بائیڈن۔ محمود عباس ملاقات ۔ فلسطینیوں کو انصاف چاہیے، فلسطینی نرس کا امریکی صدر کو پیغام

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-07-2022
 بائیڈن۔ محمود عباس ملاقات ۔ فلسطینیوں کو انصاف چاہیے، فلسطینی نرس کا امریکی صدر کو پیغام
بائیڈن۔ محمود عباس ملاقات ۔ فلسطینیوں کو انصاف چاہیے، فلسطینی نرس کا امریکی صدر کو پیغام

 

 

 مشرقی یروشلم : امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے آج فلسطینی قیادت سے ملاقات کی  ۔اس ملاقات کا ایک طویل عرصے سے انتظار تھا ۔ بائیڈن مے دورہ مشرقی وسطی کا ایک اہم پڑاو مانا جارہا تھا۔ اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا، '' فلسطینی اور اسرائیلی ایک طرح کی آزادی، سکیورٹی، خوشحالی اور احترام کے مستحق ہیں۔‘‘ ایسٹ یروشلم ہسپتال نیٹ ورک کی ایک علاج گاہ کا دورہ کرتے ہوئے امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسطینی بہتر طبی سہولیات کے حق دار ہیں۔ امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے طبی سہولیات فراہم کرنے کے مقصد سے 100 ملین ڈالر کی رقم کا اعلان کیا گیا ہے تاہم اس کی منظوری امریکی کانگریس دے گی۔ اس کے علاوہ امریکی صدر نے اقوام متحدہ کے ادارہء برائے فلسطینی مہاجرین اور دیگر منصوبوں کے لیے 201 ملین ڈالر کا بھی اعلان کیا۔

اسرائیل نے بھی مغربی کنارے اور غزہ میں وائرلیس نیٹ ورک کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے تاکہ یہاں کے اقتصادی حالات بہتر بنائے جا سکیں۔

ہسپتال کے بعد امریکی صدر بیت الحم کا دورہ کر رہے ہیں جہاں انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کی۔

امریکی صدر کے مغربی کنارے کے دورہ کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جارہا ہے۔ بہت سے فلسطینی سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کو مکمل نظر انداز کیے جانے کے بعد  صدر بائیڈن نے بھی امن مذاکرات کی بحالی سے متعلق اہم اقدامات نہیں اٹھائے۔ جس وقت صدر بائیڈن ہسپتال کے دورے پر تھے اس دوران ایک نرس نے امریکی صدرکی جانب سے پیش کی جانے والی مالی امداد کا شکریہ کیا لیکن کہا کہ فلسطینیوں کو انصاف اور عزت چاہیے۔

اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرات کے لیے ماحول موافق نہیں

اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرات کا آخری اہم دور، جس کا مقصد ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تھا، دس سال پہلے منعقد ہوا تھا۔ اسرائیل کی سبکدوش ہونے والی حکومت نے فلسطین کی اقتصادی بحالی کے لیے کچھ اقدامات کو کیے ہیں لیکن یائر لاپیڈ کے پاس امن مذاکرات بحال کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

دوسری جانب 83 سالہ محمود عباس جن کی فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کے کچھ علاقوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے اور جو سکیورٹی کے معاملات پر اسرائیل سے تعاون بھی کرتی ہے، دراصل فلسطینیوں کے احساسات کی درست نمائندگی نہیں کرتی۔ محمود عباس کی فتح جماعت کو پندرہ سال قبل انتخابات میں عسکریت پسند گروپ حماس نے شکست دی تھی۔ غزہ بھی حماس کے کنٹرول میں ہے۔ پندرہ سال بعد یہاں کرائے جانے والے انتخابات کو گزشتہ سال محمود عباس نے معطل کر دیا تھا اور اس کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہ فتح پارٹی ایک مرتبہ پھر بری طرح ناکام ہو گی۔ فلسطین میں 80 فیصد شہری چاہتے ہیں کہ محمود عباس اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔

بائیڈن نے اپنے دورے کے دوران کہا ہے کہ وہ دو ریاستوں کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ابھی فلسطین اور اسرائیل کے مابین مذاکرات کی بحالی کے حوالے سے حالات موافق نہیں ہیں۔ امریکہ یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے اپنے قونصل خانہ اب تک نہ کھلنے کو بھی اپنی شکست تسلیم کرتا ہے۔ یہ قونصل خانہ اس وقت بند کر دیا گیا تھا جب اس سابق امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا۔

ابراہم اکارڈز پر شدید تحفظات

فلسطینی رہنما 'ابراہم اکارڈز‘ نامی معاہدے سے بھی خاصے پریشان ہیں۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے باوجود اس ملک کے عرب دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی تک سعودی عرب اس معاہدے میں مکمل شراکت دار کے طور پر شامل نہیں ہے لیکن امریکی صدر سعودی عرب کے دورے کے دوران اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس دوران سعودی عرب کی جانب سے 'تمام‘ پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولے جانے کا اعلان سامنے آیا ہے، جس کے تحت پہلی مرتبہ اسرائیل سے براہ راست فضائی طیارہ سعودی عرب پہنچے گا۔ اس پہلی تاریخی پرواز میں جمعے کو امریکی صدر سعودی عرب پہنچ رہے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کی تعلقات کی بہتری کی ایک بڑی وجہ ایران ہے جو دونوں ممالک کا حریف ملک ہے۔

فی الحال  مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ، جن پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا، وہاں ایک آزاد ریاست کا فلسطینی ہدف پہلے سے کہیں زیادہ دور دکھائی دیتا ہے۔

اسرائیل الحاق شدہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں اپنی بستیوں کو بڑھا رہا ہے، جو اب تقریباً 700,000 یہودی آباد کاروں کے گھر ہیں۔ فلسطینی ان بستیوں کو امن مذاکرات کی سب سے بڑی روکاوٹ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بستیاں ان علاقوں پر  مشتمل ہیں جسے وہ اپنی زمین سمجھتے ہیں۔