ایران: مظاہروں میں شدت، فورسز کا کرد علاقوں میں کریک ڈاؤن

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 14-10-2022
مظاہروں میں شدت، ایرانی فورسز کا کرد علاقوں میں کریک ڈاؤن
مظاہروں میں شدت، ایرانی فورسز کا کرد علاقوں میں کریک ڈاؤن

 

 

تہران: ایران کی سکیورٹی فورسز نے کرد علاقوں میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کو تیز کر دیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایرانی حکومت ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کرد نسل سے تعلق رکھنے والی ایران کی 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب درست طریقے سے نہ لینے پر تہران میں حراست میں لیا گیا تھا۔

احتجاجی مظاہروں نے ایران میں آزادیوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے غم و غصے کو ظاہر کیا ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں خواتین بھی شرکت کر رہی ہیں۔ مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر ہلاک ہونے والی متعدد کم عمر لڑکیوں کی ہلاکت مزید احتجاج کا باعث بن گئی ہے جس میں لوگ شرکت کر رہے ہیں۔

ایران نے کرد علاقوں میں مظاہروں اور بدامنی پر قابو پانے کے لیے بسیج ملیشیا کو تعینات کیا ہے۔ جمعرات کی شب ہونے والے مظاہروں میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔ روئٹرز نے سوشل میڈیا پر وائرل ان احتجاجی مظاہروں کے ویڈیوز کی تصدیق نہیں کی جن میں بسیج ملیشیا کو مظاہرین کو مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کردستان کے دارالحکومت سنندج میں دو ذرائع کے مطابق بسیج ملیشیا پولیس کے ساتھ مل کر مظاہرین کے خلاف کارروائی کر رہی تھی۔

ایک عینی شاہد کے مطابق مظاہروں پر قابو پانے کے لیے پولیس اور بسیج ملیشیا کے سینکڑوں اہلکاروں کو دیگر صوبوں سے کردستان میں تعینات کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ دن پہلے سنندج اور بانہ میں بسیج ملیشیا کے اہلکاروں نے حکام کے احکامات ماننے اور لوگوں کو گولی مارنے سے انکار کیا تھا۔‘ عینی شاہد نے بتایا کہ ’سقز میں صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے۔ بسیج ملیشیا کے اہلکار شہریوں، گھروں اور حتیٰ کہ ان جگہوں پر بھی گولی چلا رہے ہیں جہاں مظاہرے نہیں ہوئے۔‘ تجزیہ کاروں کے مطابق بسیج کے رضاکار پاسداران انقلاب اسلامی سے وابستہ ہیں۔ اس کے دس لاکھ رضاکار فعال ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حالیہ احتجاجی مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے دوران 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اگرچہ مظاہرے ہفتوں سے جاری ہیں تاہم ایرانی حکام ان پر قابو پانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ 2009 میں متنازع انتخابات کے باعث ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جو تقریباً چھ ماہ جاری رہے تاہم اس پر ایرانی حکام نے قابو پا لیا تھا۔

ایرانی حکام نے مظاہروں کے دوران تشدد کا الزام علیحدگی پسندوں پر لگایا ہے۔ پاسداران انقلاب نے پڑوسی ملک عراق میں کرد نسل سے تعلق رکھنے والے حکومت مخالف ایرانی شہریوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ مظاہرین ایران کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف متحد ہونے اور آیت اللہ علی خامنہ ای سے جان چھڑانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہروں کے دوران متعدد خواتین نے حجاب ہٹائے اور سکارف کو آگ لگائی۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر اور پارلیمان کے سابق سپیکر علی لریجانی کا کہنا ہے کہ ’اگر ہمارے ملک کی 50 فیصد خواتین مکمل حجاب نہیں لیتیں تو پولیس کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔‘ انہوں نے ایک مقامی اخبار روزنامہ اطلاعات کو بتایا کہ سوال یہ ہے کہ آیا اس جیسے تمام معاملات میں حکومت کو مداخلت کرنی چاہیے؟‘ بدھ کو سکیورٹی فورسز نے تہران میں بار ایسوسی ایشن کے سامنے انسانی حقوق کے تین کارکنان کو گرفتار کیا تھا۔