چین : لاک ڈاؤن کے خلاف طلبہ کا احتجاج -شی پنگ، حکومت چھوڑو- ہمیں آزادی چاہیے ،کے نعرے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-11-2022
چین : لاک ڈاؤن کے خلاف طلبہ کا احتجاج -شی پنگ، حکومت چھوڑو-  ہمیں آزادی چاہیے ،کے نعرے
چین : لاک ڈاؤن کے خلاف طلبہ کا احتجاج -شی پنگ، حکومت چھوڑو- ہمیں آزادی چاہیے ،کے نعرے

 

 

بیجنگ:چین میں اتوار کو سینکڑوں افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کی ’زیرو کرونا پالیسی‘ کے خلاف احتجاج کیا جو چین جیسے ملک میں عوامی غم و غصے کا ایک غیر معمولی مظاہرہ ہے۔ احتجاجی ویڈیوز میں شرکا کو ’شی جن پنگ، حکومت چھوڑ دو‘ کے نعرے لگاتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔یجنگ میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن کے خلاف سینکڑوں طلبہ نے مظاہرہ کیا اور آزادی رائے کے حق میں نعرے بازی کی۔

چین کے مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاج چوتھے میں دن میں داخل ہو چکے ہیں اور شہری حکومت کی سخت گیر کووڈ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

چین میں احتجاجوں کا یہ سلسلہ 24 نومبر کے ایک واقعے کے بعد شروع ہوا جب چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ کی ایک رہائشی عمارت میں آگ لگنے سے 10 افراد ہلاک جبکہ نو زخمی ہو گئے تھے۔ چینی حکومت کی وائرس پر قابو پانے کی سخت پالیسیوں نے لاکھوں افراد کو گھروں تک محدود کر رکھا ہے۔

صدر شی جن پنگ کی حکومت کو اس کی ’زیرو کووڈ پالیسی‘ کی وجہ سے عوامی غصے کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے ایک دہائی قبل جب سے حکومت سنبھالی ہے، چین میں سول نافرمانی کی ایسی لہر نہیں دیکھی گئی۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں کووڈ سے متعلق پابندیوں میں نرمی کی جا رہی ہے، چین بدستور سخت پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس کی وجہ لوگوں میں بے چینی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت سمجھنا جانے والا ملک معاشی دباؤ میں بھی ہے۔

شنگھائی میں ہونے والے احتجاج میں شامل ایک شہری شان ژیاؤ نے کہا کہ ’میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ میں اپنے ملک سے محبت کرتا ہوں لیکن اس حکومت کو پسند نہیں کرتا۔ میں باہر آزادی سے چلنا پھرنا چاہتا ہوں لیکن بے بس ہوں۔‘ ’ہماری کووڈ پالیسی ایک کھیل ہے۔ یہ کسی حقیقت یا سائنسی بنیاد پر استوار نہیں ہے۔

 بیجنگ کی مشہور چینہوا یونیورسٹی کے طلبہ نے اتوار کو ہونے والے مظاہرے میں حصہ لیا جبکہ دارالحکومت میں واقع ایک اور پیکنگ یونیورسٹی کے طلبہ کا احتجاج سنیچر کی رات سے ہی جاری تھا۔

چین کی یہ سخت حکمت عملی عوام میں مایوسی پھیلا رہی ہے۔ لوگ اچانک لاک ڈاؤن، طویل قرنطینہ اور بڑے پیمانے پر کرونا ٹیسٹ کی ملک گیر مہمات سے تنگ آ چکے ہیں

 

اتوار کے روز لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کے لیے سینکڑوںا فراد نے بیجنگ کی بڑی اور اہم ’سنگھوا یونیورسٹی‘ میں ریلی نکالی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عینی شاہد نے  بتایا کہ ’صبح ساڑھے 11 پر طلبا کینٹین کے دروازے پر پلے کارڈ اٹھائے نمودار ہونا شروع ہوئے، پھر اور لوگ اس میں شامل ہوتے گئے۔اب وہاں 200 سے 300 لوگ ہیں۔‘

شرکا نے قومی ترانہ اور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے نغمے گائے، نعرے لگائے کہ جن کا مفہوم ’آزادی غالب آئے گی‘ اور ’لاک ڈاؤن نہیں، آزادی چاہیے‘ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ طالب علم خالی کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جو چین کی حالیہ سنسر شپ کے خلاف ایک علامتی احتجاج ہے۔

چینہوا یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ ’صبح ساڑھے گیارہ بجے طلبہ یونیورسٹی کی کینٹین کے سامنے بینر لے کر کھڑے ہوئے تھے کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ ان کے ساتھ مل گئے۔ اور اب دو سے تین سو طلبہ مظاہرے میں شامل ہیں۔

مظاہرے میں شامل ایک خاتون طالب علم نے خالی کاغذ پکڑے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جو دراصل سینسرشپ کی جانب اشارہ تھا۔ طلبہ نے بتایا کہ انہوں نے چین کے قومی ترانے کے علاوہ بائیں بازوں کی جماعتوں کا ترانہ انٹرنیشنل بھی گایا اور ’آزادی غالب آئے گی‘، ’مزید لاک ڈاؤنز نہیں، ہمیں آزادی چاہیے‘ کے نعرے لگائے۔

مظاہرے کی ویڈیوز آن لائن پلیٹ فارمز پر بھی شیئر ہوئی ہیں جن میں طلبہ کو مطالبہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ ’یہ نارمل زندگی نہیں ہے۔ ہم نے بہت سہہ لیا۔ اس سے پہلے ہماری زندگیاں ایسی نہیں تھیں۔‘

ایک اور ویڈیو بھی شیئر کی گئی تھی جس میں طلبہ ’جمہوریت اور قانون کی حکمرانی، حق آزادی رائے‘ کے نعرے لگا رہے تھے، لیکن یہ ویڈیو فوراً ہی انٹرنیٹ سے ہٹا لی گئی۔

عینی شاہد نے بتایا کہ یونیورسٹی کے کمیونسٹ پارٹی کے وائس سیکریٹری طلبہ سے مخاطب تھے کہ انہوں نے وہاں سے جانا شروع کر دیا۔

احتجاج کے شرکا میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ’معمولی جھڑپیں ہوئیں لیکن مجموعی طور پر پولیس مہذب تھی۔ یہ حیران کن ہے کہ چین کے موجودہ حالات میں اب بھی بہت سے بہادر لوگ باہر آ چکے ہیں

خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل چین میں چھ ماہ بعد کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت واقع ہوئی تھی جس کے بعد بیجنگ سمیت ملک بھر میں سخت اقدامات نافذ کر دیے گئے تھے۔

 چین میں گزشتہ اتوار کو 24 ہزار سے زائد کورونا کے نئے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے اکثریت ایسے کیسز کی ہے جن کی علامات ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں رہائیشیوں کو شہر کے مختلف اضلاع کے درمیان سفر کرنے سے روکا گیا ہے جبکہ ریستوران، دکانیں، شاپنگ مالز اور اپارٹمنٹ بلڈنگز کی ایک کثیر تعداد کو بند کیا ہوا۔