طالبان کے خلاف ایک خاتون ’ہسلیمہ مزاری' کی مثالی مورچہ بندی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-08-2021
خاتون گورنر محاذ پر
خاتون گورنر محاذ پر

 

 

کابل : افغانستان میں طالبان نے حکمت کے تحت خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے،مگر اب کابل سے قندھار تک لوگ طالبان کے خلاف نہ صرف نعرے بلند کررہے ہیں بلکہ ہتھیار بھی اٹھا رہے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ اب خواتین بھی میدان میں آگئی ہیں۔ جو طالبان کے خلاف دو دو ہاتھ کرنے  کو تیار ہیں۔

ایسی ہی ایک خاتون ہسلیمہ مزاری ہیں ۔جو نہ صرف طالبان کے خلاف مورچہ لے رہی ہیں بلکہ اس جنگ کی تیاری میں میلشیا کو بھی بھرتی کررہی ہیں۔

وہ افغانستان کے صوبہ بلخ کے ضلعے چار کنت کی گورنر ہیں جو ان دنوں اپنے ضلعے سے طالبان مخالف ملیشیا کی بھرتی کر رہی ہیں۔ مزاری مردوں کے زیر اثر افغانستان کی ایک خاتون ضلعی گورنر ہیں اور ایک مشن پر ہیں۔

طالبان سے لڑنے کے لیے مردوں کو بھرتی کررہی ہیں۔ سلیمہ اس گانے کے بول پر عمل کر رہی ہیں جو وہ اپنی گاڑی میں سنتی رہتی ہیں یعنی ’مادر وطن میں اپنی جان تجھ پر وار دوں‘۔ سلیمہ یہی دوسروں سے کہہ رہی ہیں۔ طالبان نے مئی کے آغاز سے ہی افغانستان کے زیادہ تر دیہی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا ہے جب سے امریکی افواج کے انخلا کا آعاز ہوا ہے۔

ان علاقوں میں زندگی قدرے تبدیل ہو گئی ہے جہاں عسکریت پسندوں نے قبصے کیے ہیں خاص طور پر چارکنت میں جو پہاڑوں اور وادیوں پر مبنی ضلع ہے اور سلیمہ مزاری اس کی گورنر ہیں۔ صوبہ بلخ میں مزارے شریف سے ایک گھنٹے کی دوری پر ضلعے چارکنت میں صورتحال کشیدہ ہے۔ سلیمہ مزاری کا کہنا ہے کہ ’طالبان وہی ہیں جو انسانی حقوق کو پامال کرتے ہیں۔‘ طالبان کے دور حکومت میں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع نہیں دیے گئے لیکن 2001 میں عسکریت پسندوں کا تختہ الٹنے کے بعد رویوں میں کچھ تبدیلی آئی تھی۔

 سلیمہ نے بتایا کہ سماجی لحاظ سے لوگ خواتین کو رہنماؤں کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ سلیمہ مزاری ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں جس میں اکثریت شیعہ فقہے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہے اور اسے سنی طالبان کم تر فقہ سمجھتے ہیں۔ اس برادری پر طالبان اور داعش مستقل حملے کرتے رہے ہیں جس میں سکول پر کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں 80 لڑکیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔

pic.twitter.com/HdvyfuMfcb

جس ضلعے کی مزاری گورنر ہیں اس کے آدھے سے زیادہ علاقے پر طالبان پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں اور وہ بقیہ کے دفاع کے لیے زیادہ تر وقت جنگجووں کی بھرتی میں صرف کرتی ہیں۔ سیکڑوں مقامی افراد جن میں کسان، چرواہے اور مزدور شامل ہیں ان کے مقصد میں ان کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ سلیمہ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے لوگوں کے پاس بندوقیں نہیں ہیں لیکن انہوں نے جاکر اپنی گائیں، دنبے حتی کہ اپنی زمینیں بھی بیچیں ہیں تاکہ اسلحہ خریدا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر دن و رات محاظ پر ہوتے ہیں اور اس کی انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملتی۔

ضلعی پولیس کے سربراہ سعید نذیر سمجھتے ہیں کہ طالبان نے اس علاقے پر مقامی مزاحمت کی وجہ سے قبضہ نہیں کیا ہے۔ ان کے مطابق ’ہماری کامیابیاں ہمارے لوگوں کی مدد کی بدولت ہیں۔‘ سلیمہ مزاری نے اب تک 600 مقامی افراد کو ضلعے میں روایتی سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے بھرتی کیا ہے۔ ان میں 53 سالہ سید منور بھی شامل ہیں جنہوں نے 20 برس بعد ہتھیار اٹھائے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم دستکاری اور مزدوری کرتے تھے لیکن پھر طالبان نے ہمارے گاؤں پر حملہ کر دیا۔‘ ’انہوں نے قریبی گاؤں پر قبضہ کر لیا اور ان کے قالین اور دیگر اشیا ہتھیا لیں اس کے بعد ہم نے مجبورا اسلحہ خریدا ہے۔‘ تعلیم رک گئی ہے فیض محمد ایک اور رضاکار ہیں جن کی عمر 21 برس ہے۔ انہوں نے پولیٹیکل سائنس کی تعلیم طالبان سے لڑائی کے لیے چھوڑ دی ہے۔ تین ماہ قبل تک انہوں نے کوئی لڑائی دیکھی تک نہیں تھی لیکن تین ماہ بعد وہ تین لڑائیوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

چارکنت کے دیہاتیوں کے ذہنوں میں 2001 سے قبل کی تلخ یادیں تازہ ہیں جب طالبان کی حکومت تھی۔ گورنر مزاری کو معلوم ہے کہ اگر وہ دوبارہ آگئے تو خواتین کو کلیدی کرداروں میں قبول نہیں کریں گے۔