کیا ہے کہانی 'یوم خواتین' کی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 07-03-2024
کیا ہے کہانی 'یوم خواتین' کی
کیا ہے کہانی 'یوم خواتین' کی

 

زیبا نسیم 

عالمی یوم خواتین___ ہر سال یہ دن پوری دنیا میں بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا رہا ہے جس کا مقصدجنسی مساوات کو فروغ دینا ہے ۔ اِس کے ساتھ ہی خواتین کی سماجی،معاشی،ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں کو سراہنا اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ان مقاصد میں سے ایک ہے ۔ خواتین کا عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد اُن کو زندگی کے تمام حقوق اور تحفظ فراہم کرنا ہے جن کی بناء پر ہر عورت اپنی زندگی خود مختار ہوکر جی سکے_
 آپ کو بتا دیں کہ عالمی یومِ خواتین دنیا بھر میں رنگ، نسل، قوم، ملک اور مذہب سے بالاتر ہو کر منایا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر کی خواتین اپنی معاشرتی کاوشوں، حقوق کے لیے جدوجہد، مساوات کے لیے کوششوں اور مختلف شعبہ ہائے جات میں نمایاں کارکردگی کا اظہار کرتی ہیں۔ ساتھ ہی اس عزم کا اعادہ بھی کہ تمام معاشرہ میں صنفی بنیادوں کو موجود امتیاز کے خاتمے اور تمام شعبہ ہائے جات میں مساوی مواقع کے لیے مزید کوششیں جاری رکھی جائیں گی

اگر بات کریں کہ کب اور کیسے شروع ہوا تھا یوم خواتین۔تویہ سلسلہ نیویارک سے شرو ع ہوا تھا جہاں خواتین نے اپنی ملازمت کی شرائط کو بہتر بنوانے کے لئے مظاہرہ کیا تھا، جلسے جلوس ہوئے، خواتین پر تشدد بھی ہوا۔ ان کے اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعےکچل دیا گیا، پھر 1908 میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے ’’وومین نیشنل کمیشن‘‘ بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد مطالبات مان لئے گئے ۔جس کے سبب فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا تھا۔

یعنی کہ آج سے 103 سال قبل 1908 میں ہوا جب نیویارک کی سڑکوں پر 15 سو خواتین مختصر اوقات کار، بہتر اجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لئے مارچ کرنے نکلیں۔ان کے خلاف نہ صرف گھڑ سوار دستوں نے کارروائی کی بلکہ ان پر تشدد بھی کیا گیا اور ان میں سے بہت سی خواتین کو گرفتار کیا گیا۔

سال 1909میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے خواتین کا دن منانے کی قرارداد منظور کی اور پہلی بار اسی سال 28 فروری کو امریکا بھر میں خواتین کا دن منایا گیا اور اس کے بعد 1913 تک ہر سال فروری کے آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا رہا۔

سال 1910کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس ہوئی جس میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلارا زیٹکن نے ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا دن منانے کی تجویز پیش کی جسے کانفرنس میں شریک 17 ممالک کی شرکا نے متفقہ طور پر منظور کیا۔

سال 1911میں 19 مارچ کو پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا اور آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں 10 لاکھ سے زائد خواتین اور مردوں نے اس موقع پر کام، ووٹ، تربیت اور سرکاری عہدوں پر خواتین کے تقرر کے حق اور ان کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں حصہ لیا۔  

اسی سال 25 مارچ کو نیویارک سٹی میں آگ لگنے کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ٹرائی اینگل فائر کے نام سے یاد کی جانے والی اس آتشزدگی میں 140 ملازمت پیشہ خواتین جل کر ہلاک ہو گئیں جس سے نہ صرف امریکا میں کام کرنے والی خواتین کے خراب ترین حالات سامنے آئے بلکہ ان حالات کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کا سارا زور بھی امریکا کی طرف ہوگیا۔

فروری سنہ 1913 میں پہلی بار روس میں خواتین نے عالمی دن منایا تاہم اسی سال اس دن کے لیے 8 مارچ کی تاریخ مخصوص کر دی گئی اور تب ہی سے دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔  

بعد ازاں اس دن کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے بھی 8 مارچ کو یوم خواتین مان کر 1975 میں اپنے کیلینڈر میں شامل کرلیا۔تمام ملکوں پر یہ ایجنڈا لاگو کردیا جس کی رو سے خواتین اور مردوں میں ہر قسم کا امتیاز ختم کیا گیا۔مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ بات ایک دن تک ہی کیوں محدود رہ جاتی ہے؟ حیرت اور افسوس کی بات یہی ہے کہ یون خواتین منانے کی تاریخ پرانی ہوگئی ہے لیکن اب بھی دنیا کا کوئی ملک مکمل طور نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا یہاں تک کہ امریکہ جیسا ملک جہاں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے مگر پھر بھی بے پناہ مسائل میں گھری نظر آتی ہے۔یہی سب سے اہم بات ہوگی کہ خواتین کو عام زندگی میں کس طرح ان کے حقوق کو محفوظ کیا جاسکے۔اس وقت وھی دنیا بھر میں خواتین کو مبارک باددئیے جانے کی خبریں آرہی ہیں تو ہندوستان میں جہیز کے سبب خودکشی کرنے والی عائشہ کا چہرہ ہر کسی کے سامنے آرہا ہے۔ ایسےواقعات بتا رہے ہیں کہ خواتین کی لڑائی ابھی باقی ہے اور اس کو صرف قانون سے نہیں بلکہ عام بیداری سے لڑا جاسکتا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی سرچ انجن گوگل ہر عالمی دن اور خصوصی مواقع پر ڈوڈل جاری کرتی ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی گوگل نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر ڈوڈل جاری کیا ہے۔ اس سال جاری کیے گئے اینیمیٹڈ ڈوڈل ویڈیو میں خواتین کی ایک صدی سے زائد عرصےکی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔

 ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے کا نصف حصہ خواتین کی اکثریت ہے جو شعور و آگاہی کے باوجو دآج بھی اپنے حقوق سے محروم ہے۔ اِ ن تمام حا لات کے پیش نظر ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن تمام تر کوششوں کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات بھی کیے جائیں جو سماج میں پھیلی ہوئی نا انصافیوں کا جڑ سے خاتمہ کر سکیں ۔ کیونکہ یہ یک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے کا نصف حصہ خواتین کی اکثریت ہے جو شعور و آگاہی کے باوجو دآج بھی اپنے حقوق سے محروم ہے۔ اِ ن تمام حا لات کے پیش نظر ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن تمام تر کوششوں کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات بھی کیے جائیں جو سماج میں پھیلی ہوئی نا انصافیوں کا جڑ سے خاتمہ کر سکیں