‘پاکستا ن:کورونا ویکسین کے نام پر’لوٹ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-03-2021
ویکسین کے لئےہاہا کار
ویکسین کے لئےہاہا کار

 

 

منصور الدین فریدی۔ نئی دہلی

پاکستان میں اس وقت کورونا وبا کی نئی لہر چل رہی ہے۔ کیا عام اور کیا خاص سب کورونا کے نشانہ پر ہیں۔خاص تو کورونا کی ویکسین لے رہے ہیں  لیکن غریبوں کےلئے یہ ممکن نہیں ہے۔ ویکسین کسی مہنگی مٹھائی کی طرح ہیں جو ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جو خاص لوگ ویکسین لے رہے ہیں وہ بھی کورونا پازیٹیو ہورہے ہیں۔عوام حیران پریشان ہیں۔  کریں تو کیا کریں ۔کورونا ویکسین کیسے خریدیں جس کی قیمت نے پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ کورونا ویکسین مہم میں تاخیر، اسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لئے بستروں میں اضافہ نہ ہونا، کورونا ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں کمی اور کورونا فنڈز کا کم استعمال وہ تمام وجوہات ہیں جن سے حکومت کی عدم دلچسپی عیاں ہے۔

اب حالت یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے پاکستانی حکومت کو ایک ہفتے میں کورونا ویکسین کی قیمت مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ 'کمپنی بھی آزاد نہیں ہیں کہ 100 ڈالر میں ویکیسن فروخت کریں۔عدالت نے مزید کہا کہ چھ قسم کی ویکیسن ہیں آپ ریٹ فکس کردیں پھر جو مرضی امپورٹ کرنا چاہے امپورٹ کرلے۔'

دراصل پاکستان میں کورونا کے ساتھ اب ویکسین بھی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے،اول تو ویکسین آسانی سے دستیاب نہیں اور جو بازار میں دستیاب ہیں،وہ غریبوں کی بس میں نہیں ہیں۔قیمت بے لگام ہیں۔حکومت بے بس ہے۔ جن کمپنیوں نے کورونا ویکسین امپورٹ کی ہیں ،وہ اپنی قیمت وصول کرنے میں جٹ گئی ہیں،حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر نجی کمپنیوں کود اعتراض ہے۔۔ان حالات میں پاکستانیوں کے جیبوں کو خالی کرنا شروع کر دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود پاکستان کے  وزیر اعظم عمران خان بھی اس کا شکار ہوچکے ہیں،ساتھ ہی  پاکستان میں کورونا کی نئی لہرجاری ہے۔اس کے باوجود کورونا ویکسین کاروبار بن گئی ہے۔ 

یا در ہے کہ پاکستان کی کابینہ نے کورونا ویکسین کے کمرشل استعمال کرنے کےلئےروس کی تیار کردہ ’سپتنک فائیو‘ اور چینی کمپنی کی ’کین سینو بائیو‘ ویکسین کی قیمتیں مقرر کر چکی ہیں۔پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے کابینہ کو بھیجی گئ یسفارش کے مطابق روسی ویکسین سپتنک فائیو کے دو انجیکشن کی قیمت 8 ہزار چار سو 49 روپے جبکہ چینی کمپنی کی تیار کردہ کین سینو بائیو کے ایک انجیکشن کی قیمت 4 ہزار دو سو 25 روپے مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔

انسانی بحران بنا بدترین کاروبار

مگر اہم سوال یہ ہےکہ ویکسینز کو درآمد کرنے والی نجی کمپنیوں نےاس قیمت پراعتراض کیا ہے کہ جن کا دعوی ہے کہ ویکسین زیادہ قیمت میں درآمد کی ہے، جس کے بعد کابینہ نے ڈریپ کو ان قیمتوں پر نظرثانی کی ہدایت کی ہے، اور اب امکان ہے کہ ان ویکسینز کی قیمت تجویز شدہ قیمت سے بھی زیادہ ہوگی۔ایک طرف تو سوشل میڈیا پر دونوں طرح کی ویکسینز کی دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ قیمت مقرر کرنے پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر یہ اعتراض بھی سامنے آ رہا ہے کہ آخر پرائیویٹ سیکٹر کے لیے دو نسبتا کم معروف ویکیسن کمپنیوں کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟

پاکستان پہلا ملک ہےجس نے کورونا ویکسین نجی اداروں کو درآمدکرنے کی اجازت دی،کابینہ کی روسی ویکسین کی منظورکردہ قیمت عالمی قیمت سے 160 فیصدزیادہ ہے۔ وائس چیئرپرسن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق ہندوستان میں روسی کورونا ویکسین اسپوٹنک کی قیمت 1500 پاکستانی روپے بنتی ہے، عالمی مارکیٹ سے150 فیصد زیادہ قیمت پر فروخت اوورچارجنگ کا سنجیدہ ایشو ہے، ویکسین کی خریداری کی شفافیت کےلیے تمام حکومتوں کو خط لکھا ہے کہ پانچ چیزوں کو یقینی بنائیں۔

کورونا ویکسین کی نجی اداروں کے ذریعے درآمد اور فروخت کے معاملے پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی وائس چیئرپرسن جسٹس(ر) ناصرہ جاوید اقبال نے وزیراعظم کو خط لکھ دیا۔ خط میں جسٹس(ر) ناصرہ جاوید اقبال نے وزیراعظم سےکہا ہے کہ اطلاعات کے مطابق کابینہ نے روسی ویکسین اسپوٹنک کی دوخوراکوں کی قیمت 8 ہزار 449 مقرر کی ہے اور چینی کوروناویکسین کےفی انجیکشن کی قیمت4 ہزار 225 روپےمقرر کی گئی ہے۔ جسٹس(ر) ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ دنیامیں حکومتیں کورونا ویکسین عوام کو مفت فراہم کر رہی ہیں-۔

 

کیا ہورہا ہے گھپلہ

 

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا کہنا ہےکہ کورونا ویکسین کی خریداری کی تمام تر تفصیلات عوامی سطح پر جاری کی جائیں۔ خط کے متن کے مطابق پہلا نکتہ کس حکومت کو کونسی ویکسین کی ضرورت ہے،دوسرا نکتہ کس ویکسین کی کتنی خوراکوں کو یقینی بنایا گیا ہے،تیسرا نکتہ آپ کے ملک میں ویکسین کب تک پہنچےگی اور ہر ایک کو کب تک دستیاب ہوگی ،چوتھا نکتہ حکومت ایک ویکسین کی خوراک کتنے میں خرید رہی ہے،پانچواں نکتہ کیاحکومت نےایک ایسی ویب سائٹ بنائی ہےجس پرویکسین کی خریداری مالی وسائل اورخریداری کے کنٹریکٹس کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں؟ خط میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نجی اداروں کےذریعےویکسین کی خریداری کی پالیسی پرنظرثانی کریں،کرپشن امکانات کوختم کرنےکے لیے نجی اداروں کےذریعے ویکسین خریداری کی پالیسی کو منسوخ کیا جائے۔

سوشل میڈیا پر ہنگامہ 

ایک طرف تو سوشل میڈیا پر دونوں طرح کی ویکسینز کی دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ قیمت مقرر کرنے پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر یہ اعتراض بھی سامنے آرہا ہے کہ آخر پرائیویٹ سیکٹر کے لیے دو نسبتا کم معروف ویکیسن کمپنیوں کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟

قیمت پاکستان میں زیادہ کیوں

 نجی کمپنیوں کے امپورٹ کرنے کے سب قیمتوں کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ حکومت بے بس ہے کیونکہ اسے ویکسین می امپورٹ میں کوئی دلچپسی نہیں۔اس کے برعکسس سرکاری ادارے کچھ اور دلیل دے رہے ہیں ۔ دعوی کررپے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ویکسین کی قیمت پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں کہ روسی ویکسین 10 ڈالر میں دستیاب ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں روسی ویکیسن کی دو خوراکیں 20 ڈالر کی ملتی ہیں اور وہ بھی پرائیویٹ سیکٹر کو نہیں بلکہ حکومت کو، جو بڑی مقدار میں ویکسین خریدتی ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا یہ ویکیسن اپنے ملک میں بنا رہا ہے جس کی وجہ سے اس پر لاگت کم آتی ہے۔‘ ادارے کا کہنا ہے کہ یہ ایسا وقت نہیں کہ ہم کمپنیوں کو زیادہ پابند کر سکیں کیونکہ زیادہ مانگ کی وجہ سے کمپنیاں بآسانی انکار کر دیتی ہیں۔’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پرائیویٹ ویکیسن کی اجازت دی گئی ہے اس لیے پرائیویٹ سطح پر قیمتوں کے تعین کے لیے کوئی مثال موجود نہیں جس سے پاکستان استفادہ کر سکے۔‘ ابھی تک دونوں کمپنیوں نے صرف پچاس پچاس ہزار خوراکیں باہر سے درآمد کی ہیں۔ ویکسین کی بڑی مقدار دستیاب ہی نہیں ہے۔

 

ویکسین لگانے میں سب سے پیچھے

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان نے 24 مارچ تک صرف تین لاکھ کے قریب ویکسین کی خوراکیں لگائیں جب کہ بنگلہ دیش 46 لاکھ، سری لنکا آٹھ لاکھ، ہندوستان ساڑھے تین کروڑ اور نیپال 16 لاکھ کے قریب ویکسین خوراکیں دے چکا ہے۔

 ٹیسٹنگ کٹ کہاں ہیں؟

دراصل 12جون، 2020 کو پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (نسٹ) کو مبارک باد دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ نسٹ کی تیار کردہ کووڈ ٹیسٹنگ کٹ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) سے منظور ہو گئی ہے۔لیکن نو مہینے کا عرصہ گزرنے کے بعد ابھی تک یہ ٹیسٹنگ کٹ مارکیٹ میں نہیں آئی۔پاکستاج نی عوام سوال کررہے ہیں کہ کہاں ہے ٹیسٹنگ کٹ؟مگر جواب دینے والا کوئی نہیں۔

 بجٹ کا استعمال نہ ہونا

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ  نومبر 2020 کو وزیراعظم عمران خان نے کرونا ویکسین کی خریداری کے لئے 10 کروڑ ڈالرز مختص کئے تھے، جسے بعد میں بڑھا کر 25 کروڑ ڈالرز کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ حکومت نے پہلی لہر کے دوران 1200 ارب روپے کرونا پیکیج کے لئے مختص کئے تھے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے صحافی شہباز رانا کی جنوری 2021 کی ایک خبر کے مطابق حکومت پاکستان نے ان 1200 ارب روپے میں سے 66 فیصد استعمال ہی نہیں کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے نے کرونا ریلیف فنڈ بھی قائم کیا تھا مگر اب اس فنڈ کی ویب سائٹ کا لنک بھی کام نہیں کرتا اور نہ ہی اب حکومت فعال طریقے سے عوام یا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اس فنڈ کے لئے عطیات مانگتی ہے۔اب  عوام حیران ہیں کہ پیسہ ہے تو خرچ نہیں ہوا اور جہاں سے فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے وہاںوصولی کا کوئی سسٹم نہیں۔ یہ ہے پاکستان جہاں کورونا کی تیسری لہر جاری ہے اور ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ امید صرف اللہ سے کرنی چاہیے۔