میوات کی مسلم بیٹیاں،والد کی وراثت سے محروم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-01-2021
انصاف کا انتظار
انصاف کا انتظار

 

..شریعت اسلامیہ کے مطابق بیٹی بھی باپ کی جائیدادسے پاتی ہے حصہ مگر۔۔
ہریانہ کی میومسلم خواتین پر اب بھی بوجھ بنا ہوا ہے انگریز حکومت کا ایک فیصلہ
 رواج عام قانون سے ہزاروں مسلم بیٹیاں متاثر

یونس علوی/میوات
میوات۔ اسلام کی مقدس کتاب قرآن شریف نے باپ کی جائیداد میں بیٹیوں کوبھی حصہ دیا۔ ساری دنیا میں اسلامی قانون کے مطابق مسلم خواتین،باپ کی جائیداد میں قانونی حصے کی حقدار ہیں مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ راجدھانی دلی سے قریب واقع میوات میں مسلم بیٹیوں کو باپ کی جائیداد سے حصہ نہیں ملتا۔ اس کا سبب ایک ایسا قانون ہے جو انگریزوں نے رائج کیا تھا۔یہ قانون 1880میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریٹیگن کی قیادت میں قائم جسٹس ریٹیگن کمیٹی کی سفارش پر بنا تھا۔ اس کسٹمری لاء کو ’رواج عام‘ قانون بھی کہتے ہیں۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ تب دیکھاجاتا تھا کہ سماج میں رواج کیا ہے؟ جو رواج ہوتا،اسے قانون کا درجہ دیدیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ چونکہ ہریانہ،پہلے پنجاب کا حصہ تھا اور اس وقت کے پنجاب میں ہماچل پردیش بھی شامل تھا لہٰذا اس پورے خطے پر قانون کا نفاذ ہوا کرتا تھا۔ اس قانون کے تحت اب بھی ہریانہ میں میومسلم خواتین کو باپ کی جائیداد سے حق وراثت پانے سے محروم رکھا جاتا ہے۔اس سلسلے میں بہت سے معاملات کورٹ میں زیرسماعت ہیں اور کورٹ تک معاملہ لے جانے والی مسلم خواتین امید رکھتی ہیں کہ ایک دن  انصاف ملے گا۔
  لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس رییٹگن کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کی رپورٹ پر برطانوی حکومت نے 1880 میں کسٹمری قانون تشکیل دیا تھا۔نوردین نور، جو میوات کے سینئر وکیل اور روایتی قانون کے جانکار ہیں، نے بتایا کہ برطانوی حکومت کے ذریعہ زمین جائداد کی تقسیم کے لئے اس وقت کے صوبہ پنجاب کے لئے لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے اُس وقت کے پنجاب (جس میں ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش شامل ہیں) کے گاؤوں میں آباد سبھی ذاتوں کے لوگوں سے ان کی زمینوں کی تقسیم کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے تقریبا 30 سالوں تک معلومات اکٹھی کیں اور اس کی رپورٹ حکومت کو ارسال کی۔اس کے بعد 1880 میں، برطانوی حکومت نے روایتی قانون  یا ’رواج عام قانون‘ نافذ کیا۔
انہوں نے کہا کہ تب ملک میں مسلم قانون نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے زمین سے متعلق حق کو رواج عام قانون کے تحت رکھا گیا تھا، جبکہ ہندو لاء موجود ہونے کے سبب بیشتر ہندوؤں کو ہندو لاء کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ مذکورہ قانون کے تحت ہی،اس علاقے میں میومسلم لڑکیوں کووالد کی وراثت سے کوئی زمین نہیں ملتی تھی۔یہ اب بھی جاری ہے۔ البتہ اگر موروثی زمین نہیں ہے بلکہ باپ کی خریدی ہوئی زمین  ہے تو اس میں حصہ ضرور ملتاہے۔یہاں تک کہ اگر کسی مرد کو بیٹا نہیں ہے تو، اس کی آبائی جائیداد سے موت کے بعداس کی بیٹی کو حصہ نہیں ملتا بلکہ اس کے رشتے داروں کو وراثت چلی جاتی ہے۔نوردین نور کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں۔ پہلے بیٹیوں کو باپ کی کسی بھی اراضی میں حصہ نہیں ملتا تھا خواہ وہ زمین آبائی ہو یا باپ نے اسے خریداہومگراب عدالتوں کے نئے احکامات کی وجہ سے، بیٹیوں کو والد کی  خریدی ہوئی زمین میں حصہ ملتاہے۔انہوں نے بتایا کہ اس قانون کی وجہ سے ضلع میوات میں ہزاروں مقدمات عدالت میں چل رہے ہیں۔
زبیرخان عدالت میں
ضلع میوات کے گاؤں اکیڑا کے رہائشی زبیر خان ولد عبدالرحمن نے بتایا کہ ان کے والد کے تین بھائی تھے جمعے خان، عبدالرحمٰن اور یاسین۔ان کے تاؤ جمعے خان کی 8 لڑکیاں پیدا ہوئیں، لیکن کوئی لڑکا نہیں ہوا۔ ان کے تاؤ نے 1998 تک  اپنی تمام بیٹیوں کی شادیاں کردی تھیں۔ تاؤ کی موت کے بعد، انہوں نے روایتی قانون کے تحت عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے تاکہ تاؤ کی جائیداد انھیں مل جائے۔ انھیں امید ہے کہ عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔
 
عدالتی فیصلے کے باوجود جھگڑا

ضلع نوح کے گاؤں چندینی کے رہائشی، آصف علی نے بتایا کہ ان کی بہت پہلے کھنڈ کے گاؤں دہانہ میں ظہور خان کی بیٹی زاہدہ سے شادی ہوئی تھی۔ ان کے سسر کو کوئی لڑکا نہیں تھا،صرف تین لڑکیاں ہیں۔ ان کی موت قریب 40 سال قبل ہوئی تھی۔ سسر کی موت کے بعد، وہ تقریبا 15 سال تک اپنی ساس کی خدمت کرتے رہے۔ بعد میں، وہ نوح آگئے اور ان کی ساس بھی وفات تک ان کے ساتھ ہی رہیں۔ ساس کا انتقال 1 مئی، 2019 کو، تقریبا 85 سال کی عمر میں ہوا۔ ساس نے اپنی تینوں بیٹیوں کی رضامندی سے 1992 میں ایک لڑکے پرویز کو گودلے لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 40 سال کی عدالتی کاروائی کے بعد، ہمیں قانونی حقوق تومل گئے، لیکن ہمارے سسر کی ساتویں نسل کے لوگ رواج عام قانون سے فائدہ اٹھانے کے ارادے سے تنگ کر رہے ہیں اور پچھلے ڈیڑھ سال سے وہ ہمیں زمین پربھی نہیں جانے دے رہے ہیں۔ جب بھی جاتے ہیں، جھگڑا کرتے ہیں اور پولیس بھی کوئی مدد نہیں کرتی ہے۔

قرآن مجید، لڑکیوں کو حق وراثت دیتاہے
اسلامی آئین کے جانکار اورجمعیت علمائے ہند نارتھ زون کے صدر مولانا یحییٰ کریمی کہتے ہیں کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے احکام کے مطابق دنیا کے مسلمانوں کو زندگی بسر کرنی چاہئے۔ قرآن مجید میں بیٹے اور بیٹی کو باپ کی زمین میں حق وراثت دیا گیاہے۔۔ اللہ نے اس کی وضاحت کردی ہے۔انہوں نے مثال دے کر سمجھایا کہ اگرایک شخص کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہیں اور اس کے پاس چار ایکڑ اراضی ہے،تو اس میں سے دو ایکڑ میں دو بیٹیاں ہوں گی، یعنی ایک ایک ایکڑ بیٹیوں کے لئے اور دو ایکڑ بیٹے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں بیٹیوں کو اپنے والد کی جائداد میں حصہ دیا گیا ہے اور جو مسلمان  نہیں دیتا وہ گناہ کرتا ہے۔
ایک وضاحت
یہاں ایک وضاحت ضروری لگتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ قانون ہریانہ اور پنجاب کے تمام مسلمانوں پر نافذ نہیں ہوتا۔ یہ صرف میوبرادری کے مسلمانوں پر لاگو ہوتا ہے۔حالانکہ اس کے بعد 1937میں شریعت اپلکیشن ایکٹ آیا جوملک بھر کے مسلمانوں پر نافذالعمل ہے۔ اس کے بعد اسی کی دہائی میں اسی سلسلے کا ایک دوسراقانون بھی مسلم پرسنل لاء کے نام سے آیا۔ باوجود اس کے مسلمانوں کے ہی ایک طبقے پریہ دونوں قوانین نافذ نہیں ہوتے۔