ایران حجاب تنازعہ: خاتون کی موت پر مظاہروں میں 17 ہلاک

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-09-2022
ایران حجاب تنازعہ: خاتون کی موت پر مظاہروں میں 17 ہلاک
ایران حجاب تنازعہ: خاتون کی موت پر مظاہروں میں 17 ہلاک

 

 

تہران: ایران میں پولیس کی حراست میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مشتعل مظاہرین اور ایرانی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں مقامی میڈیا کے مطابق 17 افراد ہو چکے ہیں،

جبکہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی موت کی تحقیقات ہونی چاہییں۔  نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ایک نیوز کانفرنس میں ایرانی صدر نے کہا کہ ’حکام مہسا امینی کی موت کے حوالے سے وہ کر رہے ہیں جو انہیں کرنے کی ضرورت ہے۔‘ ان کا کہنا تھا: ’میں نے پہلے ہی ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم اس واقعے کی تحقیقات کریں گے۔۔۔ ہماری سب سے بڑی ترجیح ہر شہری کے حقوق کی حفاظت ہے۔

انہوں نے امریکہ کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی اور کہا: ’امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں امریکیوں کی موت کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘ ابراہیم رئیسی نے حکام کے ہاتھوں اس طرح کی اموات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں ’ایک ہی معیار‘ پر زور دیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مغرب میں ’دہرا معیار‘ ہے۔ مہسا امینی کی موت گذشتہ ہفتے پولیس کی حراست میں ہوئی جب انہیں ملک کی ’اخلاقی پولیس‘ نے مبینہ طور پر حجاب ’غلط طریقے سے پہننے‘ کے الزام میں گرفتار کیا۔

ایرانی پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی اور ان کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی گئی لیکن ان کے اہل خانہ نے اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ سے وابستہ آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ رپورٹس کے مطابق ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ نے بغیر ثبوت پیش کیے مہسا پر شدید تشدد کیا۔ ان کی موت کی امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے جبکہ ملک میں کئی روز سے مظاہرے بھی جاری ہیں، جن میں سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق 17 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایک درجن سے زائد شہروں میں مظاہرین سماجی جبر اور ملک کے بڑھتے ہوئے بحرانوں پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہیں سکیورٹی اور نیم فوجی دستوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی پر نظر رکھنے والے ایک گروپ نیٹ بلاکس نے کہا ہے کہ مظاہروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایران کے سب سے بڑے ٹیلی کام آپریٹر نے جمعرات کو زیادہ تر علاقوں میں ایک بار پھر موبائل انٹرنیٹ بند کر دیا تھا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن سٹیشن پہلے ہی ریاست کے کنٹرول میں ہیں اور صحافیوں کو گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے،

پاسداران انقلاب نے جمعرات کو عدلیہ پر زور دیا کہ بدامنی کے بارے میں سوشل میڈیا پر ’جعلی خبریں اور افواہیں پھیلانے والوں‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ انسٹاگرام اور وٹس ایپ، جن کا استعمال مظاہرین کرتے ہیں، کی بندش جمعرات کو بھی جاری رہی۔ وٹس ایپ نے ٹویٹ کیا کہ وہ ایرانیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے اور اپنی تکنیکی صلاحیت کے اندر رہتے ہوئے اپنی سروس کو جاری رکھنے کے لیے جو کچھ ہوسکا کرے گا۔