اودھ کی وراثت کو سنجوئے رکھنے میں فلموں نے نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے:مظفر علی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-11-2023
اودھ کی وراثت کو سنجوئے رکھنے میں فلموں نے نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے:مظفر علی
اودھ کی وراثت کو سنجوئے رکھنے میں فلموں نے نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے:مظفر علی

 



 بارہ بنکی:(ابوشحمہ انصاری)سنیما زندگی سے مختلف نہیں ہے اردو اور اودھ کی تہذیب و ثقافت کا جو دنیا میں ڈنکا بجتا ہے اس میں فلموں نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔اودھ کی وراثت کو سنجوئے رکھنے میں فلموں نے نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے۔تمام فنون چاہے وہ رقص،موسیقی، پینٹنگ،شاعری یا فلم سازی ہو اس کا استعمال تعمیری بھی ہو سکتا ہے اور تخریبی بھی۔فن کے ذریعہ انسان سماج اورمعاشرے کو سنوار سکتا ہے کیونکہ فن جب تک ایک مشق یا تربیت سے آگے بڑھ کر جب تک عبادت و ریاضت اور روحانیت کی حدود میں داخل نہیں ہو گا اس وقت تک اس میں جان نہیں پڑ سکتی۔

یہ باتیں مشہور و معروف فلم ساز، فیشن ڈیزائنر، مصور، صوفی اور سماجی کارکن مظفر علی نے بطور مہمانِ خصوصی امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیزمیں"ہندوستانی فلموں میں تہذیب اودھ"کتاب کی رسمِ رونمائی کے موقعہ پر کہی۔ انھوں نے مزید کہا کہ فلموں کے ذریعہ عوام اور خواص کے ایک بڑے طبقے تک اپنی بات پہنچائی جا سکتی ہے۔اودھ کی تہذیب و ثقافت میرے لکھنؤ، کولکاتا، ممبئی اور پھر دہلی کے پڑاؤ میں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہی۔ ڈاکٹر منتظر قائمی کی کتاب "ہندوستانی فلموں میں تہذیب اودھ" جو کہ پہلے اردو میں بارہ برس قبل شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے اب ہندی میں ڈاکٹر پرارتھنا سنگھ کی وجہ سے آپ سب کے درمیان ہے کیونکہ انھوں نے ہندی کے بڑے طبقے تک اس کتاب کو پہنچانے میں مدد کی ہے جس کے ذریعہ اودھ کے متعدد فنون کیسے فلموں تک پہنچے ہیں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ 

پروگرام کے مہمان اعزازی اور معروف تاریخ داں اور اودھ کی تاریخ و تہذیب پر خصوصی درجہ رکھنے والے ڈاکٹر روشن تقی نے کہا کہ انگریزوں نے جو کولونیل کلچر ہمارے سپرد کیا وہ ہماری فلموں میں دکھائی دیتا ہے۔یہ تاریخ نویسوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق کو سامنے لائیں۔مظفر علی کی حالیہ خودنوشت"ذکر" کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کتاب کا نام ہی استعاراتی کیفیت رکھتا ہے جس میںایک طرف ذکر کا سلسلہ صوفیانہ مسلک میں ذکر ایک خاص معنی و مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے اور دوسری جانب یہ انبیاء کرام کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے اور عام معنوں میں انسان اپنی سرگزشت کو ذکر کر سکتا ہے۔صوفزم کے تعلق سے انھوںنے بتایا کہ جس طرح مچھلی کو تیرنا نہیں سکھایا جاتا بلکہ وہ جس ماحول و معاشرے میں زندگی گزارتی ہے ویسے ہی انسان اور ہر ایک کے اردو گردصوفیانہ خیالات فضا میں تحلیل رہتے ہیں۔ڈاکٹر منتظر قائمی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب کو پروان چڑھانے میں ہماری فلموں کا بہت بڑا رول رہا ہے مگر سنیما اودھی تہذیب کے فقط انھیں پہلوؤں کو بروئے کار لایا جو اس کے لئے بڑا کار آمد تھا۔ہم کتھک، ٹھمری، دادرہ، مجراء، قوالی اورطوائف بازی کو ہی اودھ کی تہذیب سمجھتے ہیں کیونکہ یہی فنون سنیما کے ذریعہ پردے پر دکھایا جاتا ہے جبکہ اودھ کی تہذیب و ثقافت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اپنے صدارتی خطبے میں فارسی کے معروف دانشور پرو فیسر عارف ایوبی نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے فارسی زبان و ادب سکھانے کے لئے ہندی فلموں کا استعمال کیاجس کے ذریعہ بڑی ہی آسانی سے کوئی فارسی زبان و ادب کو سیکھ سکتا ہے۔مظفر علی کی بیشتر فلموں کے مناظر، مکالمے اورنغمے کومیں طلباء کی فارسی دانی کے لئے تصرف میں لایا جس کا بڑا ہی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا۔پروگرام میں استقبالیہ کلمات میں امریکن انسٹی ٹیوٹ کے نگراں ڈاکٹر احتشام خان نے کہا کہ یہاں غیر ملکی طلباء کے درمیان مظفر علی کا آنا ہم سب کے لئے باعثِ مسرت ہے کیونکہ یہاں امریکہ کے متعدد تعلیمی اداروں سے اردو زبان و ادب اور لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت سیکھنے کے لئے آتے ہیں اور طلباء کو اودھ کی تہذیب سے واقفیت دلانے کے لئے امراؤجان، انجمن، گمن اور آگمن جیسی فلمیں بھی دکھائی جاتی ہیں ۔ ڈاکٹر احتشام خان نے پروگرام میں نظامت کے فرائض انجام دئے۔آ خر میں ڈاکٹر پرارتھنا سنگھ نے تمام مہمانوں اور شرکا شکریہ ادا کیا۔پروگرام میں خصوصی طور سے صحافی و ادیب پردیپ کپور، نابینا افراد کے لئے کام کرنے والے روہت میت،ماہر امراض اطفال ڈاکٹر سردار مہدی،ڈاکٹر دیبا مہدی عابدی، فخرالدین علی احمد کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سیما سنگھ، ڈاکٹر ثنا پروین انصاری، ڈاکٹر اسمی صدیقی، کلب عابد، کاظمی فاطمہ، محمد شعیب، کلب عباس اور ابھے کمار سمیت متعدد طلباء و طالبات اور تہذیب اودھ کے دلدادہ موجود رہے۔