مہسا امینی کی موت: ایران بھر میں مظاہرے۔ چھ افراد ہلاک

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
مہسا امینی کی موت: ایران بھر میں پھیل جانے والے مظاہروں میں چھ افراد ہلاک
مہسا امینی کی موت: ایران بھر میں پھیل جانے والے مظاہروں میں چھ افراد ہلاک

 

 

تہران: ایران میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی گرفتاری کے بعد پولیس حراست میں پراسرار موت کے خلاف کئی روز سے جاری مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ نے بدھ کو کہا کہ حالیہ مظاہروں کے دوران گذشتہ شب دو مزید مظاہرین مارے گئے جس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ ہو گئی۔

جمعے کو ایرانی حکام کی جانب سے 22 سالہ مہسا امینی کی موت کا اعلان کے بعد عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی جن کو گذشتہ ہفتے مبینہ طور پر سکارف کو نامناسب طریقے سے پہننے کی وجہ سے دارالحکومت تہران میں حراست میں لیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ حراست کے دوران امینی پر تشدد کیا گیا اور سر پر چوٹ لگنے سے ان کی موت واقع ہوئی تھی، تاہم حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ مظاہروں کے دوران کئی خواتین نے اپنے حجاب اتار کر انہیں جلا دیا ڈالا اور علامتی طور پر اپنے بال کاٹ دیے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے 15 شہروں تک پھیل گئے جہاں پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور کئی لوگوں کو گرفتار کیا۔

مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا، پولیس کی گاڑیوں اور کچرے کے ڈبوں کو آگ لگا دی اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔ انسانی حقوق کے گروپ ’آرٹیکل 19‘ نے کہا ہے کہ اسے ’ایرانی پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کی جانب سے آتشی اسلحے اور طاقت کے غیر قانونی استعمال کی رپورٹس پر گہری تشویش ہے۔ ارنا نے رپورٹ کیا کہ تہران، مشہد، تبریز، رشت، اصفہان اور شیراز سمیت ملک کے طول و عرض کے دیگر شہروں میں رات بھر احتجاجی جلوس نکالے گئے۔

وائرل ویڈیوز میں مظاہرین کی جانب سے ’آمریت مردہ باد‘ اور ’عورت، زندگی، آزادی‘جیسے نعرے سنے جا سکتے ہیں۔ ایران کے قدامت پرست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کو عوام سے خطاب کیا لیکن انہوں نے امینی کی موت کے واقعے اور ملک میں پھیلتی ہوئی بدامنی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

امینی کے آبائی صوبے کردستان کے گورنر اسماعیل زری کوشا نے منگل کو کہا تھا کہ احتجاج کے دوران تین افراد مارے گئے ہیں۔ فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گورنر نے اصرار کیا کہ وہ سب ’دشمن کی سازش‘ کے تحت ’مشتبہ طریقے سے مارے گئے۔‘

ناروے میں قائم کرد انسانی حقوق کی تنظیم ’ہینگاو‘ نے بدھ کو کہا کہ منگل کی شب مزید دو مظاہرین مارے گئے۔ مظاہرین میں شامل ایک اور نوجوان جو 17 ستمبر کو دیوانداریہ میں زخمی ہوا تھا، ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ آن لائن ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی فورسز جنوبی شہر شیراز میں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کر رہی ہیں جہاں صبح تک احتجاج جاری رہا۔

امینی کی موت اور مظاہروں پر اقوام متحدہ، امریکہ، فرانس اور دیگر ممالک نے مذمت کی ہے۔ نومبر 2019 میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ ملک میں سب سے بڑا احتجاج ہے۔ ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے منگل کو ان واقعات کی مذمت کی جسے انہوں نے ’غیر ملکی مداخلت پسندانہ عمل‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ بات افسوس ناک ہے کہ کچھ ممالک زیر تفتیش واقعے کو ایران کی حکومت اور عوام کے خلاف اپنے سیاسی مقاصد اور خواہشات کے حصول کے لیے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ ایران کے ٹیلی کمیونیکیشن کے وزیر عیسی زری پور نے بدھ ’سکیورٹی کے مسائل‘ کا حوالہ دیتے ہوئے انٹرنیٹ پر پابندیوں کے بارے میں خبردار کیا۔