سال2024:پدم ایوارڈز کے حقدار بنے مسلم چہرے

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-01-2024
سال2024:پدم ایوارڈز کے حقدار بنے مسلم چہرے
سال2024:پدم ایوارڈز کے حقدار بنے مسلم چہرے

 

            منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

ایم فاطمہ ب ی بی۔ خلیل احمد۔ نسیم بانو۔ تقدیرہ بیگم۔غلام نبی ڈار۔ڈاکٹر ظہیر قاضی ،علی محمد اور غنی محمد ۔۔۔۔۔۔یہ نام اس فہرست کا حصہ ہیں جو اس سال پدم ایوارڈز کے حقدار بنے ہیں ۔ یاد رہے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر سال پدم ایوارڈز کا اعلان ہوتا ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے جب 132 لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔جبکہ یہ پہلا موقع ہے جب دیگر پسماندہ طبقے (او بی سی) کمیونٹی کے سب سے زیادہ لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس بار او بی سی کمیونٹی کے 40 لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ پدم ایوارڈ سے نوازے جانے والوں میں 11 لوگ درج فہرست ذات سے ہیں اور 15 لوگ درج فہرست قبائل کے زمرے سے ہیں۔ اس بار عیسائی برادری کی ریکارڈ تعداد میں شخصیات کو بھی پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ 2024 میں پدم ایوارڈ سے نوازے جانے والوں میں 9 افراد کا تعلق عیسائی برادری سے ہے۔ پدم ایوارڈ سے نوازے جانے والوں میں 8 لوگ مسلم، 5 بدھ اور 3 سکھ برادری سے ہیں۔ جین اور پارسی کمیونٹی کے دو دو افراد کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

اگر ہم بات کریں مسلم چہروں کی تو ان میں یقینا پہلا نام سپریم کورٹ کی پہلی مسلم خاتون جج کے طور پر جسٹس ایم فاطمہ بی بی کا ہے جنہیں بعد از مرگ پدم بھوشن کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ کشمیر کے فنکار غلام نبی ڈار ہیں تو راجستھان سے علی اور غنی برادرس ہیں ۔ان کے ساتھ بنگال کی تقدیرہ بیگم ہیں تو اترپردیش کی نسیم بانو کے نام اس فہرست میں چمک رہے ہیں۔ایک نام ممبئی کے ماہر تعلیم ڈاکٹر ظہیر قاضی کا بھی ہے جو انجمن اسلام  کے سربراہ ہیں جس کے تعلیمی اداروں کا ایک بڑا جال بچھا ہوا ہے۔  جنہیں پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا ہے- 

آئیے ڈالتے ہیں ایک نظر ان مسلم چہروں پر جنہیں قومی شہری ایوارڈز کے لیے چنا گیا ہے جنہوں نے مختلف میدانوں میں اپنے ہنر کا لوہا منویا ہے بلکہ کہیں نہ کہیں ملک کی ثقافت اور وراثت کی حفاظت کی ہے 
 جسٹس ایم فاطمہ بی بی - پدم شری - بعد از مرگ 
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپنی تقرری کے بعد، جسٹس ایم فاطمہ بی بی نے اپنے فیصلوں سے نہ صرف عدلیہ کے وقار کو بڑھایا بلکہ خواتین کے لیے قانونی پیشے میں آگے بڑھنے کا راستہ بھی کھولا۔ جسٹس ایم فاطمہ بی بی 1927 میں کیرالہ کے پٹھانمتھیٹا میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام اناویتل میرا صاحب اور والدہ کا نام خدیجہ بی بی تھا۔ وہ اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ ان کے والد اناویتل میرا صاحب ایک سرکاری ملازم تھے اور رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جسٹس فاطمہ بی بی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی خاص طور پر قانون کی ڈگری ایسے وقت میں جب مگر وہ مسلم گھروں کی بہت کم لڑکیاں اسکول یا کالج جانے کے قابل تھیں۔بار کونسل سے گولڈ میڈل حاصل کرنے والی پہلی خاتون لاء گریجویٹ بن گئیں۔
اپنی ابتدائی تعلیم ایک کیتھولک اسکول سے حاصل کرنے کے بعد،دراصل انہوں نے خواتین کے کالج سے کیمسٹری میں گریجویشن کیا۔ اس کے بعد اپنے والد کے اصرار پر انہوں نے ترواننت پورم کے ایک سرکاری لاء کالج سے قانون میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1950 میں، جسٹس فاطمہبی بی بار کونسل سے گولڈ میڈل حاصل کرنے والی پہلی خاتون لاء گریجویٹ بنیں۔ اس کے بعد انہوں نے کولم ڈسٹرکٹ کورٹ میں جونیئر وکیل کے طور پر داخلہ لیا۔ اس وقت مسلم کمیونٹی نے ان کا عدالت جانا پسند نہیں کیا لیکن فاطمہبی بی نے کبھی ان کی پرواہ نہیں ۔ ایم فاطمہ بی بی نے اپنے دور میں کئی اہم فیصلے دئیے۔وہ حجاب پہن کر عدالت جاتی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے کامیابی سے سرکاری امتحان پاس کیا اور منصف مجسٹریٹ بن گئیں۔ 1974 میں وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنیں۔ 1983 میں وہ کیرالہ ہائی کورٹ کی جج مقرر ہوئیں اور چھ سال بعد، وہ ترقی پا کر 1989میں سپریم کورٹ کی جج بن گئیں۔ اپنے دور میں انہوں نے کئی اہم مقدمات کو نمٹاتے ہوئے اہم فیصلے سنائے ۔
 ۔1992 میں ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس فاطمہ بیوی کو 1997 میں تمل ناڈو کی گورنر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ہندوستان کے صدر شنکر دیال شرما نے انہیں کیرالہ کا گورنر مقررکیا تھا۔تمل ناڈو میں گورنر کی حیثیت سے،انہوں نے راجیو گاندھی قتل کیس میں سزا یافتہ چار قیدیوں کی طرف سے دائر رحم کی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ تاہم ایک سلسلہ وار واقعات کے بعد جسٹس ایم فاطمہ بیوی کو اپنی گورنری سے استعفیٰ دینا پڑا۔ جسٹس ایم فاطمہ بیوی نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (1993) اور کیرالہ کمیشن برائے پسماندہ طبقات (1993) کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ 1990 میں ڈی لٹ اور مہیلا شرومنی ایوارڈ اور بھارت جیوتی ایوارڈ اور یو ایس انڈیا بزنس کونسل (یو ایس آئی بی سی) لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیاتھا۔
انہوں نے  قومی انسانی حقوق کمیشن کے رکن اور تمل ناڈو کے گورنر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ تاہم گورنر کے طور پر ان کا دور متنازعہ رہا۔ جے جے للیتا کی قیادت والی اے آئی اے ڈی ایم کے نے تمل ناڈو میں 2001 کے اسمبلیانتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی لیکن بدعنوانی کے ایک کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد اسے چھ سال تک الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔گورنر جسٹس ایم فاطمہ بی بی نے نہ صرف جے للتا کو حکومت بنانے کی دعوت دی بلکہ انہیں چیف منسٹر کے عہدے کا حلف دلانے کے لیے بھی تیار تھیں۔بی بی کا خیال تھا کہ اکثریتی پارٹی نے انہیں اے آئی اے ڈی ایم کے کی پارلیمانی پارٹی کا لیڈر منتخب کیا ہے۔ تاہم مرکزی حکومت کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ مرکز نے صدر سے گورنر کو اس بنیاد پر ہٹانے کی سفارش کی کہ راج بھون اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ان کا انتقال 23 نومبر 2023 کو 96 سال کی عمر میں کولم، کیرالہ میں ہوا۔
 نسیم بانو
اتر پردیش کی چکنکاری کاریگر نسیم بانو کو حکومت نے پدم ایوارڈ سے نوازا ہے۔ پدم ایوارڈ کے اعلان کے بعد بانو نے کہا کہ میں اور میرا پورا خاندان اس کامیابی سے بہت خوش ہیں۔ ہم حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس ایوارڈ کے لیے اور خدا کا شکر ہے۔ نسیم بانو لکھنؤ کی رہنے والی ہیں۔ریاستی دارالحکومت لکھنؤ کے ٹھاکر گنج علاقے کی مکامی نسیم بانو نے بہت چھوٹی عمر میں چکنکاری شروع کر دی تھی۔ وہ ریاست کے اودھ علاقے میں چکن کڑھائی کے عمدہ کام کو مقبول بنانے کے لیے مشہور ہیں۔ بانو نے بتایا کہ اس نے چکنکاری کافن اپنے والد حزن مرزا سے سیکھا۔
بانو نے کہاکہ میں آج جو کچھ بھی ہوں، اپنے خاندان کی حمایت اورنسیم  میرے والد کی تعلیم کی وجہ سے ہوں۔ انہوں نے عمدہ چکنکاری کی روایت کو زندہ رکھنے اور نوجوان کاریگروں تک اس روایت کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بانو نے مزید کہا کہ میں نے اس فن میں 5000 سے زیادہ چکنکاری کاریگروں کو تربیت دی ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس روایت کی حفاظت کریں گے اور اسے آگے بڑھائیں گے۔ 
بانو کوسال 1985 میں اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 1988 میں اس وقت کے صدر آر وینکٹارمن نے انہیں اس کام کے لیے اعزاز سے نوازا تھا۔ بانو نے بتایا کہ انہیں ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ امریکہ، جرمنی، کینیڈا، عمان سمیت نو ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ 
تقدیرہ بیگم 
تقدیرہ  بیگم بیر بھوم کے بول پور کے جمبونی علاقے میں مدرسہ پاڑہ کی رہنے والی ہیں۔ وہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے کانٹھا سلائی کر رہی ہیں۔ اس کام کے لیے انہیں مرکزی حکومت کی جانب سے پدم شری ایوارڈ سے نوازنے کے لیے منتخب کیا گیا ۔ وہ 30 سال سے اس ہنرکو فروغ دے رہی ہیں اور ان کے کام کے لیے کبھی ضلع، کبھی ریاستی اور کبھی قومی سطح پر اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ انہیں 1995 اور 1996 میں مسلسل دو بار قومی سطح پر ایوارڈ دیا گیا۔ 2009 میں انہیں شلپاگورو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پھر 2024 میں پدم شری۔
تقدیرہ بیگم نے ٹیلرنگ اس وقت سیکھی جب وہ پانچویں جماعت میں تھیں۔ بعد میں اس نے کانٹھا سلائی کا کام خاندان کے بزرگوں سے سیکھا۔ اس کے بعد اس کانٹھا سلائی کے کام کے لیے ان کی جدوجہد شروع ہوئی۔ یہ کام کرکے خاندان کمانے اور چلانے کے علاوہ انہوں نے علاقے کی کئی خواتین کو کمائی کے راستے دکھائے ہیں۔ انہوں س سے سیکھنے اور کام کرنے والی بہت سی خواتین ہیں جو خاندان کی کفالت کرتی ہیں۔ اس کے ذریعے وہ معاشرے کی معاشی طور پر پسماندہ آمدنی کی سمت دیکھ رہی ہیں۔ اس معاملے کو عزت دینے کے لیے انہیں مرکز نے پدم شری سے نوازا ہے۔
تقدیرہ بیگم اپنے گھر پر کانٹھا سلائی کا کام کرتی ہیں اور اسے ملک کے مختلف حصوں میں پہنچاتی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے بنی کانٹھا سلائی کا کام اب بنیادی طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے ذریعے دہلی پہنچتا ہے۔ وہیں تقدیرہ بیگم کی ہاتھ سے بنی کانٹھا سلائی کے آئٹم فروخت ہوتے ہیں۔ جمعرات کو، تقدیرہ بیگم کو بہت خوشی ہوئی جب اسے معلوم ہوا کہ اسے پدم شری سے نوازا جا رہا ہے۔
 خلیل احمد
جمعرات کا دن مرزا پور ضلع کے لیے آرٹ، موسیقی اور دستکاری کے نقطہ نظر سے بہت خاص تھا۔ فوک گائیکی میں ارمیلا سریواستو کے ساتھ خلیل احمد کو بھی ہاتھ سے بنے قالین بالخصوص پنجہ دری کے شعبے میں ان کی خصوصی شراکت کے لیے پدم شری ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔امام باڑہ کے علاقے کے رہنے والے 75 سالہ خلیل تین نسلوں سے نہ صرف اس فن سے منسلک ہیں بلکہ اسے مزید فروغ دے رہے ہیں۔ خلیل کو 2000 میں اس وقت کے صدر اے پی جے عبدالکلام نے نیشنل ایوارڈ سے نوازا تھا۔ شلپ گرو کو 2007 میں ٹکسٹائل کی وزارت کا سب سے باوقار ایوارڈ دیا گیا۔ ان کا پورا خاندان قالین کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ان کے تین بیٹے رستم شہراب، افتخار احمد اور جلیل احمد بھی اس فن سے وابستہ ہیں۔ خلیل احمد نے پدم شری ایوارڈ ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ برسوں کی محنت اور تپسیا کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ نئی نسل کو اس صنف میں شامل ہونے کی طاقت دے گا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ مرزا پور کارپٹ کو جی آئی ٹیگ ملا ہے۔جی آئی کے ماہر ڈاکٹر رجنی کانت نے بتایا کہ مرزا پور کا ہاتھ سے بنایا ہوا قالین بہت خاص ہے۔ خلیل احمد برسوں سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور اسے ایک نئی بلندی دی ہے۔ انہوں نے ایوارڈ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار
کیا۔
  ایک فن کے محافظ  ۔ غلام نبی ڈار
سری نگر کے ایک قدیم ترین کاریگر سے جو عمر کے لحاظ سے اگرچہ سن رسیدہ ہیں تاہم ان کے ہاتھوں کی دستکاری اور ہنر جوانی کے رنگ بکھیر رہے ہیں - 70 سالہ غلام نبی ڈار لکڑی پر نقش نگاری کے معدوم ہورہے فن کو زندہ رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں - غلام نبی ڈار نے جس زمانے میں اس فن کو سیکھنا شروع کیاتھا تب کاریگروں اور دستکاروں کی لوگ بہت زیادہ قدر کرتے تھے لیکن آج جب کہ اس فن کے قدر شناس بہت کم ہیں غلام نبی اس کے باوجود اس فن کو آگے بڑھارہے ہیں ان کا خواب ہے کہ یہ ورثہ آئندہ آنے والی نسلوں تک باقی رہے اور کبھی اس کا خاتمہ نہ ہوں - غلام نبی ڈار کشمیر کے مشہور نقش تراشوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
آج جبکہ اس فن کے ساتھ غلام نبی ڈار کو ایک لمبا عرصہ ہوچکا ہیں انہیں کئ اعزازات سے نوازا گیا ہے اور اس دور کے میں کشمیر کے ایک منفرد اور ممتاز کاریگر کے طور معروف ہیں- ڈار کو 1995 میں لکڑی پر نقش و نگاری میں اپنے عمدہ کام کے لئے ایک قومی ایوارڈ سے نوازا گیاہے - یہ اعزاز انہیں لکڑی کے بنے ایک وال ہینگنگ ڈیزائن کے لئے دیا گیا جس میں انہوں نے بین المذاہب کے درمیان آپسی بھائی چارے کا ایک پیغام دیا تھا - اس فن پارے میں ڈار نے ایک کشمیری گاؤں کی عکاسی کی تھی جس میں ایک پنچایت میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی ممبران ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں- اس فن پارے پر ڈار کو قومی ایوارڈ سے نوازا گیا سے نوازا گیا - ڈار کا ماننا ہے کہ قومی ایوارڈ حاصل کرنا ان کے لئے ایک بڑا اعزاز تھا اس کےعلاوہ1984 میں ڈار کو ریاستی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے- ڈار نے کئ بیرونی ممالک کا سفر کیا ہے جن میں عراق جرمنی اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ میں  نے 1995 میں قومی ایوارڈ کے لیے اپنا فن پارہ جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بار میں نے ایک ڈبے کے اوپر نقش نگاری کی تھی۔ اس کا ہر کونا چہرے کے الگ الگ احساس اور جذبے سے بھرا ہوا تھا: خوشی کے اظہار کے لیے ہنسی، رونے کے لیے آنسوؤں کا استعمال کیا گیا تھا۔ اسی طرح غصہ اور خوف کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔ ان تصویروں کے درمیان، میں نے 3 ڈی پھول بنائے تھے۔ یہ ایوارڈ بھی میں نے اپنی پہلی کوشش میں ہی حاصل کر لیا۔ حکومت ہند کی کپڑے کی وزارت کے ڈیولپمنٹ کمشنر (ہینڈی کرافٹس) اور ڈیولپمنٹ کمشنر (ہینڈ لومز) کی طرف سے یہ ایوارڈ مجھے صدر جمہوریہ ہند شنکر دیال شرما نے دیا تھا۔ اس ایوارڈ کے ذریعے ’’ہندوستانی دستکاری کی قدیم روایات کو زندہ کرنے کی‘‘ میری کوششوں کو تسلیم کیا گیا تھا۔اس کے بعد، جو لوگ مجھے ایک فن پارہ کے عوض مجھے 1000 روپے دیا کرتے تھے، اب وہ 10ہزار روپے دینے لگے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں بہت خوش ہوں، میرا خاندان بھی بہت خوش ہے... جب کسی کاریگر کو کوئی ایوارڈ ملتا ہے، کوئی بھی ایوارڈ ملتا ہے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہ اس شعبے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، اگر حکومت کاریگروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی ہے تو وہ دلچسپی کھو دیتے ہیں۔ تسلیم کرنے پر اظہار تشکر کرتے ہوئے، ڈار نے روایتی فنون کے تحفظ میں حکومتی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے لکڑی کی تراش خراش کے مستقبل کے تحفظ کے لیے نوجوان کاریگروں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے ایک جامع ادارہ یا ورکشاپ کے قیام پر زور دیا۔ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیٹے سے، ڈار اپنے ہنر کے تسلسل کے لیے پر امید ہیں،ساتھ ہی حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے مستقل دلچسپی اور حمایت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
غلام نبی ڈار کا خیال ہے کہ نقش نگاری کے کاریگر اس فن سے ایک بہترین روزگار کما سکتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ بہت سارے لوگ اس پیشہ کو کیریئر کے طور پر نہیں لے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو ایک ایسے مکمل ادارے کو بروئے کار لاناچاہئے جہاں لکڑی پر نقش نگاری کے فن کو سکھایا جائے اور اس میں دلچسپی رکھنے والے کاریگروں کو پیشہ ورانہ طریقے سے تربیت دی جائے ۔
awazurdu
 انجمن اسلام کے روح رواں  ڈاکٹر ظہیر قاضی
ممبئی کی تعلیمی تنظیم انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی کو ادب اور تعلیم کے زمرے میں چوتھے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا ہے خاص طور پر اقلیتوں میں تعلیم کو فروغ دینے میں ان کے کام کے اعتراف میں۔قاضی صاحب گزشتہ 40 سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔پونڈا، گوا میں پیدا ہوئے، قاضی جمعہ (26 جنوری) کو اپنی 70ویں سالگرہ منا رہے تھے۔ انہوں نے گوا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور شہر کے نیر اسپتال سے ایم ڈی (ریڈیالوجی) کی ڈگری حاصل کی۔ ایک پریکٹس کرنے والے ریڈیولوجسٹ، قاضی ناگپاڈا میں پرائم ڈائیگنوسٹک سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں اور مختلف اسپتالوں میں کنسلٹنسی بھی فراہم کرتے ہیں۔وہ 150 سالہ انجمن اسلام کے سربراہ  ہیں۔13 سال اس ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں ۔جو پورے ملک میں تقریباً 97 اسکول، کالج، ہاسٹلز، یتیم خانے اور دیگر تعلیمی ادارے چلا رہی ہے۔ ریاست، ایک لاکھ سے زائد طلباء کو تعلیم فراہم کرتی ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ایک مربوط تکنیکی کیمپس قائم کرنے کا سہرا ان کے نام ہے جس میں انجینئرنگ، آرکیٹیکچر اور فارمیسی اور پولی ٹیکنک میں ڈپلومہ، ڈگری اور پوسٹ گریجویشن پروگرامز شامل ہیں ۔ نیو پنویل میں 10.5 ایکڑ اراضی کے ساتھ ساتھ ایک لاء کالج بھی ہے۔
ان کی قیادت میں انجمن اسلام نے بے سہارا خواتین کے لیے روزگار، مشاورت اور ہنر کی ترقی، پسماندہ خواتین کی کفالت، نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت، بالغوں کی تعلیم اور پہلی نسل کے سیکھنے والوں کی مدد کے لیے مختلف پروگرام شروع کیے ہیں۔ تنظیم اور ظہیر قاضی شہر کے ساتھ ساتھ کیرالہ پولیس کے ریڈیکلائزیشن کے اقدامات میں بھی شامل رہے ہیں۔اس سے قبل وہ ممبئی یونیورسٹی  کے سینیٹ کے ممبر مینجمنٹ کے نمائندے کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے دو مواقع پر یونین اقلیتی تعلیم کے مسائل اور پالیسیوں پر بات چیت کرنے اور اردن کے بادشاہ کے دورے کے دوران بھی مدعو کیا ہے۔
استاد علی ۔ غنی برادرس
غزل اور مانڈ گائیکی کے استاد بھائی علی محمد اور غنی محمد کی جوڑی، جو بیکانیر کے تیجراسر جیسے چھوٹے گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، اس بار پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ دونوں بھائیوں کی جوڑی نے غزل گائیکی کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ علی غنی برادران نے غزل کو آسان اور سادہ موسیقی کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہی نہیں، وہ راجستھان کے روایتی مانڈ گانے میں بھی ایک بڑا نام ہے۔ دونوں نے کئی ہندی فلموں میں غزل گلوکار پنکج اُداس، منوہر اُداس اور انوپ جلوٹا کے لیے موسیقی بھی دی ہے۔
پدم ایوارڈز ہندوستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات ہیں۔ ان کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے - پدم وبھوشن، پدم بھوشن اور پدم شری۔ یہ اعزازات فنون، سماجی کام، عوامی امور، سائنس اور انجینئرنگ، کاروبار، طب، ادب اور تعلیم، کھیل، سول سروس میں شراکت کے لیے دیے جاتے ہیں۔
 آپ کو بتا دیں کہ  2024 میں 132 پدم ایوارڈز دیے جا رہے ہیں، جن میں سے دو ایوارڈز جوڑے میں دیے جاتے ہیں۔ جوڑوں میں دیے گئے اعزازات کو بھی ایک شمار کیا جاتا ہے۔ 132 میں سے 5 پدم وبھوشن، 17 پدم بھوشن اور 110 پدم شری ایوارڈز ہیں۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں 30 خواتین بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی، 2024 میں پدم ایوارڈ سے نوازے جانے والے 8 افراد غیر ملکی ہیں۔ 9 افراد کو یہ اعزاز بعد از مرگ دیا جا رہا ہے۔بہار کے بندیشور پاٹھک کو بعد از مرگ پدم وبھوشن، کیرالہ کی فاطمہ بی بی، مغربی بنگال کے ستیہ برتا مکھرجی، لداخ کے ٹی رنپوچے اور تمل ناڈو کے وجے کانت کو بعد از مرگ پدم بھوشن سے نوازا گیا ہے۔ اتر پردیش کے سریندر موہن مشرا، کیرالہ کے پی سی نمبودری پاد، گجرات کے ہریش نائک اور مغربی بنگال کے نیپال چندر سترادھر کو بعد از مرگ پدم شری سے نوازا گیا ہے۔