لاپتہ پاکستانی ۔ پاک فوج کی کارستانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-02-2021
اسلام آباد کی سڑکوں پر بلوچی باشندوں کا دھرنا
اسلام آباد کی سڑکوں پر بلوچی باشندوں کا دھرنا

 

 

منصور الدین فریدی / نئی دہلی

یہ پاکستان ہے!سب سے الگ،سب سے جدا۔جہاں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا خود ’اٹھ‘ جاتا ہے۔ انصاف کی لڑائی کیلئے شاباشی نہیں بلکہ سزا دی جاتی ہے۔سزا بھی ایسی کہ زندگی بھر کا درد ثابت ہوتی ہے۔ اس عجیب وغریب سزا کا نام ہے’گمشدگی‘۔ آپ نے حکومت یا فوج کے کسی ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور حق کی بات کی،تو سمجھ لیں کہ آپکا خراب وقت آچکا ہے۔آپ کی الٹی گنتی کا آغاز ہوچکا ہے۔آپ کسی بھی وقت،کسی بھی لمحہ ایسا غائب ہوں گے کہ لو گ سوچیں گے کہ زمین کھا گئی یا آسماں نگل گیا۔اب  کی عوام کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے ،وہ آواز اٹھا رہے ہیں،سڑکوں پر اتر رہے ہیں ۔یہی نہیں بلوچستان سے پریشان حال لوگ اب اسلام آباد  کی سڑکوں پر ہیں۔دنیا کو ان مظالم کی جکانب متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

وہ بتا رہے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن دھاڑے آپ کو مویشی کی طرح کسی گاڑی میں ٹھونس کر نامعلوم منزل پہنچا دیا جائے گا۔جس کا سراغ پانے میں شاید آپ کے رشتہ داروں کی زندگی گزر سکتی ہے۔ہوسکتا ہے آپ زندہ رہیں مگر آپ کو مردہ مان لیا جائے اورہوسکتا ہے ک آٓپ کو ما ردیا جائے مگرآپ کو زندہ مانا جائے۔ یہ ہے پاکستان کا سب سے”متنازعہ جرم“جس میں حکومت سے فوج تک کی ایجنسیاں ملوث رہتی ہیں۔جس کو پاکستان میں ”جبراً گمشدگی“ کا نام دیا گیا ہے۔

balochistan

غمزدہ خواتین اپنے رشتے داروں کی یاد میں تڑپتے ہوئے

یہ مت پوچھئے کہ اس کا شکار بننے والوں میں کون کون شامل ہیں؟سوال یہ ہے کہ اس میں کون شامل نہیں ہے؟یہ بھی اہم ہے کہ اغوا اور گمشدگی کے ایسے واقعات پاکستان کے کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں ہیں اسی طرح اغوا اور لاپتہ ہونے والوں کا پس منظر بھی ایک سا نہیں ہے۔ان میں سیاسی ورکر، دانشور، شاعر،جمہوریت نواز،صحافی، ڈاکٹر،انجینئر، طلبہ،، سرکاری افسر اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کے ساتھ ہر شعبہ زندگی کے لوگ اس کا شکار ہورہے ہیں۔ہر دن ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔یہ سب ایسے وقت ہورہا ہے کہ جب پاکستان میں عدلیہ سے کمیشن تک حرکت میں ہیں لیکن ”جبراً گمشدگی“کاسلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

بے حس حکومت۔ تماشائی عمرا ن خان

جب عمران خان اقتدار کیلئے سب کچھ کررہے تھے تو انہوں نے جس ایک معاملہ کو بہت نازک قرار دیا تھا، اقتدار میں آنے کے بعداس کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ جبراً گمشدگی کا معاملہ ہی تھا۔مگر ہوا کیا؟اقتدار آیا تو رات گئی بات گئی کے مترادف عمران خان کا حافظہ بھی کمزور پڑ گیا۔ میڈیا کی لتاڑ اور عدالت کی پھٹکار کے باوجود عمران خان کی حکومت بے حس ہے۔ جو بھی قدم اٹھائے گئے وہ عملی کم اور کاغذی زیادہ ثابت ہوئے۔حد تو یہ ہے کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعدان واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔پچھلے سال تو بلوچستان نیشنل پارٹی نے حکمراں پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد سے خود کو اس لئے الگ کر لیا تھا۔جس کا الزام تھا کہ عمران خان نے جبراً گمشدگی کے سلسلہ کو ختم کرنے سے متعلق اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ اب بھی عمران خان حکومت اس پر بغلیں جھانکنے پر مجبور ہے۔ایک شرمناک حقیقت اورگھناونا سچ،جس نے پاکستان میں حکومت اورو فوج کے کردار کو بے نقاب کیا ہے۔

bal

ادریس خٹک کی گمشدگی اور پھر فوج کے قبضے میں ہونے کا اعتراف بڑی پول کھول ہے۔

ادریس خٹک کا کیس؟

یہ سن کر بھی آپ حیران ہو جائیں گے کہ جو شخص پاکستان میں گمشدہ افراد کا مکمل ریکارڈ تیار کررہا تھا،فو ج نے اس کو ہی غائب کردیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر عدالت نے نوٹس نہ لیا ہوتا تو یہ بھی معلوم نہیں ہو تا کہ وہ ہیں کہاں؟ زندہ ہیں بھی یا نہیں؟ ان کا نام ہے ادریس خٹک۔ وہ ترقی پسند سیاسی نظریات رکھتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں۔ادریس خٹک مختلف ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کیلئے بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دیتے رہے تھے۔ ان میں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی ملکی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

جنہیں13نومبر 2019کو اسلام آباد پشاور موٹروے پر انہیں اغوا کیا گیا تھا۔ ایک سال کے بعد بڑی مشکل سے فوج نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ادریس خٹک فوجی حراست میں ہیں۔ جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے ان پر فوجداری کا مقدمہ چلانے سے روک عائد کردی تھی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ جن کی لاشیں مل جاتی ہیں ان کے رشتہ دار وں کو کم سے کم صبر آجاتا ہے لیکن جن کے بارے میں برسوں یا کئی دہائیوں تک اس بات کا سراغ نہیں ملتا ہے کہ وہ کہاں ہیں؟ زندہ ہیں بھی یا نہیں؟ ان کے رشتہ داروں کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی ہے۔

balo

اپنے بیٹے کےلئے پریشان بوڑھی ماں

جبراّ گمشدگی کی ایک تاریخ ہے

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں جبراً گمشدگی کی لہرنئی ہے،اس کی ایک تاریخ موجود ہے۔ یہ حربہ پاکستان کی ہر حکومت اور فوج نے ہر دور میں استعمال کیا ہے۔پاکستان میں جو بھی حکومت کے خلاف کھڑا ہوا،جس نے فوج کے خلاف آواز اٹھائی۔وہ راہ چلتے غائب ہوتا رہا ہے۔اس کے رشتہ دار در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں۔مگر ایسے لوگوں کی زندہ گھر واپسی بہت مشکل رہی ہے۔

جب پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے تھے اور مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کی شکل میں جنم لیا تھا۔اس وقت بھی پاکستانی فوج نے اپنے مخالفوں کو رات کے اندھیرے سے دن کے اجالے تک غائب کردیا تھا۔دباؤ بنانے کا کھیل کہیں یا خوف زدہ کرنے کا طریقہ،اس کا جب بھی استعمال ہوا،پاکستان کو بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔ ایک پاکستانی صحافی کہتے ہیں کہ ”۔حقیقت یہ ہے کہ جبراً گمشدگی کا پہلا واقعہ بنگالی زبان کے نامور صحافی اور ادیب شہید اللہ قیصر اور ان کے بھائی ظہیر ریحان کا ہوا تھا۔شہیداللہ قیصر کو 14 دسمبر 1971 کو نامعلوم مسلح افراد نے ڈھاکہ میں ان کے گھر سے اغوا کیاتھا، پھر ان کے بارے میں کبھی کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔۔

“ وہ 1952 میں مشرقی پاکستان کی لسانی تحریک کے دوران اور پھر 1958 میں جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد قید کا سامنا بھی کر چکے تھے۔ اسیری میں ہی انہوں نے اپنا مشہور ناول 'سارنگ بو' لکھا جس پر انہیں 1963 میں سرکاری سرپرستی والے ادارے رائٹرز گلڈ کی جانب سے آدم جی ادبی ایوارڈ دیا تھا۔دسمبر 1971 میں پاکستانی فوج کے سادہ لباس ونگ’البدر‘ نے کئی دیگر بنگالی دانشوروں سمیت اغوا کیا تھا۔ ان میں سے کچھ افراد کی لاشیں تو بعد میں مل گئیں لیکن شہید اللہ قیصر سمیت بیشتر افراد کے بارے میں کبھی کچھ پتا نہیں چل سکا۔

boll

اپنوں کی تلاش میں زندگی گزر رہی ہے۔

کمیشن کے نام پر مذاق

2011جب پاکستان میں ایسے واقعات انتہا پر پہنچ گئے اور حکومت کی بے حسی انتہا پر نظر آئی تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ گمشدگی کے معاملات پر توجہ دے۔ جس کے جواب میں حکومت نے ایک کمیشن  بقائم کیا  تھا جسے گمشدہ افراد کے کیس کی انکوائری کرنی تھی۔مگر وہ کسی ڈھونگ سے کم نہیں تھا۔ انٹر نیشنل کمیشن فار جیورسٹ نے حال ہی میں اس کو بے مقصد قرار دیا کیونکہ کمیشن اپنے بنیادی مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

در اصل جبری گمشدگی کے معاملات جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سامنے آنا شروع ہوئے تھے،2001 کے بعد بلوچستان میں گمشدگی کے اکا دکا کیس ہوتے رہے لیکن 2006 میں بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور گورنر اکبر بگٹی کے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کے بعد، اس صوبے میں لوگوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں زبردست اضافہ دہوا۔اسی عرصے میں پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی لوگ روز بروز گم ہونے لگے تھے۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کے بارے میں کبھی پتا نہیں چل سکا کہ انہیں کس نے اور کیوں اغوا کیا اور وہ زندہ بھی ہیں یانہیں۔

پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پرایک بڑا مذاق جاری ہے،حکومت تو الیکشن سے ہی منتخب ہوتی ہے لیکن حکومت عوامی نہیں فوجی ہوتی ہے۔ بڑے فیصلے فوج ہی کرتی ہے اور جمہوری حکومت اپنی عزت اور کھال بچانے کو ہی سب سے بڑی ذمہ داری مانتی ہے۔جبرا گمشدگی کے معاملات میں انتہا تو یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہنا پڑا کہ گرفتاری کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے لیکن دوسری ایجنسیاں بھی ایسا کررہی ہیں جو خلاف قانون ہے۔ یہ صورت حال کافی سنگین ہے اور حقوق انسانی کی حفاظت میں روڑے اٹکانے کی اجازت دینا حکومت کی ناکامی ہے۔

 اسلام آباد میں مظاہرہ کررہے بلوچی باشندے۔ جن کی قوت برداشت اب جواب دے گئی ۔۔۔۔۔