پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے کوئ نہیں بچا سکتا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-05-2022
پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے کوئ نہیں بچا سکتا
پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے کوئ نہیں بچا سکتا

 

 

 آواز دی وائس / نئی دہلی

پاکستان میں سیاسی بھونچال تو تھم گیا ہے۔ حکومت گر گئی اور نئی بن گئی۔ کردار بدل گئے ۔حکمراں نے اپوزیشن  کا درجہ حاصل کرلیا اور اپوزیشن نے حکمراں کا۔ لیکن پاکستان کی  اقتصادی بدقسمتی کا المیہ جاری ہے ۔جس کے سبب  آنے والے دنوں میں پاکستان کے سری لنکا کی مانند  بکھر جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

سعودی عرب سمیت پاکستان کو تین ملکوں نےمالی امداد دینے سے منع کر دیا ہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کا مستقبل میں د یوالیہ ہونا لاز می ہے۔ اب اس کے بعد پاکستا ن کے پاس اور کوئ راستہ نہیں ہے کہ وہ ایند ھن اور دوسری شارفین اشیا پر سبسڈی دینا بند کردے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو شہباز حکومت کے لۓ نئ مشکلیں کھڑی ہو جا ئیں گی۔

سعودی عرب۔متحدہ عرب امارات اور چین پاکستان کو قرض دینے میں تاخیر کررہے ہیں۔اس سلسلہ میں وزیر اعظم شہبا ز شریف آئ ایم ایف سے جلد ہی بات چیت کا پروگرام بنارہے ہیں۔اگر آئ ایم ایف کی طرف ہاتھ بڑھا تے ہیں تو ایندھن پر سبسڈی ختم کرنے کی مار عوام پر پڑنی ہی ہے۔یہاں یہ بھی اندیشہ ہے کہ پاکستان کا بجٹ بھی آئ ایم ایف کی شرائط کا پابند ہوگا۔اس وقت پا کستا نی حکومت اپنے عوام کوپٹرولیم مصنوعات پر65,ارب روپے سالانہ سبسڈی دیتی ہے۔

اگرچہ ماضی میں نوٹ چھاپنے میں بھی گڑ بڑ کی گئی،کم نوٹ تلف کرکے کھاتے میں زیادہ ظاہر کئے گئے اور ان کے بدلے میں نئے نوٹ چھاپ کر مال بنایا گیا۔ فی الحال یہ دیکھتے ہیں کہ جنرل ضیاالحق کا دوراقتدار ختم ہونے سے اب تک کس طرح کا رجحان رہا ہے اور آگے چل کر صورتحال کیا ہو سکتی ہے؟

جون 1988ء میں ڈومیسٹک ڈیبٹ 290 بلین روپے تھا۔ ایکسٹرنل ڈیبٹ کے فگرز دستیاب نہیں جبکہ 90بلین روپے کی کرنسی زیر گردش تھی۔ جون 1999ء میں جب منتخب مگر غیر مستحکم سیاسی حکومتوں کا دور ختم ہونے کو تھا اور جنرل پرویز مشرف عنانِ اقتدار سنبھالنے کے لئے پر تول رہے تھے تو ڈومیسٹک ڈیبٹ 1400بلین روپے ہو چکا تھا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 30بلین ڈالر تھا جبکہ 300بلین روپے کے نوٹ سرکولیشن میں تھے ۔

جون 2008ء میں یعنی پرویز مشرف کا دور اقتدار ختم ہوتے وقت صورتحال یہ تھی کہ ڈومیسٹک ڈیبٹ 3300بلین روپے ہو چکا تھا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 43بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا جبکہ 1000بلین روپے کے نوٹ زیر گردش تھے ۔پیپلز پارٹی کے پانچ سال میں معیشت کو سب سے بڑا جھٹکا لگا۔ جون 2013ء میں صورتحال یہ تھی کہ ڈومیسٹک ڈیبٹ 10000بلین روپے تک پہنچ گیا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 53بلین ڈالر ہوگیا جب کہ کرنسی ان سرکولیشن 2200بلین روپے تھی ۔

مسلم لیگ (ن) کی پانچ سالہ حکومت کے دوران پاورپلانٹ لگے ،ترقیاتی منصوبوں کیلئے قرض لیا گیا، اکانومی نے وسعت اختیار کی اورجون 2018ء میں جب یہ حکومت ختم ہوئی تو ڈومیسٹک ڈیبٹ 16500بلین روپے ہوگیا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 86بلین ڈالر تک جا پہنچا جبکہ زیر گردش کرنسی 4400بلین روپے ہوگئی۔

اس کے بعد نیا پاکستان بن گیا اور تبدیلی سرکار آگئی ۔ عمران خان صاحب کہتے تھے خودکشی کرلوں گا لیکن قرضہ نہیں لوں گا لیکن ان کے دور میں سابقہ سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ڈومیسٹک ڈیبٹ 16500ارب روپے سے بڑھ کر 27000بلین روپے ہوگیا۔

ایکسٹرنل ڈیبٹ 86ملین ڈالر سے بڑھ کر 130بلین ڈالر ہو گیا۔ قیام پاکستان سے 2018ء تک 4400ارب روپے کے نوٹ چھاپے گئے مگر کپتان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دوراقتدار میں 3100ارب روپے کے نوٹ چھاپ لئے یوں کرنسی ان سرکولیشن 7500بلین روپے ہوگئی۔ اب ہم ایسے گھن چکر میں پھنس چکے ہیں کہ وینٹی لیٹر پر رکھے مریضِ معیشت کی روح کسی بھی وقت پرواز کرسکتی ہے۔