محمد تنویر: کولکتہ
نایاب کتابیں دھول کھا رہی ہیں یا خستہ حالی کا شکار ہورہی ہیں ، کولکتہ میں نادر نسخے اور کتابوں کے ذخیرہ کہلانے والی ویران اور سنسان ہے محمد علی لائبریری۔ بے نوری کا شکار ایک تاریخی ادارہ اب ماضی کا سایہ بھی نہیں ۔ ایک وقت پر ہجوم ریڈنگ روم کے ساتھ توجہ کا مرکز رہی لائبریری قوم اور معاشرہ کی بے توجہی یا عدم دلچسپی کے سبب پرانی کتابوں کا گودام نظر آتی ہے ۔جس کے کئی اسباب ہیں اول تو نئی نسل کا لائبریری کی تہذیب سے دور ہونا ہے کیونکہ اب مٹھی میں بند موبائل میں دستیاب آن لائن لائبریریز دستیاب ہیں ،دوسرا شہر کے اردو طبقہ نے اس ادارے کو نظر انداز کردیا ہے جو کبھی بڑے سمینارز اور مشاعروں کی میزبانی کیا کرتا ہےاس پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ نہ کسی کی آنکھ کو نور ہوں ۔
کولکتہ میں زکریا اسٹریٹ کے قریب کنائی سیل اسٹریٹ میں واقع محمد علی لائبریری کی بے نوری کی طویل کہانی ہے ،جس کے زوال کا ایک سبب ممبران کی ترداد میں کمی بھی ہے۔ ایک وقت تقریباً پانچ سو ممبران تھے ان میں ڈیڑھ سو لائف ممبران شامل ہیں۔اب ڈھائی سو کے قریب ممبران کی تعداد ہے ۔ لوگوں کی دلچسپی کم ہونے کے سبب لائبریری سنسان رہتی ہے۔
لائبریری کی موجودہ حالت
برسوں قبل نئے فرنیچر اور ظاہری رنگ و روپ کے علاوہ نئی کتابوں کا اضافہ ہوا تھا۔ ادبی، تنقیدی،علمی، تاریخی، مذہبی کتابوں کو حاصل کیاگیا۔پرانے معیاری،ادبی، جرائد کے نایاب فائل بھی ہیں۔ مغربی بنگال میں یہ اردو کی سب سے بڑی لائبریری ہے،لائبریری کے اخراجات پورا کرنے کیلئے مشاعرے منعقد ہوتے تھے لیکن ادھر کچھ برسوں سے مشاعرے یا کوئی بڑے پروگرام منعقد نہیں ہوتے ہیں۔ ہر پانچ سال میں سالانہ جنرل میٹنگ ہوتی ہے۔لائبریری کی جانب سے25مشاعرے ہوچکے ہیں۔سیمینار بھی ہوتے تھے۔لائبریری میں داخل ہوتے ہی فرش پر کتابیں ملیں گی۔ کتاب رکھنے کیلئے جگہ کی کمی ہے۔ڈیجیٹل شکل دینے پرکوئی توجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے کتابوں میں دیمک لگ رہی ہے۔پرانی کتابوں کی تلاش ایک مشکل کام ہے ۔
اندر سے باہر تک خستہ حالی
وہیں دوسری طرف لائبریری کے باہرکوڑے کا انبار جمع رہتا ہے۔لائبریری کے صدر گیٹ پر غیر قانونی قبضہ ہے اور اسکے سامنے گاڑیوں کی پارکنگ24گھنٹہ رہتی ہے۔لائبریری کے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ لائبریری کی مرمت کاکام مکمل ہونے کے بعد غیر قانونی پارکنگ کو ہٹانے کیلئے پولس سے درخواست کی جائے گی۔ آئندہ سال لائبریری کی جدت کاری کا کام مکمل کرنے کا ہدف ہے۔لائبریری کی جدت کاری کے بعد کتابوں کو ڈیجیٹل کرنے کا منصوبہ ہے اس کے لئے لائبریری میں ساڑھے4لاکھ روپئے عوامی فنڈ ملے ہیں۔
کیا کہتا ہے انتظامیہ
لائبریری کے موجودہ سکریٹری محمد خلیل کہتے ہیں کہ کلکتہ یونیورسٹی اور دوسری یونیورسٹی کے پروفیسر اور طلباء رابطہ رکھتے تھے۔ریسرچ کے لئے باہر سے طلباء آتے تھے۔ لائبریری کی75ویں سال پر مہابھارت اوراوعد پنچ کی نمائش کی گئی تھی ۔اس کے بعد سے مشاعرہ منعقد ہوتا رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ 26سال کی عمر میں مجھے لائبریری کی کمیٹی میں شامل کیاگیا۔1966میں اسسٹنٹ سکریٹری کا عہدہ ملا۔ 1947اور 1964کے فساد میں ممتاز ملاّ جان نے لائبریری کو رفیوجی کیمپ میں تبدیل کردیا۔اس سال لوگ ملک اور شہر چھوڑ کر جارہے تھے۔لائبریری بند ہونے کے قریب تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملاّجان نے کسی طرح لائبریری کو بچا لیا۔انہیں ملاّجان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔موجودہ نظام لائبریری کا یہ ہے کہ جب ہم اسسٹنٹ سکریٹری بنے تو اس وقت ساڑھے3سو ممبران تھے۔25پیسے فیس لی جاتی تھی۔ڈیڑھ سو لائف ممبران کے ساتھ کل ملاکر پانچ سو ممبران تھے۔اس وقت16ہزار کتابیں تھی۔ کچھ کتابوں میں دیمک لگ گئی، سرکاری امداد نہیں لیتے ہیں۔
محمد خلیل یہ بھی کہتے ہیں کہ اب بہت کم تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا کافی اثر پڑا ہے، اردو بولنے والوں کو رقبت نہیں ہے، صرف اخبارات کامطالعہ کرنے آتے ہیں۔ لائبریری کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہورہی ہے۔وقت لگے گا۔ ہم نے کئی بار استعفیٰ دیا مگر لوگوں نے میرا فیصلہ قبول نہیں کیا،لائبریری کو نہیں سنبھالنے سے بند ہوجائے گی۔میرے خلاف سازش رچی گئی لیکن حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔میری زندگی کاگولڈن ٹائم لائبریری میں وقف ہوگیا۔کاروبار بھی چوپٹ ہوگیا۔میری طبیعت علیل رہنے کے باوجود لائبریری کی ترقی کیلئے کوشاں رہتا ہوں۔
لائبریری کی بنیاد کیسے پڑی؟
2اکتوبر کو 1930کوچند باہمت نوجوانوں نے کلکتہ کے کولوٹولہ کے ایک مختصر کمرہ میں انجمن ترقی ہند مغربی بنگالہ کے نام سے لائبریری کی بنیاد ڈالی۔بعدازاں1931میں6 اےکنائی سیل اسٹریٹ پر منتقل ہوئی اور آزاد وطن کے مجاہد ، بے باک صحافی و خطیب اور اردو و انگریزی کے صاحب طرز انشاء پروازمولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد انکے نام سے منسوب کردی گئی۔
سال1934میں حاجی محمد رفیق اور انکے ساتھیوں کی سرپرستی میں لائبریری ترقی کی۔1947-1948کے دوران لائبریری کم اور ریلیف سنٹر زیادہ ہوگئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لائبریری ختم ہوجائے گی۔ 1952میں سسکتی ہوئی لائبریری میں کچھ باحوصلہ افراد نے دوبارہ جان ڈال دی،1966میں لائبریری ایک بار پھر بحران کا شکار ہوچلی تھی لیکن محمد ایوب اور محمد خلیل کی نگرانی میں کمیٹی کے ذمہ داران نے اسے زوال سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر کھڑا کردیا۔لائبریری کی 93سالہ زندگی پر ایک عمیق نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ لائبریری نے بڑے نشیب و فراز اور زیست کی کش مکش کے ساتھ یہ مدت گزار رہی ہے۔ کئیار لائبریری دم توڑنے کے قریب ہوئی ہے،مگر ہر بار کوئی نہ کوئی سہارا اسے ملا ہے۔لائبریری کو ہر دس برسوں میں بحرانی دور کا سامنا کرنا پڑااور غالباً اس وقت بھی لائبریری اسی دور سے گزررہی ہے۔
ادارے میں نایاب کتابیں
اس لائبریری میں اردو کی ساڑھے16ہزار کتابیں موجود ہیں۔ رامائن اور مہابھارت کی اردو ترجمہ کتابیں موجود ہے مگر اس کی برآمدگی نہیں ہوپائی ہے۔ یہاں ایسی کئی نایاب کتابیں موجود ہے جس کے بارے میں بتانا مشکل ہے کہ وہ کس حال میں ہے۔۔
اس ادارے سے کئی معزیز شخصیات جڑے تھے۔ لائبریری کی رسالہ کے لئے کلکتہ کے نامور کمپنیوں کے اشتہار ملتے تھے۔ادھر25برسوں سے لائبریری کا رسالہ شائع نہیں ہوا۔فنڈ اور عوامی دلچسپی اہم وجہ ہے۔ اس ادارے کی تقریب میں سابق مرکزی وزیرہمایوں کبیر،بہار کے گورنر قدوائی،کئی بڑے شخصیت پروگرام میں شریک ہوئے تھے ۔
اب کیا ہورہا ہے
محمد علی لائبریری کے لائبریرین انوارلحق نے بتایا کہ 16ہزار کتابیں موجود ہیں۔رسالوں کی صورت میں کتابیں موجود ہے ۔کیٹلوگنگ کا مسئلہ ہے۔اسکالرز بھی آتے ہیں۔رواں سال کے آخر تک کیٹلوگنگ کا کام مکمل کرلیا جائے گا۔چلڈرین لائبریری کا کام جاری ہے۔یہاں نایاب کتابیں بھی ہے لیکن اس کی تلاش کرنا مشکل ہے۔ کتابیں اپنی جگہ پر نہیں ہے ۔وہ کتابیں بھی مل جائیں گی جو لاہور اور کراچی سے شائع ہوتی تھی۔ لائبریری کی ممبرسمینا خان بتاتی ہیں کہ نئی کتابوں کی کمی ہے، پرانی کتابیں موجود ہونے کے باوجود نہیں ملتی ہیں۔بہت ساری کتابیں ہیں جس سے استفادہ ہواہے۔دوسری لائبریری سے یہاں پرانی کتاب زیادہ ہے۔