زکوٰۃ اسلام کاایک اہم رکن

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 12-04-2023
زکوٰۃ اسلام کاایک اہم رکن
زکوٰۃ اسلام کاایک اہم رکن

 

مولانا کلیم اللہ 

زکوٰۃ اسلام کاایک اہم رکن ہے۔اس کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ عزوجل نے 82مقامات پرنماز کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیااور جہاں جہاں صرف زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم فرمایاہے وہ اس کے علاوہ ہیں۔شاہکارِ دستِ قدرت مصطفی جانِ رحمت ﷺ نے زکوٰۃ کو اسلام کی بنیاد قرار دیا۔ چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اﷲ کی وحدانیت اور رسول اﷲﷺکی رسالت کا اقرار کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنااور ماہِ رمضان کے روزے رکھنا‘‘۔

 رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’تمہارے اسلام کاپورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰۃ اداکرو‘‘۔ اورحضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : جو اﷲ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لایا اس پر لازم ہے کہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ )

 طبرانی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : جو مجھ کو چھ چیزوں کی ضمانت دے، میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں، راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ وہ چھ چیزیں کیا ہیں؟ اﷲ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا : نماز، زکوٰۃ، امانت، شرمگاہ، شکم اور زبان۔

حضرت ابو ایوب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبیٔ کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا کہ سرکار مجھے ایسا عمل بتا دیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’اﷲ کی عبادت کر، کسی کو اس کا شریک نہ کر، نماز قائم کر اور زکوٰۃ ادا کر ‘‘۔ (برکاتِ شریعت،ص؍280)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبیوں کے سردار اور ہم غلاموں کے آقا و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ اس کو تین بار فرمایا پھر سر جھکا لیا تو صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے بھی سر جھکا لیا اور رونے لگے۔ معلوم نہ ہو ا کہ آپ نے کس چیز پر قسم کھائی ہے پھر حضور انورصلی اﷲ علیہ وسلم نے سر مبارک اٹھالیا ،چہرۂ پُر نور پر خوشی کے آثار تھے اور ارشاد فرمایا:جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھتا ہے، رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اپنے مال کی زکوٰۃ دیتا ہے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا۔ (ایضاً،ص؍281)

زکوٰۃ سے کیا مراد ہے؟

نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے اور دوسرا معنی نشوونما اور ترقی کا ہے۔

 إبراهيم انيس، المعجم الوسيط، 1 : 396

زکوٰۃ کے اول الذکر معنی کی وضاحت قرآن مجید یوں کرتا ہے 

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo

’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)o‘‘

 الشمس، 91 : 9

اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیۂ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مدِ نظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانے والے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور جس طرح نفس کو آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے اسی طرح کھیتی کو فالتو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف کرنے پر بھی لفظ زکوٰۃ کا اطلاق ہوتا ہے۔

زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔

اس مفہوم کی رو سے زکوٰۃ کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) تسکین ہے اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘

 التوبه، 9 : 103

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط کیا ہیں؟

زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں

۔ مسلمان ہونا : زکوٰۃ مسلمان پر فرض ہے، کافر اور مرتد پر نہیں۔

۔ بالغ ہونا : زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے، نابالغ زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔

۔ عاقل ہونا : زکوٰۃ عاقل مسلمان پر فرض ہے، دیوانے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

۔ آزاد ہونا : زکوٰۃ آزاد و خود مختار پر فرض ہے، غلام پر نہیں۔

۔ مالک نصاب ہونا : شریعت کے مقرر کردہ نصاب سے کم مال کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

۔ مال کا صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہونا : مال صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہو تو تب ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہے مثلاً کسی نے اپنا مال زمین میں دفن کر دیا اور جگہ بھول گیا اور پھر برسوں بعد وہ جگہ یاد آئی اور مال مل گیا، تو جب تک مال نہ ملا تھا اس زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ وہ اس عرصہ میں نصاب کا مالک تو تھا مگر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے پورے طور پر مالک نہ تھا۔

۔ صاحبِ نصاب کا قرض سے فارغ ہونا : مثلاً کسی کے پاس مقررہ نصاب کے برابر مال تو ہے مگر وہ اتنے مال کا مقروض بھی ہے تو اس کا مال قرض سے فارغ نہیں ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں

۔ نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا : حاجتِ اصلیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو زندگی بسر کرنے میں بعض بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے بلحاظ موسم کپڑے اور دیگر گھریلو اشیائے ضرورت جیسے برتن، وغیرہ۔ اگرچہ یہ سب سامان زکوٰۃ کے مقررہ نصاب سے زائد مالیت کا ہی ہو مگر اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب مال و سامان حاجتِ اصلیہ میں آتا ہے۔

۔ مالِ نامی ہونا : یعنی مال بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا مال ہو جیسے مال تجارت اور چرائی پر چھوڑے ہوئے جانور یا حکماً بڑھنے والا مال ہو جیسے سونا چاندی۔ یہ ایسا مال ہے جس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے بدلے دیگر اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا سونا چاندی جس حال میں بھی ہو خواہ زیورات اور برتنوں کی شکل میں ہو یا زمین میں دفن ہو ہر حال میں یہ مالِ نامی یعنی بڑھنے والا مال ہے اور ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔

۔ مالِ نصاب کی مدت : نصاب کا مال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب مِلک میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس پرزکوٰۃ نکالی جائے گی۔

. شرنبلالی، نورالايضاح، 146

. سرخسی، المبسوط، 2 : 172