کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 26-10-2023
 کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے

 



سید تالف حیدر 

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّىَ ٱلْفَوَٰحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَٱلْإِثْمَ وَٱلْبَغْىَ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا۟ بِٱللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِۦ سُلْطَـٰنًۭا وَأَن تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ(33/7)

کہہ دو  کہ صرف حرام  کیے  ہیں میرے رب نے  بے حیائی  کے کام  خواہ  ظاہر ہوں  ان میں  سے یا پوشیدہ  اور گناہ   کو اور سر کشی  ناحق  طور پر  اور یہ کہ تم  شریک  بناو اللہ  کے ساتھ  اسکو  نہیں  نازل کی اس نے جس کی کوئی سند اور یہ کہ اللہ کے بارے میں ایسی بات جو نہیں تم جانتے۔(33/7)

قرآن نے واضح طور پہ یہ پانچ چیزیں حرام کر دی ہیں جو بقول جاوید احمد غامد بہت صریح  اشارہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ۔ اور اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اللہ کے حرام نہ کیے ہوئے کو حرام قرار دے تو اصل میں یہ عمل خود حرام ٹھہرتا ہے۔ موسیقی جس کا تذکرہ ان پانچ میں شامل نہیں ، لہذا اسے بجنسہ حرام قرار دینا ایک ایسا ہی فعل حرام ہے جیسا کہ بد کاری اور شرک کرنا۔

اس امر میں ہمیں اللہ کی کے اس واضح پیغام کے ساتھ ان باتوں پہ غور کرنا چاہیے کہ جو شئے قرآن کے اصول بنانے والوں کے نزید ک حرام کے درجے میں داخل ہوئی اس کی وجہ کیا ہے۔ کیا فقہا اور علمائے کرام اس امر سے ناواقف ہیں کہ اسلام  میں موسیقی کو ان پانچ حرام  اعمال میں شمار نہیں کیا گیا ہے؟ غالباً یہ کوئی تنگ نظری نہیں بلکہ  اس میں ایک نوع کا دھوکا ہوا ہے۔ یا اسے  کج فہمی بھی کہا جا سکتا ہے۔وہ ا س طرح کہ ایسے  اشعار یا الفاظ جو موسیقی کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں ان میں ایک نوع کا سرور شامل ہوتا ہے۔ جس سرور میں بعض اوقات شرک اور سرکشی ناحق شامل ہو جاتی ہے یا بدکاری اس کا جزو بن جاتی ہے۔ مثلاً اگر آپ غالب کے ایک شعر کی مثال لیں  کہ

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اس میں کوئی قباحت نہیں کہ اگر اسلامی نقطہ نظر سے کچھ نہ ہوتا تو بھی خدا کا وجو  بہر طور تھا ، ہے اور رہے گا۔ لیکن فلسفیانہ شق جو دوسرے مصرعے میں ہے اس میں مشیعت  ایزدی سے تصادم نظر آتا ہے ، کہ شاعر یہ اعتراض کر رہا ہے کہ اس کے ہونے نے اسے ڈبو دیا۔ بادی النظر ی میں یہ امر موسیقی نہیں لگتا ، مگر جب شعر میں موسیقت کے عمل دخل کا مظاہرہ کرو تو احساس ہوتا ہے کہ سرور موسیقی  جو کلام میں ایک نوع کی شتابی  پیدا کرتا ہے۔ اس  رو میں کلام میں ان پانچ میں سے کسی ایک جز کے شامل ہونے کا خدشہ رہتا ہے، لہذا فقہا اس عمل  پہ معترض ہوتے ہیں۔ حالاں کہ ایسی بھی بےشمار مثالیں ہیں جن میں موسیقی کا سرور ایک نوع کے وحدانی قرب کا باعث بنتی ہے۔ مثلا ً یہ شعر دیکھیے:
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی  جوآرہا ہے وہ ہی خدا ہے
اس شعر   کی موسیقیت خدا کے وجود  کا مزید قائل کرتی ہے، لہذا اسے اسلامی اصول کے باعث ان پانچ اعمال میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ 
اس سے واضح ہوتا ہے کہ  موسیقی کو کلی طور پہ لہو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیوں کہ  ایک طرف وہ ان اعمال کی جانب  جن پہ قرآن میں زور دیا  مائل کرتی ہے، مثلاً قرآن کی اس آیت کو دیکھیے
وَٱلَّذِينَ يَصِلُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوٓءَ ٱلْحِسَابِ(21/13)
 اور جو لوگ ان سب کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور اپنے رب کی خشیّت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیں۔(21/13)
اس آیت میں جن حقوق اللہ کا تذکرہ کیا  ہے موسیقی ان کی جانب مائل کر رہی ہے۔ وحدانیت کا قائل کرنے والا ایسا کلام اگر غنائی صورت میں ہو اور موسیقی کے ساتھ ہو  تو اسے کیسے  حرام قرار دیا جا سکتا ہے۔ آلات لعاب پہ بھی یہ ہی صادق آتا ہے۔ مثلاً ایک چھری کا کام کسی چیز کو کاٹنا ہے، لیکن اگر اس سے کسی کا ہاتھ کاٹا جائے تو  وہ عمل حرام ہوگا۔ لیکن کسی آلہ لعاب سے ایسی ترنگ پیدا کی جائے جو   لہو کی طرف نہ دھکیلے ، بلکہ مولانا روم کی طرح ایسے قضیوں میں الجھے جس سے مثنوی   جیسا کلام وجود میں آئے 
نے حریف  ہر کہ از یارے  برید
پردہایش  پردہائے مادرید
ترجمہ:نانسری اس کی ساتھی ہے  جو یار سے کٹا  ہو، اس کے راگوں  نے ہمارے  دل  کے پردے پھاڑ دئے۔
تو اس کلام کو کیسے حرام  قرار دیا جا سکتا ہے۔