صرف ایک ڈش نہیں عقیدے کا نام ہے بریانی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 11-10-2023
 صرف ایک ڈش نہیں عقیدے کا نام ہے بریانی
صرف ایک ڈش نہیں عقیدے کا نام ہے بریانی

 



منصور الدین فریدی

بریانی ۔۔ یہ صرف ایک ڈش نہیں،ایک تہذیب ہے، ایک عقیدہ ہے، ایک جنون ہے، ایک دیوانگی ہے،ایک نشہ ہے، ایک شان ہےبلکہ جذبات کا نام ہے بریانی ۔ جسے انسان نیت سیر ہونے کے باوجود پیٹ پر احسان کے ارادےسے کھاتا ہے ۔ یہی بریانی سے آپ کی محبت کا ثبوت ہے ، بریانی سے آپ کی وفا داری ہے اور وراثت کی حفاظت کے تئیں آپ کے ذمہ دار ہونے کی گواہی ہے۔ دراصل اب بریانی محفلوں کا اٹوٹ حصہ ہے۔اگر شادی میں بریانی نہ ہو تو بریانی نہ کھانے والا بھی کرتا ہے لعنت ملامت ، کسی کی موت پر ’’ماتمی دعوت‘ میں بریانی نہ ہو تومرنے والے کا ایصال ثواب خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ بات واضح ہے کہ محفل خواہ خوشی کی ہو یا غم کی ۔بزرگوں کی ہو یا جوانوں کی ۔شادی کی ہو منگنی کی، رسم قُل ہو یا سیاسی جلسہ کی، کوئی عرس ہو یا پھر بچے کی ختنہ ۔بریانی کی خو شبو کے بغیر مکمل نہیں مانی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ کھانے کا مطلب ہی اب ’بریانی‘ ہے۔ یہ ہے بریانی کی طاقت ۔ اس کے ذائقہ کا اثر اس کی خوشبو کا سحر۔جس نےاس کو جینا مرنا ترے سنگ کا درجہ دلا دیا ہے ۔

شادی خانہ آبادی سے رسم قل تک دسترخوان کی رونق بننے کے سبب بریانی کی مقبولیت اور شہرت اب زمین سے آسمان تک پہنچ چکی ہے۔ بہرحال ڈائقہ اور خوشبو سے پہلے اگر بریانی کے وجود میں آنے کی بات کریں تو اس سلسلے میں الگ الگ دعوے اور اندازے ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان میں قصوں اور کہانیوں کی تاریخ کے سبب بریانی کے ساتھ بھی دلچسپ کہانیاں جڑ چکی ہیں ۔ جوادوار اور جغرافیہ کی حدود سے باہر تک پھیلی ہوتی ہیں ۔ بات سرحد کے اس پار ہو یا اس پار ۔۔بریانی کی مقبولیت لکھنؤ کے نوابوں سے لے کر حیدرآباد کے نظاموں تک صدیوں سے اٹل رہی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ بریانی کی اصلیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔

awazurdu

بریانی  کی تاریخ  بھی ذائقہ دار ہے

 کہاں سے آئی بریانی ؟

کہتے ہیں جب بات نکلے گی تو بریانی کی خوشبو کی طرح دور تک جائے گی۔ بریانی کہاں سے آ ئی اور کیسے دسترخوان کی زینت بنی؟ یعنی کہ بریانی کی دریافت کہیں یا ایجاد کے بارے میں کئی کہانیاں اور نظریات موجود ہیں- یہ حقیقت ہے کہ بریانی کے ہندوستان میں ظہورکے سلسلے میں لاتعداد نظریات موجود ہیں کہ ڈش نے ہندوستان کا سفر کیسے کیا اور یہ ملک کے دستر خو ان تک کیسے پہنچی۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے مشہور فوڈ مورخ سلمیٰ یوسف حسین نے بڑے صاف الفاظ میں کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مغل حکمرانوں نے فن آشیزی (کھانا پکانے کے فن) کو آگے بڑھایا اور ہندوستان کے سادہ کھانوں کو ایک فن کی شکل دی۔مگر بریانی مغلوں کے ذریعے ہندوستان میں نہیں آئی تھی۔ بلکہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ زائرین، فوجی خاندانوں اور بعض رہنماؤں کے ساتھ جنوبی ہندوستان آئی۔ بعد میں یہ ڈش جن مختلف مقامات پر پہنچی اسی مناسبت سے مقامی ذائقے اس میں مربوط ہوتے گئے

 بہرحال اگر بات  دیگر دعووں کی کریں تو سب سے پہلا دعوی میں  ترک منگول فاتح تیمور کا نام آتا ہے جو 1398 میں ہندوستان کی سرحدوں پر پہنچا تھا،وہ اپنے ساتھ بریانی کا بیش قیمت تحفہ بھی لایا۔ اسے بنانے کا اس زمانے میں طریقہ یہ تھا کہ چاول، مسالہ جات اور جو بھی گوشت میسر تھا اسے ایک مٹی کے برتن میں بھر کر ایک گرم گڑھے میں دفن کردیا جاتا اور ایک مخصوص وقت کے بعد جب باہر نکالا گیا تو گرما گرم مزیدار بریانی تیار تھی جسے تیمور کے فوجیوں کو جنگی مہم کے دوران کھانے کے طور پر پہنچایا جاتا تھا۔

 ایسا ہی دوسرا دعوی مغل بادشاہ شاہ جہان اور ان کی اہلیہ ملکہ ممتاز محل (1593-1631) کے بارے میں ہے ،جس کے مطابق شاہ جہان نے ایک بار فوجی بیرکوں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ ان کے فوجیوں میں غذائیت کی کمی ہے۔شاہ جہاں کی اہلیہ نے اپنے باورچیوں کو حکم دیا کہ متوازن غذائی اجزاء کے ساتھ ایک منفرد ڈش تیار کی جائے تاکہ فوجیوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملے اور ان میں موجود غذائیت کی کمی کو دور کیا جاسکے۔۔ اس کے نتیجے میں گوشت، خوشبودار مسالہ جات اور تلے ہوئے چاولوں کے ساتھ 'ایک مکمل کھانے' کے طور پر بریانی تیارکی گئی

ایک اور دعوی یہ ہے کہ ہندوستان کے جنوبی مالا بار کے ساحل پر اکثر و بیشتر عرب تاجر آتے رہتے تھے اور بریانی انہی کا تحفہ ہے۔ اس وقت کی تاریخ میں چاولوں کے ایک پکوان کا ذکر ملتا ہے جسے تامل ادب میں اون سورو کہا جاتا تھا۔ یہ سنہ 2 عیسوی کا قصہ ہے۔ اون سورو نامی پکوان گھی، چاول، گوشت، ہلدی، کالی مرچ اور دھنیے کی آمیزش سے بنتا تھا اور یہ پکوان بھی لشکر کے کھانے میں استعمال ہوتا تھا۔

اس سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ بریانی خواہ کسی نے بھی ایجاد کی ہو مگر اس کا مقصد کسی کی نظر میں فوجیوں کا پیٹ بھرنا تھا اور کسی کی نظر میں  شاہی دستر خوان کی زینت بنانا تھا  نہ کہ باراتیوں اور سوگواروں کا۔ اس کو غذائیت کا مجموعہ کہا گیا جس کو کھانے کے بعد  شاہجاں کے فوجی دمدار ہوجاتے تھے اور جنگ کے ساتھ محنت کرنے کے لائق ہوجاتے تھے۔ حالانکہ اب بریانی کی تاثیر ایسی بدلی ہے کہ لوگ اس ڈش کو کھانے کے بعد محنت کرنے کے بجائے پیٹ پر ہاتھ پھیر کرسو جاتے ہیں ۔یہ وقت اور ضرورت ہے جس نے بریانی بیرکوں سے محفلوں میں پہنچا دیا ہے۔  

awazurdu

ہندوستانی پکوانوں کی تاریخ داں سلمی یوسف حسین بریانی کو مغل دین نہیں مانتی ہیں

نام میں ہی سب کچھ ہے ۔۔۔

یوں تو کہا جاتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے ۔ مگر بات بریانی کی ہو تو سب کچھ نام میں ہی ہے۔ ڈش میں اگر بریانی کا لفظ جڑا ہوا ہے تو ہر کسی کے منھ میں خود بخود پانی آجاتا ہے۔ بات بریانی کی کریں تو  بقول سلمیٰ یوسف حسین  یہ لفظ ’بریان‘ کی دین ہے جو ایران کی زبان یعنی فارسی کا لفظ ہے ۔ جس کا مطلب 'تلا ہوا یا بھونا ہوا' ہے۔

 بریانی یوں تو جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی سے نکل کر امریکہ اور یورپ تک پہنچ چکی ہے،اس دوران اس کے نام میں اضافہ ہوا لیکن  لفظ بریانی جوں کا توں رہا۔یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں جب بریانی کا نام آتا ہے تو جغرافیائی ثبوت کچھ اس طرح  سامنے آتے ہیں ۔حیدرآبادی بریانی سندھی بریانی، میمن بریانی اور بمبئی بریانی،کولکتہ  بریانی لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہر کوئی ان جغرافیائی اثرات کے باوجود بریانی ہی مانتا ہے۔جسے "فوڈ فٹ فار کنگز" یعنی"بادشاہوں کیلئے بہترین کھانا" قرار دیا گیا تھا۔

اگر ہم بریانی کے ناموں اور ذائقوں کی بات کریں تو اس کی ایک طویل فہرست ہےیعنی کہ بریانی ایک ہے لیکن ہزار نام ہیں

جیسے اگر نوابوں کے شہر کی بات کریں تو لکھنو کی مرغ بریانی کی دھوم ہے۔ کم مسالے کے ساتھ اس کی نفاست کا کوئی مقابلہ نہیں جسے اودھی بریانی بھی کہتے ہیں  ۔ حیدرآبادی بریانی کا اپنا مقام ہے جو بے انتہا ذائقہ دار اور مسالہ دار ہوتی ہے، حیدرآباد دکن کے نظام کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے بریانی کی 49 ڈشز متعارف کرائیں ۔

اس کے ساتھ مغلائی بریانی ہے جس کی جڑیں شاہ جہاں سے جڑی ہیں اور دلی و اطراف میں مقبول ہے ۔اسی طرح بریانی کے ساتھ سندھ کا نام بھی جڑ گیا ہے یعنی کہ سندھی بریانی،یہ اپنے بریانی خاندان کی واحد ترکیب ہے جس میں دہی کا استعمال ہوتا ہے۔

 جبکہ بمبئی بریانی اپنی مقبولیت رکھتی ہےجس میں آلو بھی ہوتا ہے اور پیاز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے جس کے سبب اس میں مٹھاس ہوتی ہے ،چکنائی بھی زیادہ ہوتی ہے۔

 آپ کولکتہ کی آلو بریانی کو نہیں بھول سکتے ہیں ۔جس کے آلو اہل کولکتہ کے ایمان کی طرح بریانی کا حصہ کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں ۔ بات کریں امبر بریانی کی جو تمل ناڈو کی شان ہے،  کچی بریانی،میں چاول کو کچے گوشت کے ساتھ بنایا جاتا ہے ۔

 ملابار بریانی کیرالا کی ہے جس میں گوشت کے بجائے مچھلی کا استعمال ہوتا ہے،اس میں مسالہ بہت تیز ہوتے ہیں جبکہ خوشبو حیدرآبادی بریانی جیسی ہوتی ہے ۔ ایک ہے مرادآبادی بریانی ،اس کا دائرہ اب دلی تک وسیع ہوچکا ہے ۔  بھٹکلی بریانی کرناٹک کی ہے جس میں پیاز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ راجستھانی بریانی ہے جس کا ذائقہ آپ درگاہ اجمیر شریف میں لے سکتے ہیں ۔

بقول گوشت خور بریانی کے ساتھ سب سے بڑا کھلواڑ ’ویج بریانی‘ کے نام پر ہوا ہے یعنی کہ سبزیوں کی بریانی جو کہ بریانی کی فطرت کے بالکل برعکس ہے۔ مطلب گوشت خور کہتے ہیں کہ بریانی کا مطلب چاول اور گوشت کا مرکب ۔

اس طرح بریانی نے برصغیر میں بھی پیر پھلائے ہیں۔ سری لنکن بریانی ان کی ایجاد ہے جو ہندوستان سے لنکا گئے تھے جو بہت زیادہ چٹخارے دار ہوتی ہے۔ افغانی بریانی افغانستان کی شان ہے کیونکہ اس میں گوشت کے ساتھ خشک میوے کا استعمال ہوتا ہے۔

awazurdu

شاہی ڈش اب عوامی پسند ہے

پسند دنیا کی

ایک اور بات واضح ہے کہ اب بریانی  برصغیر  کی ملکیت نہیں رہی۔ خوشبو کے ساتھ بریانی بھی دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی ہے۔کیا ہندوستان اور کیا پاکستان ۔ کیا افغانستان اور کیا بنگلہ دیش ۔ اب تو بریانی سات سمندر پار پہنچ چکی ہے ۔ امریکہ سے یورپ  اور مشرق وسطی سے افریقہ تک ؤآپ کو بریانی کی خوشبو مل جائے گی ۔

دراصل بریانی کا سفر شاہی دستر خوان شروع ہوا اور سڑک کے کنارے ٹھیلوں تک پہنچ گیا۔بریانی ہندوستان میں حیدر آباد کے نظام اور لکھنؤ کے نواب کے دستر خوان کی زینت بنی ۔ پھر شادیوں اور دیگر تقریبات میں براجمان ہوئی۔لیکن کسی نے یہ سوچا نہیں ہوگا کہ بریانی ان محفلوں اورہوٹلوں سے نکل کر سڑک کے کنارے ٹھیلوں پہنچ جائے گی 

امرا و خواص اور اس کے بعد عوامی دستر خوان تک پہنچنے میں بریانی کے ذائقوں، رنگ اور ترکیب میں بے حد ارتقا ہوا اور اس کی مختلف جہتیں پیدا ہوگئیں لیکن پکوانوں کے شوقین نے اسے ہر شکل میں قبول کیا ۔حد تو یہ ہے کہ سبزی خور بھی سبزی پلاو کو ’’ویج بریانی ‘‘ کہنے لگے جو کچھ لوگوں کی نظر میں  بریانی کی توہین ہے ۔بہرحال بریانی کی اسی پہنچ نے ایک  شاہی  پکوان کو عوامی بنا دیا اور سرحدوں کو بے معنی