امام محمد بن سعود نے روشن مستقبل کی راہ کیسے متعین کی؟

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-02-2023
امام محمد بن سعود نے روشن مستقبل کی راہ کیسے متعین کی؟
امام محمد بن سعود نے روشن مستقبل کی راہ کیسے متعین کی؟

 

 

ریاض: جب امام محمد بن سعود نے 1725 میں والد کی وفات کے بعد خود کو تاریخ کے میدان میں کھڑا پایا تو اس وقت بہت کم لوگ ہی یہ اندازہ لگا پائے تھے کہ وسطی عرب کی قسمت میں کون سی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں، جو امارت درعیہ کے اگلے حکمران کے ہاتھوں ہوں گی۔ 1679 میں درعیہ میں پیدا ہونے والے امام محمد نے ایک ایسی دنیا میں قدم رکھا تھا جس میں کئی سو سال سے کچھ خاص نہیں بدلا تھا۔ اپنے تزویراتی محل وقوع اور بڑے تجارتی راستوں کے علاوہ حج کے روٹس پر واقع ہونے کے باعث درعیہ ایک اہم شہر تھا لیکن وہ بھی چھوٹے شہروں کی طرح ایک لگے بندھے سلسلے میں چل رہا تھا۔

متحد کرنے والی طاقت کی غیرموجودگی میں اکثر حریف بستیوں اور قبائل کے درمیان تنازعات چلتے رہتے تھے اور سالہا سال سے چلے آ رہے اس سلسلے نے ترقی کی راہوں کو کُھلنے سے روک رکھا تھا۔ 1727 میں امام محمد بن سعود کے اقتدار میں آنے کے بعد درعیہ ہی نہیں پوری عرب دنیا میں تبدیلی کی ایک لہر دیکھی گئی۔ درعیہ کی بنیاد 15 ویں صدی میں بنی حنیفہ قبیلے کے مانی المریدی نے رکھی تھی۔ اس کے 300 برس بعد تک آنے والے رہنما انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور الدرعیہ کی ترقی میں مسلسل حصہ ڈالتے رہے۔ 1720 میں قیادت شہزادہ سعود بن محمد بن مرقن کو ملی جو ہاؤس آف سعود کے بانی بھی ہیں۔ وہ 1725 میں اپنی وفات تک حکمران رہے اور ان کی عظیم میراث ان کے فرزند تھے جنہوں نے ان کی جگہ لی۔ امام محمد نے درعیہ کے لیے بے شمار اقدامات کیے۔

آج ہی کے روز 1727 میں ان کے اقتدار سنبھالنے کے لمحے کو سعودی ریاست کے قیام کی طرف اہم قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی بدولت آگے چل کر 23 ستمبر 1932 کو سعودی مملکت وجود میں آئی۔ امام محمد سیاسی فہم و فراست نے اپنے والد سے سیکھی تھی اور اپنے دور حکومت میں انہوں نے اس وقت بطور رہنما اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا جب 1721 میں الاحسا کے بنو خالد قبیلے نے درعیہ پر حملہ کیا۔ امام محمد نے اپنے والد کی فوج کو فتح سے ہمکنار کیا جس سے درعیہ کی علاقائی حیثیت کو مضبوطی ملی۔ 1725 میں والد کی وفات کے بعد امام محمد نے وطبان قبیلے کے زید بن مرخان کی حمایت کا وعدہ کیا اور آنے والے برسوں میں تب تک ان کے ساتھ کھڑے رہے جب تک قتل کے نتیجے میں ان کی حکومت رہی۔ 1727 میں امام سعود کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے امام محمد کو قیادت ملی جو کہ ان کا حق بھی تھا اور وہ اس کے لیے سے موزوں بھی تھے۔ بانی کی سوانح عمری کے علاوہ عربوں کی تاریخی کتب بھی بتاتی ہیں کہ ’درعیہ کے رہنے والوں کو ان کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد تھا کہ وہ علاقے کو تنازعات سے پاک کر دیں گے۔‘

امام محمد پہلے سے ہی اپن چند ذاتی خصوصیات کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے جن میں لگن، نیکی، بہادری اور دوسروں کو متاثر کرنے کی خوبیاں شامل تھیں جبکہ اقتدار ان کے سپرد ہونا ایک ایسا لمحہ تھا جس سے درعیہ ہی نہیں بلکہ نجد اور جزیرہ نما عرب میں نمایاں تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔‘ انہوں نے آنے والے دنوں خود کو ایک دانش مند حکمران بھی ثابت کیا۔ صدیوں کے تنازعات اور چھوٹی موٹی رقابتوں کو ختم کرنے کے لیے پرعزم امام محمد نے عظیم عرب ریاست کے قیام کے لیے عملی کام شروع کیا اور سب سے پہلے نجد اور پڑوسی قصبوں کے درمیان سیاسی و انتظامی اتحاد قائم بنانے کی ٹھانی۔ درعیہ گیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے شائع ہونے والی تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ آسان ہدف نہیں تھا تاہم ان کی 1765 میں ان کی وفات تک امام محمد بن سعود نے وسطی عرب کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ امام محمد کا آخری تحفہ اپنے بیٹے امام عبدالعزیز کو پرامن طور پر اقتدار کی منتقلی تھا اور آگے ان کے دور میں بھی درعیہ کی ترقی کا سلسلہ جاری رہا۔ 1803 میں امام عبدالعزیز کے بیٹے سعود بن عبدالعزیز ان کی جگہ حکمران بنے اور ان کے دور میں پہلی سعودی ریاست اپنے عروج پر پہنچی تھی۔ انہوں نے جزیرہ نما عرب کے بیشتر حصوں پر حکومت کی اور عثمانیوں کو مدینہ اور مکہ کے مقدس شہروں سے بے دخل کیا۔

دراصل  1814 میں سعود بن عبدالعزیز کی وفات پر ان کے بڑے بیٹے اور جانشین امام عبداللہ کو استبول کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہاں سے عثمانی حکومت کو درپیش خطرے کے تدارک کے لیے ایک بڑی فوج بھیجی دی گئی۔ جس کے بعد بحیرہ احمر سے نجد تک کے علاقوں میں جنگوں کا طویل سلسلہ چلا اور 1818 میں درعیہ پر قبضہ ہو گیا۔ ان جنگوں میں بے شمار لوگوں نے امام محمد کے خواب کو بچانے کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ سعودی ریاست کے چوتھے اور آخری حکمران عبداللہ بن سعود کو زنجیروں میں جکڑ کر استنبول لے جایا گیا جہاں ان کو پھانسی دی گئی۔ اس کے باوجود بھی اتحاد اور آزادی کا جذبہ ماند نہیں پڑا اور امام محمد کے لگائے بیج درخت بننا شروع ہوئے جو 1824 سے 1891 تک دوسری سعودی ریاست کی شکل میں ظاہر ہوئے اور بالآخر شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں 1932 میں مملکت سعودی عرب کے قیام تک پہنچے۔ یوں 1727 میں امام محمد بن سعود کے ہاتھوں پہلی سعودی ریاست کی تشکیل کے کام کو ابن سعود نے مکمل کیا۔ 27 جنوری 2022 کو شاہ سلمان نے ملکی تاریخ کے اہم لمحات اور اس قائد کی خدمات کے اعتراف میں یوم تاسیس کا اعلان کیا تھا جن کی دانشمندی کی بدولت صدیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار جزیرہ نما عرب اتحاد اور سلامتی کی تصویر بنا۔