ممبئی : میرا روڈ کی فٹ پاتھ پر یاسمین کی پاٹھ شالا

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 31-01-2024
 ممبئی : میرا روڈ کی فٹ پاتھ پر یاسمین کی پاٹھ شالا
ممبئی : میرا روڈ کی فٹ پاتھ پر یاسمین کی پاٹھ شالا

 

شاہ تاج خان (پونے)

اِس اسکول کا نہ دروازہ ہے نہ دیواریں اور نا ہی چھت۔اِس اسکول کا کوئی نام بھی نہیں ہے۔لیکن کچھ چٹائیاں،ایک بلیک بورڈ، ایک باحجاب استاد اور ڈھیر سارے بچے جب اِس فٹ پاتھ پر اکٹھا ہو جاتے ہیں تو یہ فٹ پاتھ ایک اسکول میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ہر روز مقررہ وقت پر یہ بے نام اسکول تیار ہوتا ہے اور کچھ گھنٹوں بعد واپس یہ اسکول پھر سے راہگیروں کے لیے فٹ پاتھ بن جاتا ہے۔
ممبئی کے میرا روڈ کے کنکیا علاقے کی وی پاور جم گلی کا یہ فٹ پاتھ پچھلے تقریباً بارہ سال سے غریب بچوں کے لیے تعلیم کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بچوں کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔کیونکہ یہاں نہ داخلہ لینے کا کوئی ضابطہ ہے نہ حاضری کا کوئی رجسٹر ہے۔ بس نیا آنے والا بچہ یاسمین میڈم کو اپنا تعارف دیتا ہے اور اجازت لے کر اسکول کا حصّہ بن جاتا ہے۔ یہاں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔چھوٹی بڑی عمروں کے تقریباً پچاس بچوں پر مشتمل اِس اسکول کے احترام کا یہ عالم ہے کہ سڑک سے گزرتی گاڑیوں کے ڈرائیو راب یہاں ہارن نہیں بجاتے کیونکہ وہ اپنی بیاض پر جھکے بچوں کے انہماک میں خلل نہیں ڈالنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ دیواروں کی کمی تو کبھی اس اسکول کو محسوس نہیں ہوئی لیکن یاسمین پرویز خان کا یہ فٹ پاتھ اسکول موسمِ برسات میں چھت کی کمی کے سبب ضرور بند رہتا ہے۔ 
اگر خدمتِ خلق کی ہو سعادت
کوئی اس سے بڑھ کر عبادت نہیں ہے
یاسمین پرویز خان گذشتہ بارہ برسوں سے تین بجے سے پانچ بجے تک بچوں کو بنیادی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔بچے انہیں یاسمین میڈم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔مفت چلنے والے اِس اسکول کے بارے میں یاسمین میڈم کا کہنا ہے کہ اپنے آس پاس کی جھگی بستیوں میں رہنے والے بچوں کو دیکھ کر ایک روز خیال آیا کہ ان کے لیے کچھ کرنا چاہئے۔کافی غور وخوض کے بعدیہ طے کیا کہ کوئی بھی مدد زیادہ دن تک ان کے کام نہیں آسکتی لیکن تعلیم ہی ایک ایسی پونجی ہے جو سدا ان کے پاس رہے گی۔واضح رہے کہ دو بچوں کے ساتھ شروع کیے گئے اِس بے نام اسکول میں اب بچوں کی تعداد پچاس کے ہندسہ کو پار کر چکی ہے۔ یاسمین کہتی ہیں کہ شروع میں بچوں کو کاغذ ،قلم اور دیگر سامان میں ہی مہیا کراتی رہی۔بچوں کی تعداد بڑھنے کے بعد میں نے ایک مرتبہ بورڈ پر ضرورت کے سامان کی فہرست لکھ دی۔وہ خوش ہوتے ہوئے آواز دی وائس کو بتاتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی جب کئی لوگ سامان لے کر پہنچ گئے۔ان کا کہنا ہے کہ اب تو مجھے لکھنا بھی نہیں پڑتا۔لوگ وقت وقت پر آ کر خود ہی پوچھتے رہتے ہیں اور بچوں کے لیے کچھ تحفہ تحائف بھی لاتے رہتے ہیں جو وہ خود اپنے ہاتھوں سے بچوں کو تقسیم کرتے ہیں۔
 
awazurduیاسمین حسین کی انسانی خدمت بے مثال ہے 

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
علم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اُس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔یہ بات بچوں کی یاسمین میڈم پر صادق آتی ہے ۔انہوں نے بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنی ادھوری تعلیم مکمل تو کی ہی ، ساتھ ہی بی ایڈ کی سند بھی حاصل کر لی ہے ۔اب وہ ایک تربیت یافتہ استاد ہیں۔گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ اب اُن کے پاس بچوں کو سکھانے اور سمجھانے کے کئی نئے طریقے موجود ہیں۔ جن سے وہ پہلے واقف نہیں تھیں۔بچوں کو پڑھانے کے لیے اِس جگہ کے انتخاب کے تعلق سے وہ بتاتی ہیں کہ میں نے کوشش کی تھی کہ بچے میرے گھر پر آکر پڑھیں لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا۔اِس لیے میں خود یہاں آگئی۔وہ مزید کہتی ہیں کہ یہاں آنے والے بچے کچھ نہ کچھ کام بھی کرتے ہیں۔اِس لیے اُن کے پاس مجھے دینے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔چونکہ یہ سبھی بچے اِس فٹ پاتھ کے آس پاس ہی رہتے ہیں۔اِس لیے اُن کے والدین کو بھی جب اُن سے کام ہوتا ہے تو وہ انہیں یہاں سے بلا کر لے جاتے ہیں۔یاسمین خان کا کہنا ہے کہ بچوں کو پڑھنے کے لیے بلانا اتنا مشکل نہیں بلکہ اُن کے والدین کو سمجھانے میں میرا آج بھی کافی وقت خرچ ہوتا ہے۔حالانکہ فٹ پاتھ کے بے نام اسکول کے کئی بچے اب باقاعدہ اسکول بھی جانے لگے ہیں ۔جہاں ان کی فیس اور دوسرے اخراجات کا ذمّہ کچھ لوگوں نے اُٹھا لیا ہے۔ یاسمین خان کہتی ہیں کہ میرے پاس پڑھنے آنے والے زیادہ تر بچے ایک ہی جگہ نہیں رہتے ہیں۔ان کا کوئی مستقل پتہ نہیں ہوتا۔وہ اپنے والدین کے ساتھ بار بار جگہ بدلتے رہتے ہیں۔اِس لیے کئی بچے اپنی باقاعدہ تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔
مخالفت کے بعد حمایت 
 یاسمین میڈم کی تدریسی فٹ پاتھ پر نہ دیوار ہے نہ چھت، لیکن تعلیم مکمل ہے۔ پہلا بچہ جس نے اپنی ابتدائی تعلیم اسی فٹ پاتھ سے حاصل کی اور اسکول پہنچا آج گیارہویں جماعت تک پہنچ گیا ہے۔ لوگ اکثر برقعہ پہننے والی یاسمین پرویز خان کے لوگ ایک لمحے کے لیے رک جاتے ہیں جب وہ ایک باپردہ خاتون کو فٹ پاتھ پر بچوں کو پڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ شروع میں ان کے گھر والے بھی ان کے فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ جب میں نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ اسے ان کے پاس جا کر پڑھانا ہے تو وہ سمجھ گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ آج میرا خاندان بشمول میری ساس، سسر، شوہر اور میرے بچے میرا ساتھ دیتے ہیں۔ یاسمین پرویز خان کے شوہر وپرو کمپنی میں پروجیکٹ مینیجر ہیں۔
awazurduفٹ پاتھ  پر بسی علم کی دنیا 

کہیں کوئی چراغ جلتا ہے 
خدمت خلق ایک مقدس جذبہ ہے۔ بلا تفریق مذہب و ملت کام کرنے والوں کو کسی تحریک کی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ تو اپنے حصّہ کا دیا جلاتے ہیں۔یاسمین کا کہنا ہے کہ ابتدا میں سڑک کے کنارے بچوں کو اکٹھا کر کے پڑھانے پر میری فیملی کے لوگ بھی راضی نہیں تھے لیکن میرے جذبے اور شوق کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے مجھے اجازت دی۔مجھے اُن سب کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔واضح رہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اِس بے نام اسکول میں ہفتے میں دو مرتبہ بچوں کے لیے کھانے کا بھی انتظام کیا جانے لگا ہے۔یاسمین کا کہنا ہے کہ پہلے وہ ہر جمعرات کو بچوں کے لیے گھر سے کھانا تیار کر کے لاتی تھیں۔پھر لوگوں نے انتظام کرنا شروع کر دیا۔اب ہفتے میں دو مرتبہ بچوں کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 
فٹ پاتھ وہیں ہے بے نام اسکول اور اُس کے معمول میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔لیکن غریب بچوں اور ان کے والدین کو تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا احساس ضرور ہوا ہے۔وہ اب اپنے بچوں کو اسکول میں داخلہ دلانے کے لیے آگے آنے لگے ہیں ۔ اُن کی مدد کے لیے سڑک سے گزرنے والے لوگوں میں سے متعددایسے مخلص حضرات بھی آگے آئے ہیں جو ان بچوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھانے کی ذمّہ داری اُٹھانے کے لیے تیار ہیں ۔ عام سی سڑک کے کنارے کھڑا یہ فٹ پاتھ کئی بچوں کے مستقبل کی کہانی لکھ رہا ہے۔ جہاں کچھ وقت ٹھہر کر آگے بڑھ جانے والے بچے بتا رہے ہیں کہ اسکول اور کالج پہنچنے والے بچوں کی تعداد بھلے ہی کم ہے لیکن بھیڑ سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش اور جدو جہدیہ بھی احساس کرا رہی ہے کہ محنت رنگ لانے لگی ہے۔ یاسمین میڈم کو اپنی کلاس میں اب تک شامل ہونے والے بچوں کی تعداد معلوم نہیں ہے کہ کتنے بچے یہاں آئے اور پھر کسی دوسرے شہر یا گاؤں واپس چلے گئے۔مگر وہ بچے نہ اِس فٹ پاتھ کو بھول سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی یاسمین میڈم کو ،جنہوں نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر پہلا حرف لکھنا سکھایا تھا۔آج ان کے کام کو سراہا جا رہا ہے کئی ٹرافی اُن کے گھر کی الماری میں سجی ہوئی ہیں ۔وہ لوگوں سے بات کرتی ہیں انہیں اپنے سفر کی کہانی بھی بتاتی ہیں اور پھر اپنے کام کی طرف واپس متوجہ ہو جاتی ہیں۔بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کا اُن کا سفر لگاتار جاری ہے۔امید ہے کہ اِس فٹ پاتھ سے آگے جانے والے بچے اپنے بہتر مستقبل کی تیاری میں مصروف ہوں گے اور ایک ذمّہ دار شہری بن کر ملک کی ترقی میں اپنا رول ادا کریں گے۔
awazurdu