خاتون آہن قدسیہ نذیر ۔۔۔۔ لوہے سے لیا لوہا

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 27-02-2024
 خاتون آہن قدسیہ نذیر ۔۔۔۔ لوہے سے لیا لوہا
خاتون آہن قدسیہ نذیر ۔۔۔۔ لوہے سے لیا لوہا

 

شاہ تاج خان(پونے)

سال 2013میں بیٹے کی پیدائش کے بعد قدسیہ نذیر کا وزن 82کلو گرام تک پہنچ گیا تھا۔جس کے سبب انہوں نے جم جانے کا فیصلہ کیا۔وزن کم کرنے کی غرض سے جم جوائن کرتے ہوئے قدسیہ نذیر کو شاید خود بھی معلوم نہیں تھا کہ 6دسمبر 2022کے دن وہ 300 کلو گرام وزن اٹھا کر ویٹ لفٹنگ میں عالمی ریکارڈ قائم کریں گی۔قدسیہ نذیر دنیا میں پہلی خاتون ہیں جنہوں نے آپریشن سے ہونے والی ڈیلیوری کے بعد یہ ریکارڈ بنایا۔بنگارپیٹ،بنگلور کرناٹک میں پیدا ہونے والی قدسیہ نذیراپنی ہمت ،کوشش ، صلاحیت اور محنت سے آج ویٹ لفٹنگ (ماسٹرز) کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا چکی ہیں۔

                اپنا زمانہ بناتے ہیں اہل دل

ہم وہ نہیں جن کو زمانہ بنا گیا

قدسیہ نذیر کا بچپن دشواریوں بھرا رہا ہے۔والد صاحب کے انتقال کے وقت قدسیہ نذیر محض دو سال کی تھیں۔نذیر صاحب کا انتقال تیس سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔والد کی اچانک موت کے بعدچار بھائی بہنوں کی پرورش کی ذمّہ داری اُن کی والدہ نے سنبھالی تب والدہ صرف 25 سال کی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ہمارے مشکل وقت میں کوئی بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آیا۔بچپن محرومیوں اور پریشانیوں کی نذر ہو گیا۔آواز دی وائس سے فون پر ہونے والی گفتگو میں وہ کہتی ہیں کہ گھر کا ماحول بہت تناؤ بھرا تھا ۔ایک بڑی بہن اور بڑے بھائی کے بعد ہم جڑواں بہنیں ہیں۔ہم دونوں کو شروع سے ہی لوگ منحوس ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے۔یہاں تک کے ہماری والدہ بھی ہم دونوں بہنوں کو منحوس سمجھتی تھیں۔ہم دونوں بہنوں نے تین بار خودکشی کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔پہلی بار چوتھی جماعت میں ،پھر چھٹی جماعت میں اور ساتویں جماعت میں بھی ہم نے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی۔بچپن کے حالات کے سبب میں ڈپریشن کا شکار تھی۔

awazurduقدسیہ نذیر کی کامیابی کی کہانی 


آہنی خاتون قدسیہ نذیر نے ایک عربی مدرسے میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامک بیت المال کے اسکول سے دسویں اور بعد میں بارہویں کا امتحان پاس کیا۔جس کے بعد 2005میں قدسیہ نذیر کو اپنے والد کی کمپنسینٹری ملازمت کے ایس آر ٹی سی کے بنگلور دفتر میں مل گئی تھی۔دورانِ ملازمت قدسیہ صاحبہ نے فاصلاتی تعلیم کے ذریعہ بی کام ، ایم بی اے اور پھر ڈپلومہ ان سافٹ ویئر ایپلیکیشنز مکمل کر لیا۔اِس دوران ان کی شادی بھی ہو گئی تھی۔گھر اور نوکری کی ذمّہ داریوں کے دوران زندگی رواں دواں تھی۔

لیکن بچے کی پیدائش کے بعد بڑھے ہوئے وزن نے قدسیہ نذیر کو ان کے اندر پوشیدہ ایک کھلاڑی کو باہر لانے کا راستہ دیا۔وہ بتاتی ہیں کہ جب ایک بار وہ 110 کلو گرام ویٹ لفٹ کر رہی تھیں تو جم کے ایک باڈی بلڈرساتھی نے انہیں ویٹ لفٹنگ میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا۔وہ ہنس کر بتاتی ہیں کہ انہوں نے توپہلے دن دس کلو گرام کے ڈنبل کے ساتھ جم میں ورک آؤٹ کرنا شروع کیا تھا۔جسے دیکھ کر جم کے ٹرینر بھی حیران ہوئے تھے۔کیونکہ نئے لوگ عام طور پر 2.5 کلوگرام ڈنبل کے ساتھ ورک آؤٹ شروع کرتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ وہ جب بھی وزن لفٹ کرتی تھیں تو انہیں وزن ہلکا ہی لگتا تھا۔قدسیہ نذیر بتاتی ہیں کہ میں آئی ہیٹ مائی لائف کہہ کر وزن اٹھاتی تھی۔مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں کتنا وزن اٹھا رہی ہوں۔مجھے یہ علم ہی نہیں تھا کہ مجھے کوئی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

awazurdu

awazurduقدسیہ نذیر نے ذاتی اور پروفیشنل زندگی میں توازن بنایا 


یہ آسماں کچھ کم ہے

                میں نے اپنی پروفیشنل لائف اور پرسنل لائف کے درمیان پیشن لائف کو بھی شامل کر لیا ہے۔ذمّہ داری بڑھ گئی ہے لیکن میں مینیج کرنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔قدسیہ نذیر کی صبح چار بجے ہو جاتی ہے۔تہجد کی ادائیگی کے بعد وہ صبح پانچ بجے جم پہنچ جاتی ہیں جہاں وہ تین گھنٹے ورک آؤٹ کرتی ہیں۔گھر واپس آنے کے بعد گھر کے کام اور پھر آفس کے لیے نکل جاتی ہیں۔آفس سے وہ شام چار بجے واپس گھر آتی ہیں ۔آفس سے جلد واپسی کے تعلق سے وہ بتاتی ہیں کہ ہمارے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر انبو کمار نے میرے ٹیلینٹ کو پہچانا اور مجھے آفس کے وقت سے تین گھنٹے کی چھٹی دی تاکہ میں ٹریننگ کر سکوں۔مجھے ہر روز تین گھنٹے آف ملتا ہے۔واضح رہے کہ آفس سے واپس آنے کے بعد ایک گھنٹہ آرام کر کے وہ پھر جم میں ورک آؤٹ کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔جہاں سے رات نو بجے اُن کی واپسی ہوتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی ورک آؤٹ نہ کرنے کے لیے کوئی بہانا نہیں بنایا ہے۔وہ اپنے پیشن کو فولو کرنے کے لیے مسلسل محنت کر رہی ہیں۔

ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو

ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے

                قدسیہ نذیر کے والد مرحوم نذیر صاحب قومی سطح پر ریسلر تھے۔کشتی میں اُن کے جیتے ہوئے متعدد میڈل گھر میں موجود تھے۔قدسیہ کہتی ہیں کہ مجھے وہ میڈل دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہوتا تھا۔لیکن کبھی میں کھلاڑی بنوں گی ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔وہ مزید کہتی ہیں کہ میں نے جس اسکول میں تعلیم حاصل کی وہاں اُس وقت کھیلوں کا کوئی نظم نہیں تھا۔چونکہ قدسیہ نذیر کی عمر35سال ہے ۔اِس لیے وہ ویٹ لفٹنگ کے ماسٹرز مقابلوں میں حصّہ لیتی ہیں۔ویٹ لفٹنگ مشکل ترین کھیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ اِس جانب متوجہ ہوئیں تو انہیں گھر سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

قدسیہ نذیر کی پہلی شادی صرف بائیس سال کی عمر میں ہو گئی تھی سات سال تک چلنے والے اِس رشتے نے انہیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا تھا۔بچپن میں ملنے والی زخم مندمل بھی نہیں ہو پائے تھے کہ شادی شدہ زندگی نے بھی انہیں آزمائشوں اور پریشانی میں ڈال دیا۔ان کا کہنا ہے کہ بنگلور ٹرانسفر کے بعدکسی کا تعاون نہ ملنے کے باوجود بھی میں نے ہمت نہیں ہاری اور لگاتار محنت کرتی رہی۔کسی بھی کھیل میں دو چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں ایک تو پیسہ دوسرے سماج کا دباؤ۔قدسیہ نذیر کہتی ہیں کہ میں نے لوگوں کی باتوں کی کبھی پرواہ نہیں کی اور میری محنت دیکھ کر اچھے لوگوں کا تعاون ملا ۔مثال کے طور پر میرے کوچ امان اﷲ خان 2018 سے مجھے ٹریننگ دے رہے ہیں اور انہوں نے ایک روپیہ بھی چارج نہیں کیا ہے۔ان کی ہی دی گئی ٹریننگ کا نتیجہ ہے کہ میں ضلع،اسٹیٹ،قومی اور پھر بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب رہی۔کیونکہ یہ ایک کھلاڑی ہی جانتا ہے کہ اُس کے کھیل کو نکھارنے میں کوچ کا اہم رول ہوتا ہے۔ قدسیہ نذیر نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ایک سال دو ماہ قبل امان اﷲخان سے ان کا نکاح ہو گیا ہے۔

تندئی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

awazurdu

awazurduقدسیہ نذیر کی خوبصورت یادیں


سال2013میں پیدا ہونے والا ان کا بیٹا اپنے والد کے پاس ہی رہتا ہے۔انہیں اپنے بیٹے سے دوری کا شدید دکھ ہے۔بچپن کی پریشانیوں،شادی اور بیٹے کی دوری نے انہیں ایک مضبوط خاتون بنا دیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ عورت کمزور نہیں ہوتی۔بس اسے اپنی طاقت کو پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔سماج اور معاشرے نے عورت کے گرد دائرے بنا رکھے ہیں۔جنہیں توڑنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ویٹ لفٹنگ کی دنیا میں 2018 میں قدم رکھنے والی قدسیہ نذیر نے کوریا میں ہوئی مقابلے میں تین طلائی تمغے حاصل کئے ۔پھر میڈیٹیرین انٹر نیشنل اوپن اتھینز میں سلور میڈل پر قبضہ جمایا۔ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں قدسیہ نذیر ہر بار پوری محنت اور تیاری کے ساتھ اترتی ہیں۔متعدد میڈل جیتنے والی قدسیہ کا سفر ابھی جاری ہے ۔نومبر ماہ میں وہ جرمنی میں ہونے والی ورلڈ چیمپین شپ میں حصّہ لینے سے قبل آسٹریلیا میں جون میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں حصّہ لیں گی جس کے لیے وہ لگاتار تیاری میں مصروف ہیں۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد اعزازات حاصل کرنے اور ریکارڈ بنانے والی قدسیہ نذیر آئی اے ایس بننا چاہتی تھیں لیکن اب وہ کھیل کے میدان کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا

                وہ مانتی ہیں کہ قسمت ہمیں وہاں کھینچ کر لاتی ہے جس کام کے لیے ہمیں منتخب کیا گیا ہوتا ہے۔تہجد کی ادائیگی کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرنے والی قدسیہ نذیر کی زندگی نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔یہ حقیقت بھی ہے کہ زندگی نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔سیدھی لکیر تو موت کی خبر دیتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں۔کبھی کبھی ہمارے ارد گرد تاریکیاں ،پریشانیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب کبھی صبح ہی نہیں ہوگی لیکن گہرے اندھیرے کے بعد ہی سورج طلوع ہوتا ہے۔قدسیہ نذیر نے اپنے دکھ ،تکلیف اور ڈپریشن کو باہر لانے کا ذریعہ ویٹ لفٹنگ کو بنا کر نہ صرف خود کو بلکہ اپنے شہر ،اسٹیٹ اور ملک کا نام روشن کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ہمت ہو تو حالات انسان کو کمزور نہیں مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو تے ہیں۔کیونکہ

وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو

حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں