ہمارےخواب پورے نہیں ہوں گے:افغان طالبات

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 03-11-2021
 ہمارےخواب پورے نہیں ہوں گے:افغان طالبات
ہمارےخواب پورے نہیں ہوں گے:افغان طالبات

 

 

آواز دی وائس، ایجنسی 

یونیورسٹی کی طالبہ حوا کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر اپنی کورس کی کتابوں کی ورق گردانی کر رہی ہیں۔

ذرائع کےمطابق سینکڑوں ہزاروں دوسری افغان لڑکیوں کی طرح 20 سالہ حوا جو رشین لیٹریچر کی طالبہ ہیں، کو ابھی تک اپنی کلاس میں جانے کی اجازت نہیں ملی ہے اور یہ اگست کے وسط سے ہو رہا ہے جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا۔

یہ طالبہ بھی اپنی بے شمار ساتھیوں کی طرح فرسٹریشن اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں ہے کیونکہ ان کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ روکی جا رہی ہے۔ حوا نے  بتایا کہ ’ہم گھروں میں بیٹھنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔‘

ان کا گھر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع ہے جہاں آج کل وہ ڈرائنگ کر کے، کتابیں پڑھ کے اور گھر کا کام کاج کر کے وقت گزار رہی ہیں۔ حوا کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں توہم اپنی فیملیز کو بھی پال سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مایوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ’میں اپنے خوابوں کو پورا ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہی۔‘ سخت گیر اسلامی گروپ نے مغرب کی حمایت رکھنے والی حکومت سے اقتدار چھینا، اس کی جانب سے لڑکوں کو چھوٹی لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت دی گئی ہے جب کہ سیکنڈری کلاسز کی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں نہیں جانے دیا جا رہا۔

زیادہ تر پبلک یونیورسٹیاں بند ہو گئی ہیں جبکہ کچھ جزوی طور پر کام کر رہی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکومتی حکام نے افغان شہریوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اسلامی قوانین کے مطابق سب کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا جس میں لڑکیوں کا اسکول اور خواتین کا کام پر جانا بھی شامل تھا، مگر اس کو پورا نہیں کیا گیا۔

ان کی جانب سے بین الاقوامی امدادی اداروں پر امداد میں کمی کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے سکولوں اور یونیورسٹیوں کا کھلنا مشکل ہو گیا ہے۔

طالبان کے تین ماہ سے زائد کے دور حکومت میں ابھی تک ایسا نہیں ہوا جبکہ کچھ لوگ ان پر شوک و شہبات بھی رکھتے ہیں کیونکہ 1996 سے 2001 تک کے ان کے پچھلے دور حکومت میں بھی لڑکیوں سے سکول جانے اور خواتین کو کام کرنے سے روکا گیا تھا۔

یونیسکو کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں 40 فیصد سے بھی کم لڑکیاں سیکنڈری تعلیم حاصل کر رہی تھی جب کہ اس وقت اس کی آزادی بھی تھی۔

مغربی حمایت یافتہ 20 سال کی حکمرانی اور اربوں ڈالر کی غیر ملکی امداد کے باوجود ملک کا بیشتر حصہ قدامت پسند ہے۔ اور ان اقدامات کا مقصد ہی مساوات اور شہری حقوق کو فروغ دینا تھا۔ تاہم 2001 تک شہری علاقوں میں لڑکیوں نے آزادی کے ساتھ زندگی گزاری جبکہ ان کو اب اس کی اجازت نہیں مل رہی۔

حوا کہتی ہیں ’ہم میں سے وہ لڑکیاں جو یونیورسٹیز میں پڑھیں اور ملازمت بھی کر رہی تھیں، وہ اپنے خاندانوں کی کفالت میں مدد دے رہی تھیں، یقیناً ابھی ہمیں کچھ نہیں ملے گا کیونکہ وہ (طالبان) کہتے ہیں کہ 20 سال کے دوران جو کچھ پڑھا گیا وہ سب بے کار تھا۔‘

اسی شہر میں 17 سالہ سحر بھی گھر تک محدود ہیں۔ وہ انجینیئر بننا چاہتی ہیں اس لیے ان دنوں وہ جتنا پڑھ سکتی ہیں، گھر پر ہی پڑھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں گھر پر اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن اسکول، کلاس روم، دوست اور اساتذہ کی غیرموجودگی میں گھر پر ویسا ماحول نہیں بن پاتا۔‘

awaz

سحر نے بڑے فخر سے روئٹرز کو اس وقت اپنی کلاس روم کے اطراف دکھائے جب ایک سکول مینیجر نے سحر کو اندر جانے کی اجازت دی۔ سحر نے بتایا کہ ’میں واپس اپنی کلاس میں جانا چاہتی ہوں، اور اپنے ساتھیوں اور ٹیچرز کے ساتھ اپنی پڑھائی کو بحال کرنا چاہتی ہیں۔‘

یہ بات انہوں نے باہر سے کہی تھی، اس وقت ان کی نگاہیں کلاس روم کے  اندر پڑے ڈیسکس دیکھ رہی تھیں، جن پر گرد جمی ہوئی تھی۔ سحر کے چھوٹے بہن بھائی جب اسکول سے واپس آتے ہیں تو سحر انہیں ہوم ورک کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

’وہ جب واپس آتے ہیں تو اپنی کلاس اور ساتھیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جس سے میں اداس ہو جاتی ہوں کیونکہ میں اسکول نہیں جا سکتی۔‘

ان کی 10سالہ بہن ہادیہ کے مطابق ان کے کچھ اساتذرہ اور کلاس کے ساتھی اب اسکول نہیں آتے جن کے بارے میں یہی خیال ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد شہر میں بننے والی افراتفری کی صورت حال کے دوران کابل چھوڑ گئے ہیں۔

اسی طرح ہادیہ کو بھی مشکلات کا احساس ہونے لگا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں چوتھی میں ہوں، میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں لیکن دو سال بعد میری بہن کی طرح مجھے بھی تعلیم سے روک دیا جائے گا اور میں اپنا خواب مکمل نہیں کر پاؤں گی، مجھے یہ بات بہت خوفزدہ کرتی ہے۔‘