جشن ریختہ: اردو رسم الخط کی شکایت بے معنی ہے۔۔۔ ریختہ نے وہ کیا جو اردو والے نہیں کرسکے

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-12-2023
جشن ریختہ: اردو رسم الخط کی شکایت بے معنی ہے۔۔۔ ریختہ نے وہ کیا جو اردو والے نہیں کرسکے
جشن ریختہ: اردو رسم الخط کی شکایت بے معنی ہے۔۔۔ ریختہ نے وہ کیا جو اردو والے نہیں کرسکے

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

موسم سرما میں ملک کی راجدھانی میں درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ جس کی تعریف عام طور پر دلی کی سردی کے طور پر کی جاتی ہے۔ لیکن دلی سیاسی راجدھانی ہی نہیں بلکہ سماجی،ثقافتی اور علمی مرکز بھی ہے۔ اس لیے دلی میں سردی کے ساتھ مختلف حلقوں میں غیر معمولی سرگرمیوں کی ہلچل ایک خاص حرارت پیدا کردیتی ہے۔ ایسی ہی ایک ہلچل کا نام جشن ریختہ ہے ۔ جی ہاں! دنیا میں اردو کا سب سے بڑا فیسٹول، تین روزہ سالانہ میلہ ،جسے اب اس کے رنگوں اور رونق کے سبب جانا پہچانا جاتا ہے،اگر یہ کہا جائے کہ جشن ریختہ اس وقت ملک میں نہیں بلکہ دنیا میں اردو کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اب جشن ریختہ صرف ایک جشن نہیں۔ ایک جنون ہے۔ دیوانگی ہے ۔ایک زندگی ہے۔ کھلے ہوئے چہروں کا آسمان ہے، مسکراہٹ کی کائنات ہے۔ روشن آنکھوں کا سمندر ہے اور متوالوں کا ملن ہے۔

راجدھانی میں پچھلے ہفتےجب آٹھواں جشن ریختہ اختتام کو پہنچا تو ایک سرد رات میں لاکھوں افراد کی بھیڑ اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ اردو کے نام پر دنیا کے سب سے بڑے فیسٹول کی مقبولیت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے،کوئی ثانی نہیں ہے، یہ فیسٹول اب کوئی محفل نہیں،کوئی اجتماع نہیں بلکہ رگوں میں دوڑنے والے خون کی مانند ہے جسے سرد رات کی ٹھنڈی ہوائیں بھی منجمد نہیں کرسکتی ہیں ۔ یہ اردو سے محبت ہے جو ہر سال جشن ریختہ ہر بار سے زیادہ گہری چھاپ چھوڑ جاتا ہے ۔ دراصل جشن ریختہ اہل اردو کے لیے کسی سوغات سے کم نہیں،بات مباحثہ کی ہو ،مشاعرے کی ۔۔ قصہ گوئی کی ہو یا میوزیکل نائٹ کی، ہر محفل میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی،اہم بات یہ ہے جس میں ایک چھت کے نیچے اتنا سب کچھ ہے کہ ااہل اردو نے اس قبل ایسے کسی فیسٹول کا تصور نہیں کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جشن ریختہ نے پچھلے سال کے سیلاب کو روکنے کے لیے ’ ٹکٹ ‘ متعارف کرایا لیکن ٹکٹ کا باندھ بھی اس بار کامیاب ہوتا نظر نہیں آیا۔ میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں اردو پریمیوں کا سیلاب اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ زبان سے محبت کے سامنے تین سو روپئے کا ٹکٹ بے معنی ہے ۔

مگر کہتے ہیں کہ ہر شہرت اور کامیابی کی کوکھ سے تنازعات کا جنم بھی ہوتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ  ایک ایسے فیسٹول  جس میں ایک چھت کے نیچے اتنا سب کچھ ہے،پھر کچھ لوگ اس سے ناراضگی ظاہر کررہے ہیں، نیت پر شک کررہے ہیں ۔اپنے ایسے دعوی کررہے ہیں جو صرف خام خیالی ہے۔ اردو والوں کا ایک طبقہ اردو اسکرپٹ کے نام پر ناراضگی ظاہر کررہا ہے  جس کا کہنا ہے کہ اگر سب کچھ اردو کے نام پر اردو کے لیے ہی ہورہا ہے توتمام بینرز اور بورڈز پر اردو  اسکرپٹ  کیوں نظر نہیں آتی۔۔۔ اہل اردو کہہ رہے ہیں کہ جب اردو کے نام پر جشن ہے تو اس کی اسکرپٹ کے دیدار کو لیلی کی جھلک کیوں بنا دیا گیا ہے۔

دوسری جانب  جشن ریختہ کے حامی کہہ رہے ہیں کہ اردو والے اب بھی املا کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔۔ اچھے کام کی سراہنا کریں ورنہ تشریف نہ لائیں ۔ ایک نئی پہل اور پلیٹ فارم  کوسلام کریں ۔اگر پسند نہ آئے تو خود ایسی کوشش کیوں نہیں کی جاتی ہے۔ کوئی خود ساختہ اردودوست  زبان کی فروغ کے لیے  کیوں آگے نہیں آتے۔ اردو کے نام پر جو ادارے ہیں وہ ابتک کیا کررہے ہیں اور کرتے رہے ہیں جو اب اعتراض کررہے ہیں۔

awazurdu

آواز دی وائس کے ایک پروگرام میں ممتاز صحافی اور خبردار جدید کے ایڈیٹر معصوم مرادآبادی نے کہا کہ ریختہ نے وہ کیا جو اردو والے نہیں کرسکے ،ریختہ نے اردو کی جانب ایسے لوگوں کو راغب کیا وہ اردو والے نہیں ہیں،وہ اردو کے دیوانے ہیں ،جو اردو سن سن کر زبان سے عشق میں مبتلا ہوئے ہیں جبکہ ریختہ نے ایک ایسا پلیٹ فارم دیا ہے جہاں انہیں دیونا گری اور رومن میں اردو پڑھنے کا موقع دیا ہے۔ آج جشن ریختہ میں جو بھیڑ ہے وہ اس ادارے کی پیداوار ہے جسے ریختہ نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے متوجہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں راجدھانی کے اردو اداروں غالب اکاڈمی،غالب انسٹی ٹیوٹ اور اردو اکاڈمی کے پروگرام میں دیکھتا ہوں تو جتنے لوگ اسٹیج پر ہوتے ہیں اتنے ہی ہال کی کرسیوں پر ہوتے ہیں ۔اس میں کہیں اسکرپٹ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے ،پھر بھی ہال خالی ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ریختہ میں اردو کے نام پر اتنے لوگوں کا اکٹھا ہونا ہی ایک بڑی کامیابی ہے۔ جو اردو سیکھنے میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔اس کے مقابلے میں ہماری کوشش صفر ہے۔ ہم کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا ۔

نوجوان تاریخ نویس  ثاقب سلیم نے اس پروگرام میں کہا کہ بات اگر رسم الخط کی کریں تو وہ زبان کا حصہ ضرور ہے لیکن زبان اس سے کہیں آگے ہوتی ہے۔ایک شخص ایک زبان لکھ نہیں پاتا ہے تو کیا بول بھی نہیں پائے گا۔ ریختہ میں لوگ اردو کو دیوناگری یا رومن میں پڑھ رہے ہیں اور زبان کی جانب راغب ہورہے ہیں ۔پھر اسے سیکھ رہے ہیں ۔میرا ماننا ہے کہ زبان بولنے کا نام ہے ،بولی کا نام زبان ہوتا ہے ۔ثاقب سلیم نے کہا کہ جب پرنٹنگ پریس نے دستک دی تو نول کشور صاحب نے اس ٹکنالوجی کے استعمال سے خود کو ایک انقلابی ثابت کیا تھا۔ اب انٹر نیٹ کا دور ہے اور ریختہ نے اس کا استعمال کیا اور کامیاب ہوا ۔حالانکہ یہ اردو کے نام پر پہلی کوشش نہیں تھی اس قبل اردو شاعری ڈاٹ کام کا ظہور ہوا تھا جس میں رومن میں اردو شاعری پیش کی جاتی تھی۔ لیکن ریختہ سب سے منفرد کوشش رہی کیونکہ یہ کتابوں کا ذخیرہ بنی ،نادر اور قیمتی کتابیں ایک ویب سائٹ پر اکٹھا کی گئیں ۔

دیکھئے! جشن ریختہ اور اردو اسکرپٹ پر  آواز دی وائس کا خصوصی پروگرام 

اس موضوع پر ممتاز صحافی شاہد صدیقی نے کہا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ فیسٹول ایسے لوگوں کو راغب کرنے کے لئے ہے جو اردو اسکرپٹ نہیں پڑھ سکتے ہیں ۔ ایک بار جب وہ فیسٹول میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ مزید سیکھنا چاہتے ہیں اور ریختہ ویب سائٹ اردو سیکھنے کا ایک آسان طریقہ فراہم کرتی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں بعض نقادوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ اردو کے سائن بورڈ، اردو رسم الخط میں اشعار ہونے چاہئیں ۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر نئے منصوبے میں مسلسل تبدیلی اور بہتری کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ہماری تنقید صحت مند اور مثبت ہونی چاہیے۔ تنقیدی تعریف ہمیشہ بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ریختہ کی انتظامیہ اپنی طرف سے آنے والی کچھ تنقیدوں کو مثبت انداز میں دیکھے گی اور کچھ نئی اختراعات کے ساتھ میلے کو مزید دلچسپ بنائے گی۔

ممتاز نقاد حقانی القاسمی کہتے ہیں کہ ریختہ نے جتنوں کو اردو رسم الخط سے روشناس کرایا ہے،برسوں سے قائم اردو اداروں کا تناسب اس کے مقابلے میں بہت کم ہے،اس لیے ریختہ نشانہ بنانے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں ۔ اس میلے میں کتابیں بھی اردو رسم الخط میں تھیں اور شاید بینر بھی پھر بھی اردو رسم الخط کے عاشقوں کا ہجوم نہیں پہنچ پایا شاید یہ لوگ کار دیگر میں مصروف رہے ہونگے۔وہ کہتے ہیں کہ جب ہمارے مکانوں اور دکانوں سے جب اردو رسم الخط غائب ہے تو ریختہ پر طنز کوئی جواز نہیں ۔ اردو والوں کو ریختہ نے بینر بورڈ اردو رسم الخط استعمال کرنے سے روکا تو نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مہم چھیڑی ہے تو پھر ہنگامہ ہے کیوں برپا --- اردو رسم الخط کا تحفظ ہی کرنا ہے تو ہمیں اردو اداروں اور اکادمیوں میں دفتری مراسلات اور دیگر معاملات کے لئے اردو رسم الخط کے استعمال پر زور دینا ہوگا۔

کولکتہ کے ممتاز دانشور ڈاکٹر نوشاد مومن نے کہا کہ ریختہ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا البتہ "جشن ریختہ" جب اردو کے نام پر منایا جارہا ہو اور یہ جشن بھی اردو کے معروف شاعر میر تقی میر  سے منسوب ہو تو پھر متعدد بینروں پر اردو رسم الخط کا استعمال نہ کرنا بلکہ اردو کو نظر انداز کرنا کرب ناک ہی نہیں بلکہ اردو کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ ایسے میں اعتراض کا حق تو ہر محب اردو کو حاصل ہے۔یہ درست ہے کہ ریختہ گروپ کو اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرنے کا حق ہے لیکن اردو کی حق تلفی کا کوئ حق نہیں۔۔

سوال یہی ہے کہ ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ہم اس سلسلے میں کیا کررہے ہیں؟ کوئی اردو کے نام پر کچھ کررہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ،سنجیو صراف نے جس پودے کو ایک مضبوط درخت بنایا ہے ،وہ اردو والوں کے لیے سونے کی کان کی مانند ہے۔ اس پر سو فیصد مواد اردو اسکرپٹ میں ہی دستیاب ہے،تین لاکھ کتابیں اسکین کی گئی ہیں جبکہ اس کا سلسلہ جاری ہے،آج دنیا کے کسی بھی کونے میں  آپ سو سال پرانی کتاب کو اس ویب سائٹ پر دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں ،ریسرچ اسکالرز کے لیے یہ ایک بڑا خزانہ ہے ۔ریختہ کا بنیادت کام بہت ٹھوس ہے،وہ اردو والوں کے لیے ہی ہے جبکہ جشن ریختہ ایسا پروگرام ہے جس میں ایسے لوگوں کو اردو کے قریب لایا جارہا ہے جو اردو نہیں جانتے۔صرف سنتے یا بولتے ہیں ،اس پلیٹ فارم پر انہیں بہت کچھ حاصل ہورہا ہے۔ بات اردو رسم الخط کی ہے تو   اس کے لیے ہمیں اپنے گھر سے کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ بیشتر اردوداں اس بات کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ ان کی اولادیں ہی اردو پڑھنے سے قاصر ہیں ۔اس لیے سنجیو صراف کا قافلہ رواں دواں رہے اور ہم بھی اس سے کچھ سبق لے کر اپنی کمزوریوں اور کمیوں کو دور کریں تو بہتر ہوگا