کہانی امریکہ کی واحد صوفی درگاہ کی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-12-2023
کہانی امریکہ کی واحد صوفی درگاہ کی
کہانی امریکہ کی واحد صوفی درگاہ کی

 

منصور الدین فریدی ۔آواز دی وائس

 عام طور پر جب صوفیا اکرام  کی بات ہوتی ہے تو اس کا دائرہ  برصغیر کے ساتھ  مشرق وسطی اور مرکزی ایشا تک محدود رہ جاتا ہے۔ کیونکہ اس خطہ میں صوفیوں کی ایک ضخیم تاریخ ہے۔بات عبدالقادر جیلانی سے شروع ہوتی ہے تو اولیا ہند حضرت نظام الدین تک جاری رہتی ہے ۔۔۔ لیکن یہ ہے امریکہ کے پہلے صوفی بزرگ کی کہانی ۔ جی ہاں ! جب امریکہ کی بات آتی ہے تو طاقت کا خیال ذہن میں آتا ہے،وہ بھی سیاسی یا سفارتی اور فوجی طاقت کا۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ صوفی روشنی امریکہ کی سرزمین پر پھیل چکی ہے،امریکہ میں بھی ہوا ہے صوفی تعلیمات کاچراغ ۔جس کی روشنی امریکہ سے یورپ تک پھیل رہی ہے ۔ جی ہاں!  یہ کام جس صوفی بزرگ نے انجام دیا ہے انہیں امریکہ میں محمد رحیم باوا محی الدین قادریؒ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جنہیں امریکہ کا واحد صوفی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔

باوا محی الدین قادری سری لنکا سے امریکہ گئے تھے اور اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کے اصرار پر اسی سرزمین پر بس گئے تھے۔ جبکہ 1986میں ان کا انتقال ہوا۔اس دوران ان کے عقیدت مندوں کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا تھا جس میں صرف مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم بھی تھے ،جو باوا محی الدین کی روحانی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے تھے۔امریکی ریاست فلاڈیلفیا کے پلسلوانیا کی چیسٹر کاونٹی میں میں ان کی درگاہ  ہے۔ ایک خوبصورت سفید مزار ۔ امریکہ کی سرزمین پر واحد درگاہ ۔ جس کی عمارت سروسبز میدان میں دور سے نظر آجاتی ہے ۔ بس فرق یہ ہے کہ برصغیر کی طرح اس درگاہ پر روایتی پرچم یا پھول نظر نہیں آتے ہیں ۔ اگرچہ امریکہ میں صوفی ازم اس طرح نہیں جیسے برصغیر میں ہے لیکن عرس کے موقع پر چاہنے والے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے چلے آتے ہیں۔

awazurdu

awazurdu

باوا محی الدین  اور ان کے عقیدت مند 


لنکا سے شروع ہوا صوفی سفر

  صوفی بزرگ باوا محی الدین قادریؒ کا آبائی تعلق سری لنکا کے تمل علاقے سے تھا، آپ سلسلہ قادریہ کے شیخ حضرت عبدالقادر جیلانی سے خصوصی نسبت کے حامل تھے۔ باوا محی الدین کے بارے میں سری لنکا میں کہا جاتا ہے کہ  وہ جافنا میں  ایک مزار 'کتاراگاما' میں رہتے تھے۔ یہ پہاڑوں میں واقع تھا۔باوا محی الدین ایک غار کے دہانے پر عبادت میں مصروف رہتے تھے۔جسے عبدلقادر جیلانی رحمتہ کے نام سے منسوب کیا گیا تھا ۔ بدھسٹ حکومت نے اس مقام کو روحانی مرکز تسلیم کیا ہے۔ اگرچہ ان کی ابتدائی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں،کہتے ہیں کہ  باوا محی الدین کی عوامی زندگی کا آغاز سری لنکا میں 1940 کے بعد ہوا ۔جب وہ شمالی سری لنکا کے جنگلوں میں زندگی گزارنے کے بعد اس مزار پرآئے تھے۔ بہت جلد ان کی کرامات نے شہرت دلا دی۔ان کے روحانی پیغامات بہت مقبول ہوئے۔سری لنکا میں ان کے صوفی انداز اور مزاج کے سبب مرید انہیں سوامی یا گرو کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے ۔ جب وہ جافنا منتقل ہوگئے تو مریدوں نے ان کے لیے ایک آشرم بنایا تھا۔ جہاں ان کے مریدوں کا اجتماع رہتا تھا۔ 

جافنا میں آشرم بنا تو باوا محی الدین نے کہا کہ ۔۔۔ میں ایک غریب ملک ’سیلون‘میں چار سے پانچ سو بیمار لوگوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ بہت سے غریب لوگ دور دور سے میرے پاس آتے ہیں۔ میں ان کی بیماریوں کا علاج کرتا ہوں، ان کے دماغوں کا علاج کرتا ہوں، ان کے اثرات کا علاج کرتا ہوں ،انہیں کھلاتا ہوں اور کپڑے دیتا ہوں، یہاں تک کہ میں انہیں ٹکٹ کے پیسے بھی دیتا ہوں کہ وہ مجھ سے ملیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے پاس ایک آشرم  ہے، غریبوں کی مدد کرنے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے کافی ہے۔ میں ہر صبح چار بجے اٹھ کر کھیت پر جاتا تھا۔ اگرچہ کبھی کبھی میں وہاں چالیس یا پچاس دن تک رہتا تھا، لیکن عام طور پر میں رات کو آشرم واپس آتا تھا اور مجھے آرام نہیں ہوتا تھا، وہاں حاضری کے لیے لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ میں نے ان لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے پیسے کمانے کے لیے کھیتی باڑی کی۔

اس وقت تک باوا محی الدین سری لنکا میں شہرت پا چکے تھے۔بلا امتیاز لوگ آیا کرتے تھے اور روحانی علاج سے شفا یاب ہوکر واپس جایا کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بات جافنا سے آگے نکل چکی تھی ،اس لیے باوا محی الدین کے ایسے عقیدت مند سامنے آنے لگے جو انہیں کولمبو میں مقیم ہونے کی دعوت دینے لگے ۔جہاں ان کے مریدوں کا پہنچنا زیادہ آسان تھا کیونکہ سری لنکا میں تمل علاقوں میں سفر مشکل ہوا کرتا تھا۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر اجواد میکن مارکر اور ان کی اہلیہ امین میکن مارکر بھی شامل تھے جو کولمبو شہر میں رہتے تھے۔ باوا محی الدین نے ان سے کہا کہ یہ آسان نہیں ہے۔ وہ ایک درخت کی طرح ہیں جس پر بہت سے پرندے پناہ لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر اجواد اور ان کی اہلیہ نے ان تمام لوگوں کے لیے اپنا گھر کھولنے پر رضامندی ظاہر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جو ان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ 1967 تک کولمبو کے ان کے مریدوں  نے' صوفی اسٹڈی سرکل' تشکیل دیا ۔ وہ کولمبو میں بھی رہے اور اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ باوا محی الدین کی صوفیانہ تعلیمات  کے سبب ان کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ انہوں نے تمام روایات اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کو خوش آمدید کہا۔awazurdu

سری لنکا کے جافنا میں وہ مقام جہاں باوا محی الدین ایک چٹان پر زندگی گزارا کرتے تھے


awazurdu

صوفی بزرگ باوا محی الدین 


 امریکہ کی دعوت

اب باوا محی الدین کا کولمبو کا دور شروع ہوا ،وہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور راجدھانی میں بھی عقیدت مندوں سے گھرے رہے،مگران کی زندگی میں سات سمندر پار جانا لکھا تھا۔ ان کی باتوں کا اثر دور دور ہورہا تھا۔ اس دوران امریکہ میں بھی باوا محی الدین کی آواز پہنچی ۔1970میں امریکی اسکالرز کے ایک وفد نے کولمبومیں ان سے ملاقات کی۔جس میں انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ۔ چنانچہ وہ اکتوبر 1971میں امریکہ گئے۔آپ صوفیانہ فکر وعمل کے امین اور اخلاص اور محبت کی علامت تھے۔یہی وجہ ہے کہ باوا محی الدین کی تعلیمات اور تبلیغ نے انہیں بہت جلد امریکہ میں ایک بڑے طبقے میں مقبول کردیا تھا ۔۔۔۔۔ تامل زبان پر عبور رکھنے والے صوفی بزرگ نے کئی ایسی کتابیں لکھیں ۔جن کے انگریزی ترجمے سب کو حیرت میں ڈال دیتے ہیںِ۔ 1973 تک ان کے مریدوں  کے ایک گروپ نے باوا محی الدین فیلوشپ قائم کی۔سری لنکا کی طرح تمام مذہبی، سماجی اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کے مرید بن گئے۔

 باوا محی الدین نے امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد کہا تھا کہ ۔۔۔ میرےفلاڈیلفیا پہنچنے سے قبل  باب ڈیمبی، کیرولین سیکریٹری، زوہارا سیمنزکے ساتھ کچھ لوگوں نے میرے قیام کا انتظام کردیا ۔انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک سوسائٹی بنائی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں فیلوشپ قائم کرنے کے خیال سے فلاڈیلفیا نہیں آیا تھا۔ صرف ایک رفاقت ہے اور وہ اللہ کی ہے۔صرف ایک خاندان اور ایک فیلوشپ ہے۔ ہم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور اللہ اس رفاقت کا ذمہ دار ہے۔

  اب باوا محی الدین اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے لگائے ہوئے پودے تناور درخت بن رہے ہیں،ان کے نظریات کی تبلیغ بھی جاری ہے ۔اب ان کی تعلیمات کا دائرہ امریکہ تک نہیں ۔باوا محی الدین فیلوشپ کی شاخیں پورے امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ سری لنکا، آسٹریلیا اور برطانیہ میں بھی موجود ہیں۔ بوسٹن، میساچوسٹس،شمالی کیلیفورنیا،جنوبی کیلیفورنیا،کولوراڈو،اسٹیم فورڈ، کنیکٹیکٹ آئیووا،یونین ویل، پنسلوانیا،وسکونسن،آسٹریلیا،ٹورنٹو، کینیڈا،لندن، انگلینڈاورسری لنکا میں اس ادارے کی شاخیں ہیں ۔

awazurdu

امریکہ میں باوا محی الدین کی درگاہ پر حاضری دیتے ہوئے اجمیرشریف کے گدی نشین سید سلمان چشتی 


awazurdu

ہندوستان سے زیارت کے لیے گئے حاجی سلمان چشتی صوفی بزرگ باوا محی الدین کی درگاہ پر چادر کے ساتھ


awazurdu

باوا محی الدین کی درگاہ پر ہر مذہب کے ماننے والے عقیدت کے پھول اور چادر پیش کرتے ہیں 


کیا ہیں باوا محی الدین کی تعلیمات 

  باوا محی الدین کا کہنا ہے کہ ۔۔۔ حقیقی اسلام اسی وقت قائم ہوگا جب ہر ایک کے دل میں اسلام کی حقیقی کیفیت واضح طور پر موجود ہو ۔  قتل غارت گری یا دہشت گردی اسلام نہیں ہے۔ اسلام جنگ، تلوار، نفرت یا تفرقہ بازی نہیں ہے۔ اللہ کی کوئی تفرقہ نہیں ہے اور نہ کوئی دشمنی، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ شک اور تعصب نے تفرقہ پیدا کر دیا ہے۔ شکوک، حسد، تعصب اور دشمنی نے خون کی یہ بہتی ندیاں نکالی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ اسلام کسی سے نہیں لڑتا۔ لڑائی اپنے اندر مکمل طور پر نفرت کے خلاف لڑنا ہے۔ ہتھیاروں میں سے ایک جو اس لڑائی سے نکلنا چاہیے وہ ہمدردی اور محبت ہے۔ ہمیں صبر و تحمل کا استعمال کرنا چاہیے۔ خدا کی صفات و افعال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات و افعال، کلمہ کی توحید اوراس کی مٹھاس کا استعمال کرنا چاہیے۔ وہ اسلام ہے۔تکبر تباہی کا ذریعہ ہے۔ تکبر خود کو تباہ کرتا ہے اور دوسروں کو تباہ کرتا ہے۔

اس مشکل وقت میں باوا محی الدین  کے الفاظ اسلام کی روح کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ انسان اور خدا کے درمیان تعلق کی پاکیزگی ہے ۔جیسا کہ خدا کے آخری بنی کے ساتھ تمام انبیاء، حضرت آدم،حضرت نوح، حضرت ابراہیم،حضرت  اسماعیل، حضرت موسیٰ اور  حضرت داؤد وغیرہ نے بیان کیا ہے۔

امریکہ کے واحد صوفی بزرگ باوا محی الدین


awazurdu

باوا محی الدین  امریکہ میں اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ


awazurdu

امریکہ کی واحد صوفی درگاہ کا بیرونی منظر


 ایک خوبصورت درگاہ

امریکہ کی یہ واحد درگاہ خوبصورت اور جدید طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے۔جس میں مسجد، مختصر لائبریری، کچن اور اس کے ساتھ لنگر خانہ ۔جس کو اس کی ساخت اور حُسنِ ترتیب کے اعتبار سے خوبصورت’’ ڈائننگ ہال‘‘ سے تعبیر کیا جانا زیادہ موزوں ہوگا  ۔ اعلیٰ قسم کے پیٹیز، کیک اور شیرینی وغیرہ سے لے کربہترین کافی، قہوہ اور چائے اور مشروبات وغیرہ دستیاب ہوتے ہیں۔ لنگر خانے میں کوئی باورچی اور نگران نہیں ہوتا۔خالص امریکی اسٹائل میں ۔سیلف سروس کے اصول کے مطابق زائرین از خود تیارشدہ کھانے کی اشیاء لاتے ہیں ۔ محبت وعقیدت سے وہاں پیش کرتے اور اپنی مرضی اور طبیعت کے مطابق کچن سے استفادہ کرتے ہیں ۔ حاضری دیتے ہیں ۔ رخصت ہو جاتے ہیں۔

باوا محی الدین نے  اپنے پیروکاروں پرسبزی خوری  کا زور دیا تھا۔انہوں نے دی ٹیسٹی اکنامیکل کوک بک کی تصنیف کی، جو کہ دو جلدوں پر مشتمل  ہے اور سبزی خوری کے فوائد بیان کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔امریکہ میں 1971 سے 1986 تک باوا نے 25 سے زائد کتابیں لکھیں ، جو 10,000 گھنٹے سے زیادہ کے آڈیو اور ویڈیو کی تحریری شکل ہیں ۔

 اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے پہلے صوفی بزرگ  کی درگاہ سماجی اور علمی خدمات اور سرگرمیوں کے سبب  توجہ کا مرکزہے ۔ مزار کے اردگرد100ایکڑزمین  علمی و سماجی  منصوبوں کے لیے ہے۔ جس میں گیسٹ ہاؤس اور سرائے وغیرہ بطورِ خاص شامل ہیں۔ مسجد میں پنجگانہ نماز کے علاوہ ۔۔ اتوار کی صبح ہفتہ وار درسِ قرآن اور محفل ذکر کا اہتمام ہوتا ہے۔ گیارہویں کے علاوہ مارچ کے موسم بہار میں بھی بابا جی کے مریدوں  کا اجتماع ہوتا ہے ۔۔ جس میں امریکہ کے علاوہ کینیڈا اور دیگر یورپی  ممالک سے بھی عقیدت مند روحانی تسکین کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔ اس مقام پر مستقبل قریب میں ایک بہت بڑے اسلامک سنیٹر اور اسلامک ا سکول کے قیام سمیت دیگر علمی ، دینی اور تعلیمی منصوبہ شامل ہیں۔

اس کہانی کا اختتام باوا محی الدین  کے ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ ۔۔۔

  دعا کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ عبادت کے بہت سے طریقے ہیں اور دعا و عبادت کے بہت سے مراحل ہیں۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری عبادت گھر کو روشن کرنے کی طرح ہے۔ جس طرح ہم گھر میں روشنی کرتے ہیں، جس طرح ہم گھر کو سجاتے ہیں اور جس طرح ہم اسے صاف اور خوبصورت بناتے ہیں، ہمیں یہ کام اپنے گھراور اپنی روح کے لیے کرنا چاہیے۔

دیکھئے ۔ آواز دی وائس پر امریکہ کی واحد صوفی درگاہ پر خاص پروگرام