سڑک پر نماز --- کیا کریں مسلمان؟ جانیے کیا فرماتے ہیں علمائے دین

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-04-2024
سڑک پر نماز --- کیا کریں مسلمان؟ جانیے کیا فرماتے ہیں علمائے دین
سڑک پر نماز --- کیا کریں مسلمان؟ جانیے کیا فرماتے ہیں علمائے دین

 

منصور الدین فریدی/ نئی دہلی

نماز آسانی کا نام ہے، کسی مشکل کا نہیں، یہ رحمت کا سبب بنتی ہے نہ کہ عذاب کا- ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر کسی کو  سڑک پر نماز سے تکلیف ہو رہی ہے تو ہمیں اس سے گریز کرنا چاہیے، اس کے لیے ہمیں کوئی ایسا طریقہ تلاش کرنا ہوگا جس سے ہماری عبادت بھی ہو جائے اور کسی کو تکلیف بھی نہ ہو- جس کے لیے ہم مساجد میں ایک سے زیادہ جماعتوں کا اہتمام کر سکتے ہیں اسی طرح اور بھی کئی ایسے اقدام ہیں جن سے تکرار اور ٹکراؤ کے حالات کو ٹالا جا سکتا ہے

ملک کے ممتاز علماء نے اواز وائس سے بات کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی اس مسئلے پر اپنی اپنی رائے انتہائی بے باکی کے ساتھ پیش کی جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جہاں مذہبی معاملات پر اب مفتی حضرات کو اگے بڑھ کر مسلمانوں  نئے فتووں سے نئی راہ دکھانی چاہیے بلکہ ملک کی بڑی مسلم تنظیموں کو بھی اس سلسلے میں واضح گائیڈ لائن جاری کرنی چاہیے تاکہ مسلمانوں کو اس سلسلے میں معقول رہبری مل سکے

ہم جانتے ہیں کہ سڑک پر نماز ایک نئے تنازع کا نام ہے، جو تنگ مساجد اور نمازیوں کی بڑھتی تعداد  کے ساتھ  کہیں نہ کہیں ملک میں مذہبی عدم برداشت کا نتیجہ بھی ہے- ائے دن نماز کے تعلق سے اس قسم کی خبریں سامنے اتی ہیں کہ سڑک پر نماز کی ادائیگی پر کسی تنازع نے لا اینڈ ارڈر کا مسئلہ پیدا کر دیا ، جس کے سبب جہاں سیاست گرم ہو جاتی ہے ، وہیں مذہبی جذبات کو بھی ہوا دی جانے لگتی ہے، 

جماعت اسلامی ہند کے ایک سنیر رکن ڈاکٹر رضی الاسلام کہتے ہیں کہ دیکھئے مساجد تنگ ہیں اور نمازی زیادہ ہیں ،اس لیے شرعی طور پر اس کی گنجائش ہے۔ لیکن یہ عام حالات میں ممکن ہے۔ جب سب کچھ ٹھیک ہو۔کسی کو اعتراض نہ ہو ۔ لیکن اگر کسی بستی یا شہر میں اکثریت  کو اس پر اعتراض ہو یا حکومت اور قانون کی جانب سے کوئی پابندی ہو ۔ اس صورت میں اس کی پانبدی کی جانا چاہیے ۔اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ کی عبادت سے کسی قسم کی نفرت پیدا ہورہی ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ بات نماز جمعہ یا نماز عید کی ہے ،نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس صورت میں حکم یہ ہے کہ ایک مسجد میں ایک وقت میں ایک ہی جماعت ہوسکتی ہے  یہ حنفی فتوی ہے ۔ لیکن ان حالات میں ہمیں اس فتوی کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ ایک مسجد میں ایک نماز کے لیے کئی جماعتیں ہوسکتی ہیں۔۔ دراصل اس سلسلے میں اگر ایک فتوی آجائے تو بہتر ہوگا ۔ مسلمانوں کو ایک مشترکہ پیغام مل جائے گا کہ موجودہ حالات میں کیا موزوں ہے اور کیا نہیں ۔ جب لوگوں کو اس بات کی وضاحت مل جائے گی کہ ایک مسجد میں کئی جماعتیں ممکن ہیں تو خود بخود ایک نظام بن جائے گا ،پھر لوگ ایک وقت پر آنے کے بجائے  اپنی سہولت سے جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں ۔

 ڈاکٹر رضی الاسلام  ندوی کہتے ہیں حالات کے مطابق فتوی بدلے جا سکتے ہیں کیونکہ جب عبادت  کے نام پر کسی کو کوئی اعتراض ہو یا قانونی رکاوٹ ہو تو پھر متبادل راستہ تلاش کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

 درگاہ اجمیر شریف کے گدی نشین اور چشتی فاونڈیشن کے سربراہ سید سلمان چشتی  نے کہا کہ درمیانی راستہ سب سے بہتر ہوتا ہے ،یہی راستہ شر سے محفوظ رکھتا ہے ۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ نماز آسانی کا نام ہے پریشانی کا نہیں ۔ہماری عبادت سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز کا وقت مقرر ہوتا ہے اس لیے ائمہ کی ذمہ داری ہے کہ نمازیوں کے لیے معقول انتظام کریں ۔مسجد میں ایک سے زیادہ جماعت کا اہتمام کیا جانا بہت ضروری ہے ۔اس سے سڑک پر نماز کی مجبوری کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ  درگاہ شریف میں چار مساجد ہیں  جن میں جمعہ کو پندرہ منٹ کے فرق سے جماعتیں ہوتی ہیں ۔عبادت اللہ کے قریب ہونے کا راستہ ہے اس سے کسی کو تکلیف نہیں ہونا چاہیے

سید سلمان چشتی نے کہا کہ  اگر نماز کے لیے جگہ کی کمی ہے ابور برادران وطن کی جانب سے کسی زمین یا پلاٹ کو استعمال کرنے کی پیشکش کی جائے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عبادت یا نماز ایک سہولت ہے عذاب نہیں ۔یہ دین کی طاقت ہےاور دعوت بھی۔ مذہب کی اس خوبصورتی کو برقرار رکھنا ہمارا فرض ہے۔ کیونکہ نماز دل کا سکون ہے

 ممبئی میں ممتاز عالم دین مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ اگر ہم سڑکوں پر نماز نہ پڑھیں تو یہ پیغمبر اسلام کے پیغام کی پاسداری ہوگی ۔ اگر کسی مقام پر نماز کی ادائیگی سے مسئلہ پیدا ہورہا ہے تو اسے نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ  کسی سڑک پر جتنا ہمارا حق ہے اتنا ہی دوسرے راہگیروں کا۔ ہمارا مذہب دوسروں کے حقوق کو مارنے کے خلاف ہے ۔

 مولانا ظہیر عباس رضوی نے مزید کہا کہ بہرحال برادران وطن کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر کسی مجبوری کے تحت کوئی سڑک پر نماز ادا کرے تو اس کو کوئی نشانہ نہ بنائے ۔ہم سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ ماضی میں اس پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ ٹلک کی ٹلی جلی تہذیب کے سبب اکثریت کے بھی کئی تہوار سڑکوں پر منائے جاتےرہے ہیں ۔ کبھی کسی کو ایک دوسرے کے تہوار اور عبادت سے پریشانی نہیں ہوئی تھی۔

 انہوں نے کہا کہ عبادت کا مطلب سر جھکانا ہے ،اللہ کے احکامات  پر عمل درآمد  کرنا ہے ۔ اگر ہماری عبادت سے کسی کو تکلیف ہورہی ہے تو  تو عبادت تکلیف دینے  کا نام نہیں ہوسکتا ہے۔نماز اللہ سے مخاطب ہونے کا عمل ہے ،ایک طریقہ ہے ،ایک سلیقہ ہے ۔ اس کی نزاکت اور نفاست کو برقرار رکھنا ہمارا فرص ہے

کولکتہ کے امام عیدین قاری الطاف الرحمان نے کہا کہ  ہندوستان ایک گلد ستے کی مانند ہے جس میں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں ۔ اس ملک میں ہر مذہب کے تہواروں کا اثر سڑک پر نظر آتا تھا۔ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ہونا چاہیے ۔ بات برابری کی ہو تو بہتر ہے۔ لیکن اب حالات اگر بدل گئے ہیں اور کسی کو سڑک پر مجبوری کی حالت میں نماز پسند نہیں آرہی ہے تو ہمیں اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔سڑک پر اگر نماز سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے تو اس سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے ۔ یہی حکمت کہلاتی ہے

انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو لوگ عام طور پر الجھن کا شکار رہتے ہیں کیونکہ انہیں راہ دکھانے والا کوئی نہیں ہوتا ہے ۔ سڑک پر نماز کے معاملہ میں بھی یہی صورتحال ہے ،اس صورتحال میں ملک کی بڑی مسلم تنظیموں بشمول جمعیتہ علما ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ کو آگے آنا چاہیے ۔کوئی ایسی گائڈ لائن جاری کرنا چاہیے جو ہر کسی کو راہ دکھائے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ ہم سڑکوں پر نماز پڑھیں ۔