سابق افغانی وزیرخزانہ واشنگٹن میں اوبرچلانے پر مجبور

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 21-03-2022
 سابق افغانی وزیرخزانہ واشنگٹن میں اوبرچلانے پر مجبور
سابق افغانی وزیرخزانہ واشنگٹن میں اوبرچلانے پر مجبور

 

 

واشنگٹن: افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یوں تو بہت سی خبریں سامنے آئی ہیں،بات ملک کی خواتین کی ہو یا پھر تعلیم کی ۔متعدد معاملات دنیا میں توجہ کا مرکز بنے ۔اس کے ساتھ وہ لوگ بھی سرخیوں میں آئے جنہوں نے طالبان کی واپسی سے قبل یا بعد ملک چھوڑا تھا۔ ان میں ایک وزیر بھی تھے۔ امریکی اخبار دا واشنگٹن پوسٹ کے مطابق خالد پائندہ جو کبھی اشرف غنی کی حکومت میں وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہے تھے، واشنگٹن ڈی سی میں اوبر چلا رہے ہیں۔

انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’اگر میں اگلے دو دنوں میں 50 ٹرپس مکمل کرتا ہوں تو مجھے 95 ڈالرز کا بونس ملے گا۔‘ 40 سالہ خالد پائندہ نے امریکی تعاون سے چھ بلین ڈالر کے بجٹ کی نگرانی کی تھی۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس ہفتے کے شروع میں ایک رات میں انہوں نے چھ گھنٹے کے کام کے لیے 150 ڈالر سے کچھ زیادہ کمائے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے قابل ہونے کے موقع کے لیے شکر گزار ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی میرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں یہاں کا نہیں ہوں اور میں وہاں کا نہیں ہوں۔ یہ بہت خالی احساس ہے۔‘

افغانستان کو ایک انسانی اور معاشی بحران کا سامنا ہے جہاں اثاثے منجمد اور بین الاقوامی امداد کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ بیان کیا ہے کہ 2020 کے آخر میں پائندہ کی والدہ کورونا وائرس کا شکار ہو کر کابل کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں، وہ اس کے بعد وزیر خزانہ بنے۔

پائندہ نے بتایا کہ ’میں نے بہت بدصورتی دیکھی اور ہم ناکام رہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’میں ناکامی کا حصہ تھا۔ یہ مشکل ہوتا ہے جب آپ لوگوں کے دکھ کو دیکھتے ہیں اور آپ خود کو ذمہ دار محسوس کرتے ہیں۔‘

انہوں واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ افغانوں میں ’اصلاح کرنے، سنجیدہ ہونے کی اجتماعی مرضی نہیں تھی‘ تاہم خالد پائندہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کو نائن الیون کے بعد کی پالیسی کا مرکز بنا کر جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے کئے گئے وعدوں سے پھر گیا۔

طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے سے ایک ہفتہ قبل پائندہ نے وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ اشرف غنی کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ خالد پائندہ اس خوف سے کہ صدر انہیں گرفتار کر لیں گے، امریکہ چلے گئے تھے۔

پائندہ نے طالبان کے افغانستان پر قبضے کے دن کابل میں عالمی بینک کے ایک اہلکار کو اپنے پیغام میں بتایا کہ ’ہمارے پاس 20 سال تھے اورایک ایسا نظام بنانے کے لیے جو لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرے ہمیں پوری دنیا کی حمایت حاصل تھی۔ ہم نے جو کچھ بنایا تھا وہ تاش کا ایک گھر تھا جو اس تیزی سے گرا۔ ایک ایسا گھر جو کرپشن کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔‘