شیخ محمد یونس : حیدرآباد
حیدرآباد ،نوابوں کے شہر کی ایک شان ہے مرفہ موسیقی ۔ شہر کی تاریخ کی طرح قدیم مرفہ موسیقی دراصل اہل حیدرآباد کی زندگی کا حصہ ہے ،ہر خاص موقع کی پہچان ہے مرفہ موسیقی یا مرفہ بینڈ۔ جو ایک انمول فن ہے ،جس کے قدر داں تو ہیں لیکن فنکاروں کے لیے قدر کے ساتھ پیسہ بھی اہم ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام محفلوں کی شانمرفہ موسیقی کا مستقبل سوالیہ نشان کا شکار ہے۔موتیوں اور نوابوں کا شہر حیدرآباد فنون لطیفہ اور موسیقی کے اعتبار سے بھی اپنی ایک خاص شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔ یہ تاریخی اہمیت کا حامل فرخندہ بنیاد شہر خوبصورت عمارتوں جیسے چار مینار،گولکنڈہ قلعہ ،لذیذ اور ذائقہ دار پکوان بریانی ،حلیم کے ساتھ ساتھ موسیقی کے اعتبار سے مرفہ بینڈکے لئے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے۔
حیدرآبادی مرفہ بینڈ بہت زیادہ مقبول ہے۔ شادی بیاہ ہو یا مذہبی جلوس، دوست کے ولیمے کا ہار ہو یا کوئی بھی خوشی کا موقع ۔مرفہ کی دھنوں پر نوجوان خود بخود جھومنے لگتے ہیں۔ حیدرآباد میں مرفہ بینڈ کے بغیر تقاریب ادھوری نظر آتی ہیں ۔فنکار ڈھول کو اس وقت تک پیٹتے ہیں جب تک کہ لوگ رقص نہ بند کر دیں۔ مرفہ بینڈ کو ایک اور بات مخصوص بناتی ہے ۔ تہذیب ثقافت اور مذہب سے قطع نظرمرفہ بینڈ ہر ایک کو اپنی جانب راغب کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم شادی بیا ہ ہو یا گنیش اور درگا جلوس۔ آپ کو نوجوان لڑکے لڑکیاں مرفے کی دھنوں پر رقص کرتے نظر آتے ہیں۔
حیدرآبادی تہذیب کا حصہ
مرفہ موسیقی کے تعلق سے متضاد آرا پائی جاتی ہیں ۔کوئی کہتے ہیں کہ یہ یمنی آرٹ کی شکل ہے جو نظام دور حکومت میں شہر میں مقبولیت حاصل کی تاہم اس بات پر بھی تنازعہ پایا جاتا ہے کہ حیدرآباد میں اس آرٹ فارم کو کس نے متعارف کروایا ۔کچھ افراد کا ماننا ہے کہ مرفہ موسیقی کو حبشی (افریقی نسلی گروہ )نے پیش کیا ہے. شہر حیدرآباد کے بیشتر فنکاروں کا ادعا ہے کہ یہ ان کے یمنی آباواجدادہی تھے جنہوں نے یہاں اس موسیقی کو مقبول بنایا۔ بہرحال مرفہ موسیقی اب حیدرآبادی تہذیب اور ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ عرب قبیلوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں بھی بے انتہا مقبول ہے ۔مرفہ موسیقی میں عربی الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ اسے بیشتر یمنی لوگ بجاتے ہیں اور یہ یمنی موسیقی کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔
مرفہ موسیقی کے فنکار آسانی سے پہنچانے جاتے ہیں ۔وہ سفید شرٹس، چکریدار لال لنگیوں میں ملبوس ہوتے ہیں اور سر پر مخصوص قسم کا رومال باندھتے ہیں۔ مرفہ موسیقی کے لئے متعدد آلات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر مرفہ جو ڈھولک یا دف کی طرز پر ہوتا ہے ۔یہ عموماً بکرے کی کھال سے بنایا جاتا ہے ۔فنکار مرفے کو متواتر لکڑیوں سے ایک تال میں پیٹتے ہیں اور ایسی دھن پیدا ہوتی ہے کہ سب جھومنے لگتے ہیں ۔متواتر پیٹنے کے باعث مرفے کی کھال نرم ہوتی ہے تب انہیں آگ میں تپایا جاتا ہے۔ مرفہ، اسٹیل کی ٹھیلیا، کندورا و دیگر آلات کو ہم آہنگی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے متعدد دھن بجائے جاتے ہیں۔فنکار ،قوالی فلمی گیت کے علاوہ اپنے منفرداسٹائیل میں مختلف دھنیں پیش کرتے ہیں ۔فنکار گلے میں بھاری ڈھولک اٹھائے کھڑے ہوتے ہیں۔ چند فنکار ایک ہاتھ میں مرفہ اور ایک ہاتھ میں لکڑی پکڑے ہوتے ہیں۔ ٹھیلیا کے استعمال کے ذریعے دھن کو مزید مسحور کن بنایا جاتا ہے محفلوں میں فن کے مظاہرے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے ساتھ فنکار بھی رقص کرتے ہیں۔
خنجرڈانس کی کہانی
مارفہ بینڈ روایتی طور پر 8، 12، 16 اور 22 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ گروپ کے چند اراکین رقص بھی کر سکتے ہیں جب کہ ان کے ساتھی میوزک بجاتے ہیں۔ رقص کی سب سے مشہور شکل خنجر ڈانس ہے جس میں ایک فنکار خنجر کو ہوا میں اچھالتا ہے کیونکہ دوسرے موسیقار بتدریج دھڑکنوں کی رفتار کو بڑھاتے ہیں۔ خنجر ڈانس، جو ایک روایتی یمنی رقص کی شکل ہے، سب سے زیادہ پسند کی جانے والی چیزوں میں سے ایک تھا۔ تاہم، اصلی خنجر کی جگہ اب پلاسٹک یا لکڑی نے لے لی ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ کچھ تماشائیوں نے اصلی خنجر چھین لیے اور نشے کی حالت میں انھیں چلانے کی کوشش کی، دوسروں کو تکلیف دی۔ حکومت نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر ڈانس پر تقریباً پابندی لگا دی تھی، لیکن روایت کو زندہ رکھنے کے لیے لکڑی یا پلاسٹک کے خنجر کا استعمال شروع کر دیا ہے،
پیشہ خاندانی ہے مگر
فنکار روایتی موسیقی سے لے کر باہوبلی کی دھنیں تک بجاتے ہیں۔ روایتی موسیقی میں فنکار سالی کے باغ کو جانا ،لیمو چرانا، وہاں کا جابری دیوانہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ گاتے ہوئے زور زور سے مرفہ کو پیٹتے ہیں۔ دراصل یہ گیت اور دھن شادی بیاہ کے موقع پر دلہے کو چھیڑنے کے لئے دوستوں کی فرمائش پر بجائی جاتی ہے۔ شہر حیدرآباد کے قدیم محلہ شاہ علی بنڈہ میں مرفہ بینڈ کے فنکاروں کی ایک مشہور و معروف دکان واقع ہے ۔نمائندہ آواز دی وائس نے مرفہ بینڈ بجانے والے قبیلے کے فرد سعید بن سالم باشرسے ملاقات کی اور ان سے مرفہ بینڈ کے تعلق سے تفصیلی بات چیت کی۔ سعید بن سالم باشر نے بتایا کہ ان کے پردادا کے دور سے ان کا خاندان مرفہ بینڈ سے وابستہ ہے ۔ان کے دادا عبدالرحمن بن عود باشر، والد سالم بن رحمان باشر، چاچا ناصر بن باشر ،بڑے بھائی صالح بن سلیم باشر یہ سب اسی پیشہ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندان کئی دہوں سے مرفہ بینڈ کے فن اور روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ باشر نے بتایا کہ ان کے دادا اور والد کے کئی شاگرد ہیں جو حیدرآباد میں پھیلے ہوئے ہیں اور مرفہ بینڈ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم وہی بجاتے ہیں جو پارٹی فرمائش کرتی ہے انہوں نے کہا کہ اعراس شریف، شادی بیا ہ ،دسہرہ تہوار، انتخابی مہم ،سیاسی ریالیوں میں بھی مرفہ بینڈ بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ مرفہ گروپ کے لحاظ سے اجرت حاصل کی جاتی ہے۔
وقت کے ساتھ
ہ موسیقی متعدد آلات کے استعمال سے بنتی ہے - خاص طور پر مارفاس (جسے ڈھولک یا ڈف بھی کہا جاتا ہے) جسے موسیقار لکڑیوں سے مارتے ہیں جسے 'تھاپی' کہتے ہیں۔ کوئی تار یا ہوا کے آلات استعمال نہیں ہوتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ روایتی مرفہ موسیقی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔اب مرفہ بیانڈ کے ساتھ پیانو و دیگر موسیقی آلات کا بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ مرفہ موسیقی کا مزہ، لطف چمڑے کے ڈھول اور ڈھولک میں ہی مضمر ہے۔ فنکار جب ہم آہنگی کے ساتھ اسے بجاتے ہیں تب دھنوں پر کوئی بھی جھومے بغیر نہیں رہ سکتا۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد بکرے کی کھال سے بنے مارفوں کا استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب فنکار فائبر کی سطحوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان پر کھیلنا آسان ہے اورسستا بھی ہے۔ مرفہ میں استعمال ہونے والے مختلف آلات زیادہ تر ڈھولک سے ملتے جلتے ہیں لیکن وہ سائز میں مختلف ہوتے ہیں اور انہیں استعمال کرنے کی مہارت ہونی ضروری ہے ۔فنکاروں کو بھی اس ساز کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے جسے وہ بجانے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔
فن زندہ ہے لیکن مستقبل نہیں
اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ مارفہ موسیقی کی مقبولیت کم نہیں ہوئی ہے لیکن بہت سے فنکاروں کا کہنا ہے کہ اب یہ ایسی چیز نہیں رہی جس سے وہ معقول اجرت حاصل کر سکیں۔ پہلے مارفہ کے فنکار پیسے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عزت بھی کماتے تھے۔جبکہ بینڈ کے مالکان ایک ہی پرفارمنس سے لاکھوں میں کما سکتے ہیں لیکن فنکارخالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں ۔ان کا فن مزدوری کے بھاو بک جاتا ہے ۔یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ آج شہر میں بہت کم نوجوان ہیں جو اپنے آباؤ اجداد کی وراثت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔