحدہ میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان ہی طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کررہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشترکہ مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام وضع کرنے میں کابل کی مدد کرے۔

 طالبان کے پیچھے چھپا ہے پاکستان

جمعے کو افغانستان کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے غلام اسحاق زئی نے کہاکہ ’وہ جو ان (طالبان) کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ شامل ہیں، یقینی طور پر اس سے فائدہ حاصل کریں گے، لہذا یہ کوئی سول وار نہیں ہے بلکہ مجرمانہ اور دہشت گرد نیٹ ورک ان کے کیمپوں کے پیچھے سے لڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر طالبان کی جنگی مشین کو مستقل طور پر ابھی بھی پاکستان کی طرف سے محفوظ پناہ گاہیں اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔‘

 لاتعداد ثبوت موجود ہیں

 افغانستان کو سب علم ہے کہ کھیل کہاں سے کنٹرول ہورہا ہے۔ سلامتی کونسل سے خطاب میں غلام اسحاق زئی نے مزید کہا کہ ’ڈیورنڈ لائن کے قریب طالبان جنگجوؤں کے جمع ہونے، افغانستان میں داخل ہونے، فنڈز اکٹھے کرنے، اجتماعی تدفین کے لیے لاشوں کی حوالگی اور پاکستانی ہسپتالوں میں طالبان جنگجوؤں کے علاج کی ویڈیوز بھی منظرعام پر آچکی ہیں، جو نہ صرف سلامتی کونسل کی 1988 کی پابندیوں سے متعلق قرارداد کی خلاف ورزی ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے عمل میں عدم اعتماد کی وجہ بھی ہے۔‘

مل کر کام نہیں کرتا پاکستان

گذشتہ ماہ تاشقند میں پاکستان اور افغانستان کی قیادت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے پیش نظر ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طالبان کی پناہ گاہوں اور سپلائی لائنز کو ختم کرنے میں ہماری مدد کرے اور ہمارے ساتھ مل کر ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام وضع کرے جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن قائم کرنے میں موثر مدد مل سکے۔

‘  ان کا مزید کہنا تھا: ’افغانستان پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے واضح رہے کہ پاکستان افغان طالبان کی معاونت کے الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔

گذشتہ ماہ کے آخر میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے افغان صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ نشست کے دوران کہا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کا ذمہ دار نہیں۔  عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کو طالبان سے خود پوچھنا چاہیے کیونکہ ہم ان کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی ان کے ترجمان۔‘

جنگ خطرناک اور مہلک مرحلہ میں

دوسری جانب افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی ڈیبورا لیونز نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان میں جنگ ’ایک نئے مہلک اور زیادہ تباہ کن مرحلے‘ میں داخل ہو گئی ہے، جہاں طالبان کے حملوں کے دوران گذشتہ ماہ ایک ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔

 افغانستان کی درخواست پر طلب کیے گئے اس اجلاس میں اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی ڈیبورا لائنز نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔

 افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی ایلچی نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ بڑے شہروں پر اپنے حملے فوری طور پر بند کردیں۔