بلوچستان:کوئلے کی کان میں پھنسے مزدور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-03-2022
بلوچستان:کوئلے کی کان میں پھنسے مزدور
بلوچستان:کوئلے کی کان میں پھنسے مزدور

 

 

کوئٹہ : بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلے کی کان میں تقریباً 13 سو فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے کان کنوں کو تین دن گزرنے کے باوجود نہیں نکالا جاسکا ہے۔ امدادی ٹیموں کو کان میں متبادل راستہ موجود نہ ہونے، ملبے اور گیس کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

محکمہ معدنیات کے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ کان کو حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دو برس قبل بند کردیا گیا تھا مگر کان کے مالک ایک بااثر شخصیت ہیں جنہوں نے حفاظتی انتظامات کا بندوبست کیے بغیر خلافِ قانون دوبارہ کوئلہ نکالنا شروع کرا دیا تھا جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ ڈپٹی کمشنر ہرنائی سردار محمد رفیق ترین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوئٹہ اور ہرنائی کے درمیانی علاقے زرغون غر میں واقع کوئلے کی کان میں حادثہ منگل کی صبح پیش آیا جہاں گیس بھر جانے سے دھماکہ ہوااور کان کا ایک بڑا حصہ منہدم ہوگیا۔

ڈپٹی کمشنر کے مطابق ’حادثے کے وقت کان میں چھ کان کن کام کر رہے تھے جن میں سے تین کو ساتھی کان کنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زندہ نکال لیا جبکہ تین کان کن 13 سو فٹ گہرائی میں پھنس گئے۔ جنہیں تین دن گزرنے کے باوجود بھی نہیں نکالا جا سکا۔ ان کے زندہ بچ جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔‘ ’پھنسے ہوئے مزدوروں کے رشتہ دار کان کے باہر ’معجزے کے منتظر‘ انہوں نے بتایا کہ ’کان کنوں کو نکالنے کے لیے کوئٹہ اور ہرنائی سے پی ڈی ایم اے، محکمہ معدنیات، پی پی ایچ آئی اور لیویز فورس کی امدادی ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ امید ہے کہ آج یا کل تک ہم کان کنوں کو نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘

پھنسے ہوئے کان کنوں میں ایک مقامی جبکہ دو افغان پناہ گزین بتائے جاتے ہیں۔ ہرنائی میں کوئلہ مزدوروں کی تنظیم کے ایک رہنما محمد یونس نے بتایا کہ ’حادثے کی اطلاع ملنے پر متاثرہ کان کنوں کے رشتہ دار بھی موقع پر پہنچے ہوئے ہیں تاہم سینکڑوں فٹ گہری اور تاریک کان میں پھنسے ہوئے اپنے پیاروں سے متعلق انہیں کوئی خبر نہیں۔ وہ کان کے باہر بیٹھ کر دعا کررہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہوجائے تو اور ان کے پیارے بچ جائے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے رہنما لالہ سلطان کے مطابق پرونشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور محکمہ معدنیات کی امدادی ٹیمیں 10 گھنٹے تاخیر سے پہنچیں۔ ریسکیو ٹیموں کے پاس کوئی ضروری آلات بھی نہیں اس لیے ریسکیو کا زیادہ تر خود کان کن کررہے ہیں جو قریب واقع دیگر کانوں سے وہاں پہنچے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ’کوئلہ کان کے مالک ایک سابق رکن قومی اسمبلی کے بھائی ہیں جس نے کان کے اندر حفاظتی انتظامات کا کوئی خیال نہیں رکھا اور کان کنوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا۔

‘ ’کان میں متبادل راستہ موجود ہی نہیں تھا‘ لالہ سلطان کے مطابق ہر کان میں ایک متبادل راستہ دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ عام حالت میں آکسیجن کی فراہمی اور گیس کا اخراج ہو سکے اور اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس راستے کو استعمال کرکے باہر نکلا جاسکے مگراس کان میں نہ صرف متبادل راستہ موجود نہیں تھا بلکہ 1300 فٹ سے زائد گہرائی سے کوئلہ نکالنے کے لیے راستہ بھی بہت تنگ بنایا گیا تھا جبکہ قانون کے مطابق کان کی چوڑائی چھ فٹ اور اونچائی سات فٹ سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ کان میں حفاظتی انتظامات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اس میں متبادل راستہ موجود ہی نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ متبادل راستہ نہ ہونے کی وجہ سے کان میں گیس کی مقدار بہت زیادہ جمع تھی، اس لیے دھماکے کی شدت زیادہ تھی اور اس کے نتیجے میں کان کا چار سو سے پانچ سو فٹ حصہ بیٹھ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کان کے اندر مٹی، پتھر اور لکڑی پر مشتمل ملبے کا ایک پہاڑ بن گیا ہے۔ ملبہ ہٹانے کا کام مزدوروں کو کرنا پڑتا ہے مگر ٹھیکیدار کے پاس مزدوروں کی تعداد بھی بہت کم ہیں جس کی وجہ سے ریسکیو آپریشن مکمل کرنے میں تاخیر ہورہی ہے۔ ہماری چار سے پانچ ٹیمیں باہر سے کان میں گیس کو کنٹرول کررہی ہیں تاکہ مزید کوئی نقصان نہ ہو۔‘