حنا خلیفہ:اولمپک میں کرنا چاہتی ہیں ملک کی نمائندگی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 06-10-2022
 حنا خلیفہ:اولمپک میں کرنا چاہتی ہیں ملک کی نمائندگی
حنا خلیفہ:اولمپک میں کرنا چاہتی ہیں ملک کی نمائندگی

 

 

آواز دی وائس، گاندھی نگر

کہتے ہیں کہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ اس کی زندہ مثال گجرات کی ریسلر حنا بین خلیفہ ہیں۔ حنا خلیفہ ریاست گجرات کی ایک ابھرتی ہوئی ریسلر ہیں۔ وہ صرف اپنے جنون اور شوق کی بدولت ریسلنگ کی دنیا میں آئیں ہیں۔ان کے گھریلو حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ ریسلنگ کی دنیا میں قدم رکھیں مگران کے ارادے مظبوط تھے، جس کی وجہ سے انہوں نے کامیابی سے اس میدان میں قدم رکھا اور اب وہ بین لاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں۔

اپنی نوعمری کے دنوں میں حنا بین خلیفہ اپنی والدہ صغرا بین اور اپنی بہنوں یعنی افسانہ اور مدینہ کے ساتھ گجرات کے اراولی ضلع کے وڈاگام کے مختلف گھرانوں میں جایا کرتی تھیں۔ وہ اپنی اور بہنوں کے کام میں مدد کے لیے جایا کرتی تھیں تاکہ وہ مزید گھروں میں کام کر سکیں اور زیادہ پیسے کما سکیں۔ صغرا بین کو مختلف گھروں میں کام کرنے کے لیےمجبور ہوگئیں،  کیونکہ ان کے شوہر سلیم خلیفہ فالج جیسی مہلک بیماری سے متاثر ہوگئے۔ جس کی وجہ سے سلیم خلیفہ کا اپنے اہل خانہ کے روزی روٹی مہیا کرنا مشکل ہوگیا۔

تاہم حنااوراس کی بہن مدینہ ریلسربننےکی خواہشمند تھیں۔اگرچہ ان کی روز مرہ کی زندگی انتہائی مشکلات سے گھری ہوئی تھی، تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ تینوں بہنیں اپنی ماں کی مدد کرتی رہیں،اسکول جاتی رہیں اور شام کو ٹرین پکڑ کر گھرواپس آجایا کرتی تھی۔  ان کی محنت رنگ لائی، یہاں تک کہ وہ تمام مشکلات کے باجود ریسلنگ کی چٹائی پرآگئیں، یہاں تک کہ انہیں نے سنہ 2022 کے قومی کھیل یعنی نیشنل گیمز میں شرکت کا موقع مل گیا۔ حنابین نیشنل گیمز مقابلے میں تمغہ جیتنے والی گجرات کی دوسری خاتون ریلسربن گئی ہیں کیونکہ وہ 53 کلوگرام وزن کے زمرے میں تیسرے نمبر پر رہی ہیں۔

انہوں  نے گاندھی نگر کے مہاتما مندر میں اپنی مہم کا آغاز کیا۔ انہوں نے ہماچل پردیش کی ریتیکا پر آسان جیت  حاصل کیا اور پھر اتراکھنڈ کی پرینکا سیکروار کے خلاف تکنیکی برتری سے جیت گئی۔ تاہم  وہ ہریانہ کی چیمپئن انتم پنگھل سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکیں۔ تاہم حنا بین نے شیوانی کے خلاف کانسے کے تمغے کے مقابلے کے لیے وقت پر خود کو دوبارہ منظم کیا اور 7-1 سے جیت لیا۔ حنا بین خلیفہ بتاتی ہیں کہ ہمارے میرے بڑےبھائی امجد اور مدینہ گاؤں کے ایک عارضی ریسلنگ سنٹر میں تربیت حاصل کیا کرتے تھے۔انہوں نے ہمیں کھیل میں حصہ لینے کی ترغیب دی تھی۔

وہیں گاؤں کے ایک سینئر پہلوان ونود کنجاوت سنہ 2015 سے ان دنوں کو  تربیت دینا شروع کیا۔انہوں نے 2018 تک تربیت جاری رکھی، یہاں تک کہ حنا بین کو ناڈیاڈ میں گجرات کے گورنمنٹ سینٹر آف ایکسیلنس(COE) میں شامل ہونے کی پیشکش ملی۔ دونوں بہنیں شام کو تربیتی مرکز میں آتی تھیں کیونکہ انہیں صبح اپنی ماں کے ساتھ ان کی مدد کے لیے جانا ہوتا تھا۔ ریسلرکنجاوت کہتے ہیں کہ  میں انہیں گھر چھوڑ دیتا تھا کیونکہ اکثر تربیت کے دوران دیر ہوجایا کرتی تھی۔ حنابین جب بہت چھوٹی تھیں تب ان کے والد کو اوڈیشہ میں فالج کا دورہ پڑا۔ اس سانحے نے ان کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔ تاہم، صورت حال تمام بہن بھائیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے میں رکاوٹ نہیں بنی۔

وہ کہتی ہیں کہ ریسلنگ ہی ہماری غربت اور تمام بدحالیوں سے نکلنے کا واحد راستہ بنی۔ میرے بھائی کو گجرات کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا لیکن والدہ پریشان ہوگئیں اورانہیں نہیں بھیجا گیا۔ مدینہ نے کہا کہ پھر مجھے 2017 میں انڈر 14 قومی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ تینوں بھائی بہن ریسلنگ میں تھے لیکن حنا بین ہی  کو زیادہ بڑی کامیابی ملی۔ ایک بار جب وہ ناڈیاڈ میںسی او ایکے لیے منتخب ہو گئیں،اس میں ان کا مظاہرہ قدرے بہتر تھا۔ انہوں نے 2020 میں جونیئر نیشنل میں کانسے کا تمغہ بھی جیتا لیکن کوویڈ 19 کی وجہ سے لاک ڈاؤن  لگ گیا اور وہ اپنی پریکٹس کو جاری نہ رکھ سکیں۔

حنا نے حال ہی میں انڈر 20 ٹورنامنٹ میں 53 کلوگرام چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔  تاہم وہ نیشنل گیمز سے پہلے بہت پریشان تھیں کیونکہ وہ کوشش کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہی تھیں۔انہیں تربیتی مرکز میں بھی انہیں اچھا ساجھیدارنہیں ملتا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہتر نشو و نما کرسکیں۔ مدینہ کہتی ہیں کہ مجھے امید ہے کہ یہ تمغہ حنا کو بہتر کرنے کی ترغیب دے گا۔ حنا اور مدینہ دونوں بیچلر آف فزیکل ایجوکیشن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ مدینہ کو حال ہی میں اسپورٹس اتھارٹی آف گجرات میں بطور ٹرینر ملازمت ملی ہے۔

ان کے مالی حالات میں کسی حد تک بہتری آئی ہے۔مدینہ کہتی ہیں کہ اب ہم نے اپنی ماں کو نوکرانی کے طور پر کام کرنے سے روک دیا ہے۔اب میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ حنا قومی کھیل میں اپنے لیے جگہ تلاش کرے اور آنے والے دنوں میں  وہ ملک کی نمائندگی کرے۔

حنابین جس وزن کے زمرے میں مقابلہ کر رہی ہیں وہ اولمپک کے زمرہ میں آتا ہے۔ مشہور ونیش پھوگاٹ اور نوجوان سنسنی انتم جیسے پہلوان اگر قومی مقابلے میں جگہ حاصل کر لیتے ہیں تو وہ ان کی حریف بنیں گی۔ مقابلے کے باوجود مدینہ کو یقین ہے کہ اگر حنا نے محنت جاری رکھی تو وہ ضرور ایک دن اپنا مقام بنا لے گی۔