نئی دہلی : جی ڈی چندن برصغیر میں اردو صحافت اور اس کی تاریخ کے لحاظ سے ایک مستند نام ہے جن کی تصانیف کو آج بھی حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اردو صحافت کی ابتدا اور ارتقاءکے حوالے سے انھیں سند سمجھا جاتا ہے 1992میں شائع ان کی کتاب جام جہاں نما کا فی اہمیت کی حامل ہے۔اس میں اردو صحافت کی ابتدا، اردو سماج کے ارتقا اور ان کے سیاق میں پیدا ہونے والے جدید ہندوستان کے کئی اہم مسائل کی مبادیات کی تفصیل بھی دی گئی ہے اس کتاب میں چندن صاحب نے اردو کا سب سے پہلا اخبار پس منظر، ہری ہردت اور سدا سکھ لعل، جام جہاں نما پر چیف سکریٹری ڈبلیو بی بیلی کا تبصرہ،خبروں کے نمونے،حکومت سے تعلقات،اخبار کا نیا دور اردو صحافت کانقش اول وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کی ہے ان خیالات کا اظہار معروف صحافی اورروزنامہ انقلاب کے ریزیڈنٹ ایڈیٹرڈاکٹر یامین انصاری نے غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ”جی ڈی چندن: کچھ باتیں کچھ یادیں“ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔
غالب اکیڈمی نئی دہلی میں گروبچن داس چندن کے ایک سو ایک برس پورے ہونے پرڈا کٹر یامین انصاری نے اپنے لیکچر میں مزید کہا کہ جی ڈی چندن نے اپنی پوری زندگی نہ صرف اردو زبان و ادب بلکہ اردو صحافت میں نمایاں خدمات انجام دیں اس کے ساتھ ہی وہ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے۔ انھوں نے اردو صحافت کی خامیوں اور خوبیوں دونوں کو مثبت انداز میں پیش کیا۔ وہ ایک سیکولر ذہن کے انسان تھے اور کسی بھی تعصب سے دور تھے۔انھوں نے مزید کہا کہ جی ڈی چندن8 اکتوبر1922کو باغباں پورہ لاہور میں پیدا ہوئے۔ تقسیم سے قبل انگریزی روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں سب ایڈیٹر اور ساگر میں ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔” باغباں پورہ کی آواز“ نامی ایک ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا۔تقسیم ہند کے بعد وہ دہلی آگئے۔1948سے1980تک پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)سے وابستہ رہے۔سبکدوشی کے بعد منصف حیدر آباد میں دہلی کے نمائندہ کے طور پر کام کیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر گلشن رائے کنول نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ یامین انصاری کے لیکچر میں دو شہروں لاہور اور دہلی کا ذکر ہوا ۔تقسیم سے قبل لاہور میں اردو سرکاری زبان تھی۔ اسکول اور دفاتر میں عرضی اردو میں لکھی جاتی تھی۔ بہت سے اخبار وہاںسے نکلتے تھے جو بعد میں دہلی سے نکلنے لگے۔لاہور میں دن میں دوبار اردو اخبار نکلتا تھا۔اس میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں ہندو ہوتے تھے۔
اس موقع پر ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ چندن صاحب کاغالب اکیڈمی سے گہرا رشتہ تھا۔ انھوں نے اپنی صحافت سے متعلق اردو کتابیں غالب اکیڈمی لائبریری میں رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس کی تکمیل ان کے فرزند انل کمار لکھینا نے پوری کی۔غالب اکیڈمی ان کی یاد میں ہر سال میموریل لیکچر کا اہتمام کرتی ہے۔لیکچر کے بعد اس موقع پر ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں ادیب وشاعر موجود تھے