کیا امریکا بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کرے گا؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-11-2021
کیا امریکا بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کرے گا؟
کیا امریکا بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کرے گا؟

 

 

واشنگٹن : امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ چین میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپک کھیلوں کا سفارتی بائیکاٹ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کئی امور پر شدید اختلافات کے سبب کشیدگی پائی جاتی ہے۔

- میکسیکو اور کینیڈا کے رہنماؤں سے ملاقات سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ آئندہ برس چین کے شہر بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپک کھیلوں کے سفارتی بائیکاٹ پر غور کر رہی ہے۔

اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ گیمز میں شرکت کے لیے کسی امریکی اہلکار کو نہیں بھیجا جائے گا۔ امریکا اور چین کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اس طرح کے فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے۔

گزشتہ پیر کومسٹر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ پہلی بار براہ راست بات چیت کی تھی۔ تاہم وائٹ ہاؤس میں، بائیڈن کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین کے رہنماؤں کے درمیان جو تین گھنٹے کی ورچوئل میٹنگ ہوئی اس دوران اولمپکس پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔

 امریکا کی حکمراں ڈیموکریٹک اوراپوزیشن ریپبلکن، دونوں ہی جماعتوں کے قانون سازوں نے چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بطور احتجاج سفارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

 لیکن سفارتی بائیکاٹ سے کھلاڑیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ محترمہ ساکی کا کہنا تھا کا امریکا اب بھی اپنے اس موقف کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں ہے کہ آخر اس صورت میں ان کھیلوں میں، ''ہماری موجودگی کس نوعیت کی رہے گی۔'

' یہ سرمائی کھیل آئندہ چار فروری سے شروع ہونے والے ہیں۔ 

امریکا چین پر صوبہ سنکیانگ میں اقلیتی مسلم ایغوروں کی نسل کشی کا الزام لگا تا رہا ہے۔ ہانگ کانگ میں مبینہ سیاسی آزادی دبانے کے حوالے سے بھی امریکا اور چین کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔

مسٹر بائیڈن نے سفارتی بائیکاٹ سے متعلق اپنا بیان ایسے وقت دیا جب وہ وائٹ ہاؤس میں میکسیکو کے صدر اینڈرس مینوئل لوپیز اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے باضابطہ بات چیت کے لیے میزبانی کر رہے تھے۔

تینوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس سمٹ کا نام ''تھری امیگوس'' دیا گیا ہے۔ اس میں سرحدی مسائل، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ٹیکس کی رعایت، کووِڈ سے متعلق احتیاطی تدابیر اور دیگر مسائل پر توجہ مرکوز کیے جانے کی توقع ہے۔ 

بائیکاٹ کا مطالبہ گزشتہ ماہ، امریکی سینیٹرز نے ایک بل کے مسودے میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی جس کے تحت امریکی محکمہ خارجہ کو اولمپک کھیلوں میں امریکی سفارت کاروں کو ''مدد یا سہولت فراہم'' کرنے کے لیے سرکاری فنڈز دینے کی اجازت نہیں ہو گی-

کانگریس میں سب سے سینیئر ڈیموکریٹ رہنما نینسی پیلوسی نے سفارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو امریکی رہنما اس میں شرکت کریں گے وہ اپنا، ''اخلاقی اختیار'' کھو دیں گے۔

 ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے بھی جمعرات کو کہا، ''نسل کش اولمپکس'' کا سفارتی بائیکاٹ ''بہت چھوٹی اور بہت تاخیر سے'' اٹھایا گیا قدم ہو گا۔

 انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام امریکی کھلاڑیوں، عہدیداروں اور امریکی کارپوریٹ اسپانسرز کو بھی اس کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اقوام متحدہ میں امریکا کی سابق نمائندہ نکی ہیلی نے بھی ان کھیلوں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔