پاکستان : ایک 'خاتون جج' حق اورانصاف سے محروم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-09-2021
لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک
لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک

 

 

اسلام آباد:پاکستان میں مردوں کی اجارہ داری کا نظام اس بار سپریم کورٹ پر بھی حاوی ہوگیا ہے۔ ایک خاتون جج کو سپریم کورٹ کی کرسی پر دیکھنا کسی کو پسند نہیں تھا اس لیے لاہور ہائی کورٹ کی خاتون جج کی ترقی رک گئی۔ ووٹوں کے جال میں پھنس کر خود ایک جج انصاف سے محروم ہوگیا۔ اس واقعہ نے اچانک لوگوں کی توجہ افغانستان سے پاکستان پر مرکوز کردی ہیں ۔ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان کے طالبان کے بر عکس پاکستانی طالبان زیادہ کھل کر کام کررہے ہیں ۔

 یہی وجہ ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی زیر صدارت جمعرات کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کی منظوری نہ ہو سکی۔اس کا سبب تھا اڑک پر اترے وکلا اور سیاسی دباو ،جس نے ایک خاتون کو اس کے جائز حق سے محروم کردیا ہے۔ 

جوڈیشل کمیشن کے رکن اختر حسین نے بتایا کہ چونکہ جوڈیشل کمیشن میں جسٹس عائشہ کی تقرری پر ارکان کے ووٹ ٹائی ہو گئے اس لیے اب وہ فی الحال سپریم کورٹ کی جج نہیں بن سکتیں۔یہ جسٹس عائشہ  کی نہیں بلکہ پاکستان کی ذلت ہے۔ ورنہ اگر معاشرہ میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا بلکہ وہ پاکستانی سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج کا اعزاز حاصل کر چکی ہوتیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان بھر کے وکلاء نے ہڑتال کی اور سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) میں جونیئر ججوں کی تقرری کے خلاف عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔یہی نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کو قانونی برادری کے نمائندوں نے آج پورے دن کے لئے ٹھپ کردیا تاکہ ان کے حتمی احتجاج اور ناراضگی کو باضابطہ طور پر ریکارڈ کیا جاسکے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے ۔

 چنانچہ سپریم کورٹ میں کوئی خاتون جج نہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس چار ہیں۔ نیپال، ملائیشیا اور سری لنکا میں پہلے ہی ایس سی کی ایک خاتون چیف جسٹس موجود ہیں۔

یاد رہے کہ کچھ دن پہلے پاکستان میں جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی پہلی خاتون جج بننے کا نعرہ لگایا گیا تھا مگر ابس کی تقرری کی منظوری نہیں دی گئی ہے. اسے اس کے حق میں 4 ووٹ ملے (2 ایف آر ایم حکومت) این ڈی 4 اس کے خلاف۔بات واضح ہے کہ معاشرہ دوغلی سوچ کے ساتھ چل رہا ہے۔

 اجلاس میں پاکستان بار کونسل کے نمائندے کے طور پر شرکت کرنے کے بعد اختر حسین کا کہنا تھا کہ کمیشن کے آٹھ میں سے چار ممبران نے جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ چار ہی ممبران نے ان کی تعیناتی کے خلاف ووٹ دیا اس طرح معاملہ ٹائی ہو گیا۔

 ایڈوکیٹ اختر حسین نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کے حق میں ووٹ دینے والوں میں چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل پاکستان اور وزیر قانون شامل تھے جبکہ ان کی تقرری کی مخالفت میں ووٹ دینے والوں میں خود اختر حسین کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق مسعود اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) دوست محمد شامل تھے۔ 

اختر حسین کے مطابق آئین کےتحت اکثریت جب تک کسی نام کی منظوری نہ دے تو وہ نام آگے نہیں جاسکتا لہٰذا تکنیکی طور پر جسٹس عائشہ ملک کا نام مسترد ہوا ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیرون ملک ہونے کے باعث جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے۔

 اگر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ کے نام کی منظوری ہوتی تو وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون جج ہوتیں۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کے لیے ہائیکورٹ کے جج کے نام کی سفارش کرتے ہیں جس کی جوڈیشل کمیشن منظوری دیتا ہے جب کہ جسٹس عائشہ ملک کے نام کی بھی چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے سفارش کی گئی تھی تاہم تکنیکی طور پر جسٹس عائشہ کا نام سپریم کورٹ میں بطور جج تقرری کے لیے مسترد ہو گیا۔۔

 اس سے قبل جمعرات کو جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے پر وکلا کی جانب سے بھی احتجاج کیا گیا۔

وکلا تنظیموں کا موقف ہے کہ جسٹس عائشہ اے ملک لاہور ہائی کورٹ کی جونیئر جج ہیں اور ان کی سپریم کورٹ میں ترقی عدلیہ میں سینیارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

 احتجاج کی اپیل پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار کونسل اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس مشیر عالم 18 اگست کو ریٹائرڈ ہو گیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ میں ایک جج کی آسامی خالی ہے۔