فوج کے کردار کو سیاسی رنگ نہ دیں سیاسی جماعتیں : پاکستانی فوج

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 25-04-2023
 فوج کے کردار کو سیاسی رنگ نہ دیں سیاسی جماعتیں : پاکستانی فوج
فوج کے کردار کو سیاسی رنگ نہ دیں سیاسی جماعتیں : پاکستانی فوج

 

اسلام آباد: پاکستان میں ایک بار پھر فوج نے کہا ہے کہ اسے سیاست سے دور رکھا جائے یا سیاسی جماعتیں فوج پر سیاسی رنگ  نہ لگائیں -پاکستان کی سیاست میں پچھلے چند ماہ سے جاری سیاسی اتھل پتھل کے سبب ہر کسی کی نظر فوج پر رہتی ہے کہ فوج کس کا ساتھ دے گی اور یا ملک کے جو سیاسی تبدیلیاں ہورہی ہیں اس میں کتنا ہاتھ ہے _

جس کے سبب پاکستانی فوج پر آنے والے دن کچھ نہ کچھ الزامات آئے ہو رہے ہیں پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ’پاکستان کے عوام اور فوج نہیں چاہتے کہ فوج سیاست میں ملوث ہو اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو فوج کے پیشہ وارانہ اور غیر سیاسی کردار کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔‘

منگل کو راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ انتخابات کے لیے فوج کو طلب کرنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔
’اس سال شیڈولڈ انتخابات کے انعقاد کے لیے فوج کی دستیابی کے متعلق فوجی حکام زمینی حقائق پر مبنی ایک رپورٹ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پہلے ہی جمع کروا چکے ہیں۔‘ 
 ایک سوال کے جواب میں احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ججز سے اعلٰی فوجی حکام کی ملاقات کی تفصیلات منظر عام پر لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
دی جی آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ طاقت کا اصل محور پاکستان کے عوام ہیں۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ احمد شریف چوہدری کی گزشتہ سال دسمبر میں تعیناتی کے بعد یہ پہلی باضابطہ پریس کانفرنس تھی۔
اس کے آغاز میں ہی صحافیوں سے کہا گیا تھا کہ موضوع گفتگو خالصتاً سکیورٹی معاملات ہیں اس لیے دیگر سوالات سے اجتناب کیا جانا چاہیے تاہم صحافیوں کی طرف سے پوچھے گئے متعدد سوالات کے انہوں نے نپے تلے انداز میں جوابات دیے۔
اسی نوعیت کے کچھ سوالوں کے جواب دیتے ہوئے احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’فوج کے لیے تمام سیاسی جماعتیں محترم ہیں۔‘
’اقوام عالم میں کسی بھی ملک میں اگر فوج کو ایک خاص سیاسی سوچ یا مذہبی نظریے کی سرکوبی کے لیے استعمال کیا گیا ہے تو وہاں انتشار ہی پھیلا ہے۔ اس لیے عوام اور فوج دونوں نہیں چاہتے کہ فوج سیاست میں ملوث ہو۔‘