بچیوں کا عالمی دن: بیٹی ایک بلند شان و عظمت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-10-2022
      بچیوں کا عالمی دن:  بیٹی ایک بلند شان و عظمت
بچیوں کا عالمی دن: بیٹی ایک بلند شان و عظمت

 

 

 

محمد رضوان

اولاد اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کے پاس یہ نعمت نہیں ہوتی زندگی کی رعنائیاں مسکراہٹیں اس کے لئے پھیکی ہوتی ہیں اور جن کے پاس یہ نعمت ہوتی ہے ان کے لئے سرور کا باعث ہوتی ہے۔ اسلام والدین کو یہ حکم دیتا ہے کہ اگر وہ صاحب اولاد ہیں تو اپنی اولاد کی صحیح تربیت و نشوونما کریں تاکہ یہ بچے کل ان کے لئے صدقہ جاریہ بنیں ان کے حق میں وبال نہ بنیں۔ اولاد خواہ بیٹا ہو یا بیٹی عظیم تحفہ ہے جس کو نہ رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بدلا جاسکتا ہے۔ آج انسان ترقی کی طرف گامزن ہو کر اپنے رب کو بھول بیٹا ہے اور آج ترقی کے نام پر وہ جنس میں تبدیلی لانے کے تجربات کرتا پھر رہا ہے یہ بھول کر یہ اولاد اللہ نے اگر بیٹا دینا ہے تو آپ کو بیٹا ہی دے گاآپ اسے بیٹی نہیں بناسکتے اور نہ ہی آپ اس بات پر قادر ہیں کہ اس نے اگر آپ کو بیٹی دینی ہے تو اسے آپ بیٹابنادیں۔ یہ سب اس کی منشاء ہے وہ جسے جو چاہے عطا کرتا ہے ۔

اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے کہ :

’’تمام بادشاہت اللہ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہےبیٹے عطا کرتاہے یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے‘‘(الشوریٰ 50:49)

دور جاہلیت کی طرح آج بھی بیٹے کی پیدائش کو خوش بختی اور بیٹی کی پیدائش کو نحوست سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اہل علم کے گھرانوںمیں بھی یہ حالات آج بھی دیکھے جاتے ہیں بیٹی کے ساتھ تذلیل کا رویہ، ناقدری ، برابری نہ کرنا۔ اس کی ایک تصویر قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے دکھائی۔

بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہونا کافروں کی صفت

’’ ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ کالا پڑجاتا ہے اور اس کے دل کو(تو دیکھو) وہ اندوہناک ہوجاتا ہے اور اس خبر بد سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے‘‘(النحل 59,58)

جب کہ اللہ رب العالمین نے بیٹی کے مقام کو مقدم کیا ہے۔ جہاں لڑکا اور لڑکی کی پیدائش کا قرآن میں ذکر کیا اس میں لڑکی کو مقدم رکھا تاکہ انسان یہ جان لیں اللہ کی نگاہ میں یہ لڑکی مقدم ہے اس کو تذلیل کا نشانہ نہ بنایا جاسکے۔ آگے ہم دیکھتے ہیں کہ اس بیٹی کے لئے آپ ﷺ نے کیا کیا بشارتیں دی ہیں۔

نبی مکرم ﷺ نے ان بیٹیوں سے کیا رویہ پیش کرکے دکھایا اور پھر یہ لڑکیاں کس طرح دوررسالت میں اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ خیر کا چشمہ ثابت ہوئیں۔ اور اسلام بیٹی سے کیا توقع رکھتا ہے۔

لڑکی کی پیدائش رحمت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے:

رسول اللہ ﷺ نے احادیث میں ایسے والدین کو بہت بڑی خوشخبری سنائی ہے جن کو بیٹیوں کی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جس کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے اس کو زندہ دفن نہ کیا اور نہ اس کی اہانت کی اور نہ بیٹوں کو اس پر فوقیت دی تو اللہ تعالیٰ اس کو اس لڑکی کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ ( مسند احمد)

بیٹیوں کو ناپسند کرنے کی ممانعت:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ یقینا وہ تو پیارکرنے والیاں اور قیمتی چیزہیں۔ ( مجمع الزوائد)

نیک بیٹیوںکا ثواب اور امیدمیں بیٹوں سے بہتر ہونا:

اللہ رب العالمین کا ارشاد گرامی ہے:

’’ مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہی‘‘(الكهف: 46)

اس آیت میں اللہ رب العالمین نے (باقیات صالحات کو) ثواب اور امید کے اعتبار سے مال اور بیٹوں سے بہتر قرار دیا ہے۔ امام عبید بن عمر اور علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے مراد ’’ نیک بیٹیاں‘‘ ہیں ۔ (تفسیر القرطبی)

بیٹیوں کا محسن باپ کے لئے دوزخ کے مقابلے میں رکاوٹ بننا:

احسان کرنے والے باپ کے لئے یہ بیٹیاں دوزخ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ارشاد نبوی ﷺ: جس شخص کی 3 بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے پلائے اور پہنائے تو وہ اس کے لئے روز قیامت پردہ ہوں گی۔ ( یعنی دوزخ کی آگ میں پرد ہ بن کر حائل ہوں گی ) (ابن ماجہ)

بیٹیوں کے سرپرست کو روز قیامت رفاقت نبوی ﷺ میسرآنا:

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی، بلوغت کو پہنچنے تک پرورش اور تربیت کی، وہ قیامت کے دن ( اس طرح) آئے گا کہ میں اور وہ اور نبی ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملادیا‘‘۔ ( صحیح مسلم )

بیٹیوں کے لئے ایثار کرنے والی والدہ کے لئے وجوب جنت:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں ’’ ایک عورت مسکین اپنی دو بچیوں کے ساتھ آئی میں نے 3کھجوریں اس کو دیں اس نے ایک ایک کھجور ان بچیوں کو دی اور ایک خود کھانے کے لئے منہ تک لے گئی اس کی بچیوں نے اسے بھی مانگ لیا اس نے اس کھجور کے جسے وہ خود کھانا چاہتی تھی دو ٹکڑے کئے اور ان دونوں کو دے دئیے۔ اس کے اس عمل سے میں متاثر ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کے آگے میں نے یہ واقعہ رکھ دیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لئے جنت کو واجب کر دیا یا جہنم کی آگ سے اس کو نجات دے دی۔ ( صحیح مسلم)

بیٹی کی رضا مندی کے بغیر نکاح کا نہ ہونا:

بیٹی کے مقام و مرتبہ کو اجاگر کرنے والی باتوں میں ایک یہ ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوسکتا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’دوشیزہ کا نکاح اس کی اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے‘‘

(متفق علیہ)

مرضی کے خلاف کئے ہوئے نکاح کو آپ ﷺنے مردود یعنی فسخ کر دیا۔ خنسا بنت خدام انصاریہ رضی اللہ عنہاکا نکاح ان کے والد نے کردیا جب کہ انہیںوہ نکاح پسند نہ تھا۔ آپ ﷺ نے اس کو فسخ کردیا۔ ‘‘ ( صحیح بخاری)

بیٹی کی وراثت میں حصہ:

بیٹی کی حیثیت کو واضح کرنے والی باتوں میں سے ایک یہ بھی کہ اس کا وراثت میں اس طرح حصہ ہے جس طرح بیٹے کا کسی کو اس بات کا اختیار نہیں کہ اس کو اس حق سے محروم کر دے۔ اس بارے میں قدرے تفصیل میں اللہ رب العالمین نے سورۃ النساء میں احکامات بیان کر دئیے ہیں۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔

اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتے ہیں۔ مرد کے لئے دو عورتوں کے حصے کے برابر کا حصہ ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں: اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ ( النساء :11)

نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں بیٹیوں کا مقام:

نبی اکرمﷺ کو اپنی صاحبزادیوں سے گہرا لگاؤ تھا قلبی تعلق تھا اور ان کی بناء پر پھر آپ نے ان کی اولادوں اور ان کے شوہروں سے بھی خوبصورت رویہ پیش کیا جس کی نذیر نہیں ملتی۔ درج ذیل نکات میں ہم نبی   مکرمﷺ کے وہ حسین دلکش معاملات پیش کرتے ہیں جو آپ نے بیٹیوں کے ساتھ کئے۔

بیٹیوں کے گھر جاتے:

اپنی صاحبزادی کے گھر تشریف لے جاتے سفر سے واپسی پر سب سے پہلے انہی کے گھر جاتے ان کی خیریت معلوم کرتے خیال رکھتے۔

خوشی سے استقبال کرتے والہانہ محبت کا اظہار کرتے:

اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لئے اٹھ کر آگے بڑھتے، مرحبا الفاظ سے خوش آمدید کہتے۔ انہیں بوسہ دیتے ، ان کا ہاتھ تھام لیتے، اپنی مجلس جگہ پر دائیں یا بائیں انہیں بٹھاتے۔

دعائیں کرتے:

ان کے لئے دعائیں کرتے انہیں گندگی سے دوری کے لئے دعائیں کرتے پاکیزگی کے لئے دعائیں کرتے۔

دعائیں سکھاتے:

صبح و شام کے اذکار دعائیں، نماز کے بعد کے اذکار بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات، خدام سے بہتر دعائیں یہ سب سکھاتے۔

عائلی زندگیوں میں اصلاح کی تربیت کرتے:

عائلی زندگیوں کے ان کے معاملات کی طرف خصوصی توجہ دیتے ان کی شادیوں کا خود اہتمام کرتے، داماد کو ولیمہ کی تلقین کی، رخصتی کے وقت بیٹی کو تحائف دئیے، عائلی زندگی میں ہونے والی نزع کی اصلاح فرماتے، خانگی زندگی میں بیٹی کو فتنہ میں مبتلا کرنے والی بات سے بچانے کی سعی کرتے۔

نمازوں کی طرف توجہ دلاتے:

بیٹیوں کو نماز کی رغبت دلائی، تہجد کی ترغیب دی۔ باپ پر آس رکھنے کے بجائے خود دوزخ کی آگ سے بچاؤ کی خاطر کوشش کرنے کی تلقین کی۔

دنیا میں زیب و زینت سے اجتناب کرنے کا حکم دیتے:

صاحبزادی کو دنیا وی زیب و زینت سے دور رکھنے کی سعی کی قدرے سخت روئیے پر احتساب کیا، ماں کے ساتھ (خواہ سگی نہ ہو) حسن اخلاق اختیار کرنے کی تنبیہ کی۔

بیٹی کے دکھ پر شدت غم سے آنکھ رو پڑتی:

بیٹیوں کے مصائب جو دین کی راہ میں انہوں نے برداشت کئے رو پڑتے بیٹی کی وفات پر آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ صاحبزادیوں کی وفات پر ان کی تجہیز و تکفین اور تدفین کا بندوبست ذاتی نگرانی میں کروایا۔

تقویٰ اور صبر کی تلقین کرتے :

بیٹیوں کو صبر کی تلقین کرتے ان کے غموں کا مداوا کرتے تقویٰ کی تلقین کرتے۔

بیٹیوں کی اولاد سے حسن سلوک کرتے:

ان بیٹیوں کی اولاد سے سخت الفت رکھتے ملنے کے لئے جاتے ان کے ساتھ کھیلتے ، ان کے لئے بھی دعائیں کرتے، انہیں اللہ کی پناہ میں دعاپڑھ کر دیتے، دنیا کی باتیں سکھاتے یاد کراتے، ان کو ہنساتے صاحبزادی کی صاحبزادی کو کندھے پر بٹھایا، نواسوں کی پیاس کی تکلیف پر بے قرار ہوئے، ان کا بھی احتساب کرتے۔

بیٹیوں کی نسبتوں پر دامادوں سے حسن سلوک کا منظر:

بیٹیوں کے شوہر دامادوں کے ساتھ بھی بہت محبت سے پیش آتے، انہیں مفید چیزیں کھانے کا حکم دیتے ان کی تکریم کرتے، ان کی منبر پر تعریف کی، ان کو دعائیں سکھاتے۔

ایسا حسن سلوک ایسا دلکش انداز بیٹی کی یہ شان و عظمت اس قدر بلند اس قدر خوبصورت یہ نبی اکرمﷺ کا اخلاق تھا یہ اسلام کا عدل ہے: عورت خواہ بیٹی ہو یا بیوی، ماں ہو یا بہن احسان ہے اس کا ہر روپ احسان ہے، وہ ہر رشتے کے حوالے سے ایک خوبصورت پھول ہے جو آپ کو خوشبو دیتا ہے خود تھک جاتی ہے لیکن آپ کو سرور دیتی ہے۔ بیٹی ہو تو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اپنی تھکن اپنا آپ بھول کے ماں باپ کا خیال فکر کبھی جان سے کبھی مال سے اور اگر دین کی داعیہ ہو تو ہر لمحے اپنے عمل سے آپ کے لئے احسان کا باعث بیٹی سے بیوی بن کر کسی اور چمن میں جاتی ہے خود کو اپنے آپ کو قربان کرتی ہے شوہر کو سکون دیتی ہے اس کا خیال کرتی ہے اس کا دل لبھاتی ہے الفت دیتی ہے دوسری طرف اس کی اولاد کی صحیح تربیت کرتی ہے۔ ان کے ساتھ لگی رہتی ہے تیسری طرف دین کی داعیہ کی ذمہ داری بھی نبھاتی ہے۔ اس حق کو بھی پورا کرتی ہے یہ ہے ایک مومنہ عورت بدلے میں محبت کا برتاؤ حسن سلوک چاہتی ہے عورت کمزور ہونے کے باوجود ہر وہ وہ کام کرتی ہے جو ایک طاقتور مرد نہیں کر سکتا۔ اللہ رب العالمین نے یہ مقام جبھی مقدم کیا ہے آپ مرد خواہ اس کو اس کا مقام کبھی دیں یا نہ دیں لیکن اللہ نے اس کا مقام مقدم کیا ہے جو قیامت تک کے لئے ہے۔

اسلام کی مومنہ بیٹی سے توقعات،والدین کے ساتھ ادب و احترام اور حسن اخلاق:

ایک مومنہ بیٹی کی امتیازی صفت ہوتی ہے وہ والدین کا ادب کرتی ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتی ہے۔ اللہ رب العالمین نے اپنے بعد والدین کا مقام رکھا ہے وہ یہ جانتی ہے اور ان کے لئے وہ دعا کرتی ہے:

’’ اے میرے رب میرے والدین پر رحم فرما جیسے بچپن میں انہوں نے مجھ پر رحم فرمایا‘‘(الإسراء: 24)

والدین کے لئے صدقہ جاریہ ہوتی ہے:

جہمیہ قبیلے کی ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا۔ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی اور حج کرنے سے پہلے انتقال کر گئیں کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ہاں جاؤ اس کی طرف سے حج ادا کرو (بخاری)