ایران:اخلاقی پولیس کے زیرحراست مرنے والی خاتون کی نمازجنازہ پرمظاہرے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 18-09-2022
ایران:اخلاقی پولیس کے زیرحراست مرنے والی خاتون کی نمازجنازہ پرمظاہرے
ایران:اخلاقی پولیس کے زیرحراست مرنے والی خاتون کی نمازجنازہ پرمظاہرے

 

 

تہران : ایران کے مغربی صوبہ کردستان میں ہفتے کے روز ایک نوجوان خاتون کی نمازجنازہ کے موقع پرحکام کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔اس خاتون کو اخلاقی پولیس نے حجاب نہ پہننے کے سخت قوانین کے تحت حراست میں لیا تھا اوران کی موت مبیّنہ طور پرتشدد کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوزمیں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین صوبہ کردستان میں متوفیہ مہسا امینی کے آبائی شہرساکیز میں جمع ہوئے اور انھوں نے حکومت مخالف نعرے بازی کی ہے۔22سالہ دوشیزہ مہسانے جمعہ کے روز دارالحکومت تہران میں واقع ایک اسپتال میں دم توڑا تھا

جنازے پر جمع بعض مظاہرین نے ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے خلاف ’’مرگ برآمر‘‘ کی نعرے بازی کی جبکہ پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔ایک ویڈیو میں ایک شخص کے سر پر چوٹ لگی ہوئی دکھائی گئی۔اس میں کسی کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے کہ یہ برڈ شاٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران میں ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ عوامی سطح پر حجاب نہ اوڑھیں۔مگران کی اپیل پر اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو انھیں اسلامی ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کی پاداش میں گرفتاری کا خطرہ ہوتا ہے اورسخت گیرحکام عورتوں کے اس’’غیراخلاقی طرزِعمل‘‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں ایسے واقعات دکھائے گئے ہیں جن میں حجاب ہٹانے والی خواتین کے خلاف اخلاقی پولیس کے یونٹوں نے سخت کارروائی کی ہے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق حکام نے مہسا امینی کی موت کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ تاہم ایک طبی ممتحن نے ہفتے کے روزبتایا کہ فرانزک ٹیسٹ کے نتائج موصول ہونے میں تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مہسا امینی گرفتاری کے بعد اخلاقی پولیس کے ایک تھانے میں دوران حراست بیمار پڑگئی تھیں۔اس تھانے میں ان کے ساتھ دیگرخواتین بھی زیرحراست تھیں۔انھوں نے سوشل میڈیا پران الزامات کو مسترد کر دیا کہ ممکنہ طور پرانھیں مارا پیٹا گیا تھا۔ -

پولیس نے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن فوٹیج بھی جاری کی ہے جس میں بظاہران کے واقعات کے ورژن کی حمایت کی گئی ہے لیکن اس ویڈیو کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی اور لگتا ہے کہ بظاہر اس ویڈیو کو ایڈٹ کیا گیا تھا۔

اس سے قبل پولیس نے بتایا تھا کہ امینی کو اسٹیشن لے جانے کے بعد دل کا دورہ پڑا تھاجبکہ مرحومہ کے رشتہ داروں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اسے دل کی کوئی تکلیف تھی۔ ایران کی کھیلوں اور فنون لطیفہ کی ممتاز شخصیات نے امینی کی موت کے بارے میں سوشل میڈیا پر تنقیدی تبصرے کیے اور جمعہ کوتہران میں بلوہ پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں مظاہرے کیے تھے۔

سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ماضی کے مظاہروں کی طرح حکام نے ساکیز اور قریبی علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ تک رسائی محدود کر دی ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش پر نظررکھنے والی رصدگاہ نیٹ بلاکس نے گذشتہ روز تہران میں ’’انٹرنیٹ کی ایک اہم بندش‘‘کی اطلاع دی تھی اورمظاہروں کو اس کا سبب قراردیا تھا۔