زبان پر مذہب کو ترجیح دینا ہی اردو کا زوال ہے۔ جاوید اختر

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-02-2024
زبان پر مذہب کو ترجیح دینا ہی اردو کا زوال ہے۔ جاوید اختر
زبان پر مذہب کو ترجیح دینا ہی اردو کا زوال ہے۔ جاوید اختر

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی

مجھے اہل اردو سے یہ شکایت ہے کہ جب اردو اور مذہب کا معاملہ آتا ہے تو اپ مذہب کو ترجیح دیتے ہیں ، یہی اردو کے زوال کا سبب ہے۔اپ جتنا وقت اپنے بچے کو مذہب سکھانے میں لگاتے ہیں اتنا ہی وقت اپ اردو کو سکھانے میں لگا سکتے ہیں،اگر ہم مذہب کی طرح اپنے بچوں کو اردو سکھائیں گے تو میرا دعوی ہے کہ وہ بچے بہت اچھے انسان بنیں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جو یہودی ہمیں پسند نہیں ہیں انہوں نے دو ہزار سال تک اپنی زبان کو زندہ رکھا ہے،نہ اسکول تھا اور نہ کوئی اور انتظام ۔دراصل انہوں نے زبان کو گھروں میں زندہ رکھا۔آپ بھی سبق لیں ،گھروں میں  اردو پڑھائیں اپنے بچوں کو، کوئی منع نہیں کرتا اپ کے گھر پہ چھاپہ نہیں پڑے گا۔

ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور اور گیت کار جاوید اختر نے راجدھانی میں انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام چار روزہ  میر کی دلی۔شاہجہاں آباد ۔ ایک شہر ممکنات میں کیا ۔وہ فیسٹول کے افتتاحی دن ثقافتی محفل ۔۔۔  سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا ___ میں حصہ لے رہے تھے۔ انڈیا انٹر نیشنل سینٹر کے سی ڈی دیش مکھ اوڈیٹوریم میں جاوید اختر نے اپنے بے باک اور منفرد انداز میں اردو زبان سے مغل دور اور میر کی شاعری تک مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی اور ان نکات کو اجاگر کیا جو اردو کے زوال کا سبب بن رہے ہیں۔شاہجہاں آباد اور شعر و سخن میں جاوید اخترسےہم کلام رہے ڈاکٹر سید سیف محمود۔ ایک گھنٹے تک جاری رہنے بالے اس سیشن میں جاوید اختر نے کہا کہ آپ بتائیں کہ آج اردو کی یہ حالت کیوں ہے؟ اردو زبان میں شائع ہونے والا ادب اور شاعری ردی بن رہا ہے جبکہ دیوناگری میں شائع ہونے والی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہیں ۔

جاوید اختر نے کہا کہ میں اردو اسکرپٹ یا نستعلیق  کے خلاف نہیں ہوں،میں بھی اردو اسکرپٹ میں لکھتا ہوں،آپ اس کو لکھیں اس کو پڑھیں، اس کو سیکھیں، میں اپ کے ساتھ ہوں، حکومت کو بھی اپ کا ساتھ دینا چاہیے،اس میں کوئی برائی نہیں ہے نستعلیق کے نام پہ ادارے چل رہے ہیں وہ سب اپنا کام کریں اس کام کی میں مخالفت نہیں کر رہا ہوں۔جاوید اختر نے کہا اردو میری مادری زبان ہے مجھے اردو سے بہت محبت ہے اور میں اردو کا ہی کھاتا ہوں اس میں کوئی شک نہیں۔مگر میں اس بات کو بھی نہیں بھلا سکتا کہ جو اردو لٹریچر دیوناگری میں آیا ہے اس کی مارکیٹ کہاں ہے اور نستعلیق  والی کی مارکیٹ کہاں ہے اپ یقین نہیں کر سکتے کہ دیوناگری میں اردو ادب اور شاعری کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔اردو اسکرپٹ میں شاعری کرنے والے لوگوں سے کئی گنا نہیں بلکہ 20 سے 25 گنا زیادہ کما رہے ہیں وہ لوگ جو دیوناگری میں اپنے کلام شائع کراتے ہیں۔ہم اردو اردو کے نعرے لگاتے ہیں مگر اردو ہی کتاب نہیں خریدتے اور یہی سچ ہے اور یہی تک سچ ہے۔

پاکستان کی تقسیم اور زبان

جاوید اختر نے کہا کہ زبان کی کیا اہمیت ہوتی ہے اس کا اندازہ اپ پاکستان کی تقسیم سے لگا سکتے ہیں۔ بات واضح ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں زبان علاقے کی ہوتی ہے اور یہی بات بنگلہ دیش کی تشکیل سے ثابت ہوئی ہے۔ اس بارے میں میں اپ کو بتا دوں کہ پاکستان کی تقسیم انسانی تاریخ کی وہ پہلی تقسیم ہے جو اکثریت نے کی ہے۔ عام طور پہ ملک کی تقسیم اقلیت کے مطالبے یا تحریک کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوا تھا۔اس تقسیم کے اسباب سیاسی بھی تھے اقتصادی بھی تھے مگر ساتھ میں لسانی بھی تھے اور سات کروڑ بنگالیوں نے پاکستان سے تقسیم کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں اردو نہیں پڑھنی تھی۔انہیں بنگالی سے محبت تھی۔ یہ تقسیم اس بات کا ثبوت ہے کہ زبان نمذہب کی نہیں بلکہ علاقائی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اردو کا سب سے بڑا مداح  ہوں مگر مجھے فخر ہے کہ بنگالیوں نے اردو پڑھنے سے منع کر دیا اور اپنی زبان کے لیے ملک کو تقسیم کر دیا۔یہ زبان سے محبت کی ایک مثال ہے ۔یہ بہت بڑی بات تھی،تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے ۔آج ہم کہہ رہے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے مگر اپ دیکھیے سات کروڑ مسلمانوں نے پاکستان میں اردو پڑھنے سے ہی منع کر دیا کیونکہ ان کی زبان بنگالی تھی-

مذہبی رنگ کا ذمہ دار کون

جاوید اختر نے کہا کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان بنانے کا سبب صرف ہندو رائٹ ونگ نہیں بلکہ مسلمانوں کا بھی رائٹ ونگ ہے جس نے اس بات پر زور دیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ ورنہ ایک وقت ایسا تھا کہ ایک پنجابی اردو اخبار پڑھتا تھا لیکن گھر میں پنجابی کا استعمال ہوتا تھا، وہ دو زبانوں کا استعمال کرتے تھے لیکن جب سے ہم نے یہ کہنا شروع کیا کہ اردو ہماری زبان ہے اردو مسلمانوں کی زبان ہے تب سے اردو کا دائرہ سمٹ گیا ہے۔

نئی نسل اور اردو کے بارے میں بات کرتے ہوئےجاوید اختر کہتے ہیں کہ آج کی نئی نسل جو شاعری میں دلچسپی رکھتی ہے وہ ایسی ہے جس نے 20 سال کی عمر کے بعد اردو سیکھی ان میں غیر مسلم بھی ہیں اپ مشاعروں میں دیکھیے وہ بہت شاندار شاعری پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اج دنیا میں اردو کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کی ہے وہ کسی مسلمان کی نہیں ہے وہ اس محفل میں بیٹھے ہیں اور خاموشی کے ساتھ چھپے بیٹھے ہیں جاوید اختر اس وقت ریختہ کے روح رواں سنجیو سراف کے بارے میں بات کر۔ رہے تھے

معاشرہ اور زبان

معاشرے  کی جو قدریں ہوتی ہیں وہ زبان پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ  یہ یک طرفہ معاملہ نہیں ہے پھر زبان بھی معاشرے پر اثر انداز ہونا شروع ہوتی ہے۔   بہرحال میرا یہ ماننا ہے کہ پہلا اثر معاشرے سے ہی شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر کچھ لوگ ہمارے بزرگ ہوتے ہیں ،کچھ ہمارے ہم عمر ہوتے ہیں اور کچھ بہت چھوٹے ہوتے ہیں ۔اب اگر کوئی ہم سے چھوٹا ہے اور وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے تو اس سے بت کرنے کے لیے ایک الگ زبان و انداز چاہیے ہوتا ہے۔اب جو ہم سے بڑے ہیں ان سے بات کرنے کے لیے الگ زبان چاہیے ہوتی ہے ۔مطلب واضح ہے کہ ہمارا سماجی نظام زبان پر اثر انداز ہوتی ہے ۔جو اسے طاقت بھی دیتی ہے۔جیسے اخلاقیات کا زبان پر اثر پڑتا ہے اور پھر زبان پر اخلاقیات کا اثر ہوتا ہے۔

مغل اور اردو

مغل دور کے زوال کے دوران دہلی کے اردو شاعری کے گڑھ بننے پر جاوید اختر نے کہا کہ جو لوگ تاریخ سے واقف نہیں ہیں انہیں اس بات کا  گمان یہ ہے کہ اردو زبان مغل دورمیں پھل پھول رہی تھی یا مغل اردو کا استعمال کیا کرتے تھے۔لیکن مجھے تو شک ہے کہ اکبر اعظم کو معلوم بھی ہو کہ اردو نام کی کوئی زبان بھی ہے۔کیونکہ مغل دربار میں اردو کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا جبکہ اردو نام بھی بعد میں پڑا۔اس دور میں یہ زبان ریختہ اور ہندووی کے نام سے جانی جاتی تھی۔

زبان اور اسکرپٹ

بات ایک بار پھر اسکرپٹ کی نکلی۔ جاوید اختر  نے کہا کہ ہمیں زبان کے ارتقا اور تبدیلیوں پر بات کرنے سے قبل اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ آخر زبان ہے کیا۔زبان کیا اسکرپٹ ہے؟ اگر ہم پنجابی کو نستعلیق میں لکھتے ہیں تو وہ اردو نہیں ہوجاتی ہے بلکہ پنجابی ہی رہتی ہے۔جب ہم بالی ووڈ میں نئی نسل کے اداکار کو رومن میں ڈائیلاگ لکھ کر دیتے ہیں تو کیا وہ اردو نہیں رہتی ہے۔اب انگلش ہو یا فرینچ ہو ان سب کی اسکرپٹ مانگے کی ہے۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ اسکرپٹ تو زبان نہیں ہے۔آپ کسی بھی زبان کو کسی بھی اسکرپٹ میں لکھ لیں وہ حقیقی زبان ہی رہے گی ۔اب اگر میں دیوناگری میں انگلش لکھ دوں تو وہ انگلش ہی رہے گی۔اگر اردو کی اسکرپٹ میں انگلش لکھ دوں تو وہ انگلش ہی رہے گی۔

جاوید اختر نے ماضی کے جھرونکوں میں جھانکتے ہوئے جاوید ذکی کا ذکر کیا۔ان کے مطابق جاوید ذکی کے بارے میں بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں یہاں تک کہ اردو والے ہی نہیں جانتے ہیں ۔وہ پہلا ایسا شاعر تھا جسے اپنی شاعری کے لیے پھانسی دی گئی۔جس نے اپنے بادشاہ کے خلاف شاعری کی تھی۔مگر افسوس اب یہ فیشن ہی نہیں رہا۔اس نے چوری نہیں کی تھی کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا تھا بلکہ حکومت کے غلط قوانین اور ناانصافیوں کے خلاف رائے دے رہا تھا۔آج کے دور میں ایسے لوگوں کا بہت احترام ہونا چاہیے۔

میر کی شاعری کی خاصیت پر جاوید اختر نے کہا کہ دیکھئے ایک اداکار ایسا ہوتا ہے جو خوشی کا اظہار کرنے کے لیے مسکراتا ہے یا غم پر روتا ہے ۔یہ ایک عام اداکاری ہے لیکن جو اس کی باریکیوں کو سمجھے اور اس کے اظہار کے لیے انوکھے طریقے کا استعمال کرے تو پھر وہ خاص ہوتا ہے۔ملے ہوئے جذبات کا اظہار کرنا مشکل ہوتا ہے ۔میر نے وہ کیا جو غیر معمولی تھا اس لیے وہ اپنے دور کے مختلف شاعر تھے

 یاد رہے کہ 18ویں صدی کے اردو شاعر اور زبان کے علمبرداروں میں سے ایک میر تقی میر کی یاد میں چار روزہ  فیسٹول کے دوران کتابوں کی رونمائی، سیمینارز اور ثقافتی تقریبات کی میزبانی کی جائے گی۔یاد رہے کہ انجمن ترقی اردو (ہند) ملک کے قدیم اردو ادبی اداروں میں سے ایک ہے۔ جمعرات کو کلیدی خطبہ دیتے ہوئے، تنظیم کی برطانیہ شاخ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سیف محمود نے کہا کہ میر زبان کی تشکیل میں نمایاں تھے۔  اردو جسے ریختہ بھی کہا جاتا ہے اس کا مطلب مرکب ہے۔ یہ عام لوگوں کی زبان ہوا کرتی تھی اور فطری طور پر سیکولر ہے کیونکہ یہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو قبول کرتی ہے۔ زبان کافی تبدیلیوں سے گزری ہے اور فیسٹیول اردو کی تبدیلی کے تمام مراحل کو تلاش کرے گا۔

 افتتاحی پروگرام کا کلیدی خطبہ پروفیسر نارائنی گپتا ،سابق پروفیسر شعبۂ ،تاریخ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے دیا ۔مهمانان اعزازی شیام سرن ،صدر، انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، سلمان خورشید ،سابق وزیر خارجہ، حکومت ہند  اورپروفیسر صدیق الرحمان قدوائی  صدر، انجمن ترقی اردو ہند ۔ مہمان ذی وقار الی سن بیرت ایم بی ای ڈائرکٹر، برٹش کونسل ،انڈیا نے بھی شرکت کی اورت اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر کی خود نوشت سوانح ( ذکر میر کے مکمل متن کا پہلا ترجمہ ) مترجم : نثار احمد فاروقی، حذف شده متن کا ترجمہ : صدف فاطمہ کا رسم اجرا ہوا ۔اس کے ساتھ  لائف آف پروفیسر یسوع داس رام چندر آف ڈیلی ، مصنف ایڈون جیکب ، تعارف : لیفٹننٹ کرنل رچرڈ موریس کے ساتھ  سہ ماہی اردو ادب شاہ جہان آباد نمبرکا بھی اجرا ہوا