موسیقی پراردو کی پہلی کتاب جس کا آغاز سرسوتی وندنا سے ہوتا ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 20-10-2023
موسیقی پراردو کی پہلی کتاب جس کا آغاز سرسوتی وندنا سے ہوتا ہے
موسیقی پراردو کی پہلی کتاب جس کا آغاز سرسوتی وندنا سے ہوتا ہے

 



غوث سیوانی،نئی دہلی

کوئی مسلمان اپنی کتاب کا آغاز دیوی سرسوتی کی وندنا سے کرے، یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔ حالانکہ ایسا ہواہے۔ اردو کی ابتدائی دور کی کتابوں میں سے ایک معروف کتاب میں ایسا ہواہے۔ یہ موسیقی کے موضوع پر اردوزبان کی پہلی کتاب تھی اور اس کا مصنف تھا سلطنت بیجا پور کا سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی۔ اس نے نہ صرف "کتاب نورس" کا آغاز سرسوتی وندنا سے کیا ہے بلکہ کتاب میں دوسرے دیوی دیوتائوں کا ذکر بھی انتہائی احترام کے ساتھ کیا ہے۔ موجودہ دور میں ابراہیم کی جو پینٹنگس دستیاب ہیں، ان میں وہ رودراکش کی مالا پہنے ہوئے نظرآتا ہے۔  

سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی ایک علم دوست اور فنکارانہ مزاج رکھنے والا سیکولر بادشاہ تھا۔اس کی پیدائش 1556عیسوی میں ہوئی اور موت 1627عیسوی میں ہوئی۔ والد کا نام علی عادل شاہ تھا اور ماں کا نام چاند بی بی تھا۔ محض دس سال کی عمر میں ابراہیم  تخت پر بیٹھا۔ وہ اچھا منتظم تھا۔ شعر وسخن اور موسیقی کا شوق رکھتا تھا۔ اس کی "کتاب نورس" موسیقی کے موضوع پر ہے، جس میں مختلف راگ ،راگنیوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ کتاب کی زبان دکنی اردو  ہے مگر موجودہ دور میں اسے سمجھ پانا آسان کام نہیں ہے۔

awaz

ابراہیم عادل شاہ دوئم کا مقبرہ

مورخین کے مطابق ابراہیم ایسا فنکار تھا جو نثر ونظم کے علاوہ مصوری میں کمال رکھتا تھا۔ وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر اپنی تصویر بناسکتا تھا۔ اسی کے ساتھ وہ  ایک بہترین خطاط بھی تھا۔ابراہیم کی فنکاری کے نمونے وقت کی گرد کی تہوں میں چلے گئے مگر "کتاب نورس" اب بھی محفوظ ہے۔ ابراہیم نے کتاب میں راگ راگنیوں کو نظم ہی نہیں کیا ہے بلکہ تصاویرمیں مجسم کرنے کی کوشش بھی کی ہیں۔

اردوزبان کی ابتدائی کتابوں میں شامل ہے"کتاب نورس" جسے جنوبی ہند کے ایک حکمراں ابراہیم عادل شاہ نے لکھاہے۔کتاب میں مصوری اور فن موسیقی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ پرانے زمانے میں موسیقی کے راگوں کو تصویروں میں پیش کیا جاتا تھا۔ راگ راگنیوں کو تصویروں میں مجسم کرنے کو "راگ مالا" کہتے ہیں۔چنانچہ ابراہیم عادل شاہ نے بھی اپنی کتاب میں نہ صرف راگوں کے بارے میں جانکاری دی ہے بلکہ انہیں تصویری شکل بھی دی ہے۔ اس نے موسیقی کی لے اور آہنگ کو تصویروں میں ڈھالا ہے ۔یہ اس لئے ممکن ہوپایا کہ بادشاہ خود اچھا مصوربھی تھا۔

awaz

راگ راگینی کی قدیم  پینٹنگس

کتابِ نورس میں بھیرو راگ کی لفظی تصویر کشی یوں ہے

 بھیرو راگ

بھَیرَو کَر پور گُورا بھال تلک چندرا

تِری نِیترا جٹا مکٹ گنگا دھرا

بین

ایک ہست رُنڈ نرا تری سول جُگل کرا

باہن بلی ورد سیت جات گسائیں ایشورا

کاس کُرت کُنجر پرشٹھ چرم ویاگَرا

آبھوگ

سرپ سنگار ٹشٹھن پرچھائیں کلپ ترا

رمنی داون مردنگ دھام کیلاس تدوپرا

ابراہیم اُ کھّت لچّھن راگ بھیرو مہا اُتم سندرا

بھیروراگ کی علامتوں کی وضاحت میں بھیرو یعنی بھگوان شنکر کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔ اوپر کی سطور کی تشریح یوں ہے کہ بھیرو (شنکر) کارنگ کافور جیسا ہے۔ ان کی پیشانی پر تیسری آنکھ اور چاند ہیں۔ان کے بالوں کی جٹائوں میں گنگا ہے۔ ان کے ایک ہاتھ میں انسان کا سرہے۔دوسرے ہاتھ میں ترشول ہے۔ وہ سفید بھبھوت بدن پر ملے ہوئے ہیں۔  ان کی سواری بیل ہے۔ وہ ہاتھی اورشیر کی کھال اوڑھے ہوئے ہیں۔ ان کے گلے کا سنگار سانپ کا ہار ہے۔ وہ کلپ ترا کے نیچے شیر کی کھال پر بیٹھے ہیں۔ کیلاش پہاڑ پر ان کے پیچھے ایک  حسینہ محو رقص ہے ۔ ابراہیم نے راگ بھیرو کی تصویر کشی حسین پیرائے میں کی ہے۔

کتاب نورس میں ابراہیم عادل شاہ نے مختلف ہندو دیوی دیوتاؤں کی لفظی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ باقاعدہ تصویروں میں بھی ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے علم وفن کی دیوی سرسوتی کی لفظی تصویر کشی ایک گیت میں یوں کی ہے

سرستی مہا سندری آچھے گوری سیت دستر بھج چتر

انترا

ایک ہست سنگِت پُستک دوجے پانڑی پھَٹِک سمرن

تیجے شیہ سیت سُوا چوتھے انبج کر

آبھوگ

تن منجھن نین انجن موتِن اَبھرن گنچن پینجن چکرنگ باہن

سمن سہاسن وسنتی (دھاپی) کُمد تر

ابر اہیم سرو دیو دیوی تھاڈے بھگت کرت نگر کوٹ

رانڑی سیس چھتر

مذکورہ بالا سطور کا مطلب یہ ہے کہ دیوی سرسوتی نہایت ہی حسین ہیں۔ وہ  سفید لباس میں ملبوس ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں موسیقی کی کتاب ہے ۔دوسرے ہاتھ میں سفید موتیوں کی مالا ہے۔  تیسرے ہاتھ میں سفید طوطا اور چوتھے ہاتھ میں کمل ہے۔

اگلی سطروں میں بھی دیوی سرسوتی کے تن ،نین وغیرہ کی ابراہیم نے تعریف کی ہے۔

ابراہیم عادل شاہ نے دوسرے مقامات پر بھی دیوی سرسوتی کی وندنا کی ہے۔علاوہ ازیں جن دوسرے دیوتائوں کے بارے میں بیان کیا ہے، ان میں گنیش یعنی گنپتی بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر ذیل کی سطور ملاحظہ کریں۔

گنپتی مورت ہست میگھ مد بر کھت پانی

دنت دامنی گھنٹ گھور گھورمنڈان بھال بدھو بانی

سروتی پوتّر سوانت گھن جل کیسیں جی جانی

ابراہیم نورس نگُتا نکست یا کارن نَہچیِں مانی

awaz

راگ راگینی کی قدیم پینٹنگ

ملہار راگ کا یہ گیت گنیش جی کی وندنا میں ہے۔ گنپتی اتسو برسات میں آتا ہے اور ملہار بھی بارش کے موسم میں گایا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا مصرعوں کا مطلب یہ ہے کہ ہتیا نکشتر (جس کی شکل ہاتھی جیسی ہوتی ہے،گنیش جی کی شکل بھی ہاتھی جیسی ہے) ، میں بادل مستی میں خوب برستے ہیں۔ اس نکشتر میں کڑکنے والی بجلی، گنیش کے دانت کی طرح ہے۔  بادلوں کی گرج گنیش کے گھنٹے کی آواز ہے اور آسمان میں دکھائی دینے والی اندر دھنش دیوی سرسوتی کی پیشانی جیسی ہے۔ سرسوتی سواتی کے پانی کی مانند ہے ،جس سے موتی پیدا ہوتے ہیں۔اسی لیے ابراہیم نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔

awaz

راگ راگینی کی قدیم پینٹنگ راگ مالا

ابراہیم عادل شاہ ثانی ایک مسلمان بادشاہ تھا باوجود اس کے وہ ہندو اساطیر کے تعلق سے گہری جانکاری رکھتا تھا اور اس کا اندازہ "کتابِ نورس" سے ہوتا ہے۔ کتاب  کا آغاز ہی دیوی سرسوتی کی وندنا سے ہوتا ہے۔ کتاب میں کم ازکم تین مقامات پر اس نے گیتوں میں اس نے دیوی سرسوتی کی تعریف انتہائی عقیدت کے ساتھ بیان کی ہے۔ علاوہ ازیں مختلف گیتوں میں دیوتاؤں کا ذکر عقیدت کے ساتھ کرتا ہے اور ان کے اوصاف بیان کرتا ہے۔ جن دیوتائوں کا ذکر کتاب نورس میں ہے، ان میں شامل ہیں شنکر، سرسوتی ،پاربتی ،گنیش اور اندر وغیرہ۔

ابراہیم عادل شاہ نے "کتاب نورس" میں جن تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے وہ بھی خالص ہندوستانی ہیں۔ موسم، پھول وپھل اور لباس وغیرہ پوری طرح دیسی ہیں۔ جیسے وہ کیوڑے اور کنول کے پھول کا ذکر کرتا ہے، کستوری کو بیان کرتا ہے۔ نیلی ساڑی، پیلی چولی اور زیورات کا بیان کرتا ہے نیز بنائو وسنگار کا بیان کرتا ہے اور یہ سب پوری طرح ہندوستانی ہیں۔