آزادی کے بعد ۔۔۔ ہندوستانی کرکٹ میں مسلم چہروں کی کہانی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-02-2024
آزادی کے بعد ۔۔۔ ہندوستانی کرکٹ میں مسلم چہروں کی کہانی
آزادی کے بعد ۔۔۔ ہندوستانی کرکٹ میں مسلم چہروں کی کہانی

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

کرکٹ کو ہر دور میں غیر سرکاری طور پر قومی کھیل کا درجہ حاصل رہاہے، ملک میں اس کھیل نے  اب جنون سے مذہب کی شکل اختیار کرلی ہے، جس میں کسی چہرے کا جلوہ افروز ہونا  نہ صرف اس کے معاشرے اور طبقے کے لیے بھی ایک اعزاز ہوتا ہے، اگر کرکٹ میں ایسے مسلمان  ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے ہندوستان کی نمائندگی کی اور کرکٹ میں شہرت پائی۔ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہندوستان کے لیے بھی کھیلے اور انگلینڈ کے لیے بھی۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ہندوںتان اور پاکستان دونوں کی نمائندگی کی۔ اگر آزادی سے قبل کی بات کریں تو نواب محمد افتخار علی خان پٹودی 1946میں انگلینڈ کے دورے کے دوران ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ ان کے بیٹے منصور علی خان جو کہ نواب آف پٹودی جونیئر کے نام سے مشہور تھے، ہندوستان کے کپتان رہے۔ انہوں نے 1932 اور 1934 میں انگلینڈ کی ٹیم کے لیے ٹیسٹ کرکٹ بھی کھیلی تھی۔ جس سے وہ ان چند کرکٹ کھلاڑی میں سے ایک ہیں جنہوں نے دو ممالک کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ واحد ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی ہیں جو ہندوستان اور انگلینڈ دونوں کے لیے کھیل چکے ہیں۔انہوں نے مجموعی طور پر چھ ٹیسٹ کھیلے، تین ہندوستان کے کپتان کے طور پر اور تین انگلینڈ کے لیے۔اس سے دلچسپ بات یہ ہے کہ افتخار علی خان نے کرکٹ کے ساتھ انٹر نیشنل ہاکی میں بھی ہندوستان کی نمائندگی کی تھی۔ان کا انتقال 5جنوری1952میں ہوا تھا اس وقت ان کے بیٹے منصور علی خان کی عمر صرف 11سال تھی۔۔کچھ نام آزادی سے قبل کے بھی ہیں جنہوں نے ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی بھی نمائندگی کی۔ان میں مشتاق علی اور عبدلحفیظ کاردار کے نام مقابل ذکر ہیں۔

تقسیم ملک یا آزادی کے بعد ہندوستانی کرکٹ میں مسلم چہروں کی ایک طویل کہانی ہے۔ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے ،جن میں سے کسی نے کپتان کی حیثیت سے لوہا منوایا تو کسی نے بیٹسمین کے طور پر اور کسی نے بالر کے روپ میں ۔ان میں عابد علی،،مشتاق علی ،منصور علی خان پٹودی ،عباس علی بیگ،سلیم درانی ،سید مجتبی کرمانی،محمد نثار،غلام احمد فروق انجینئر،محمد اظہر الدین،ارشد ایوب ،عرفان پٹھان ،یوسف پٹھان ،مناف پٹیل،محمد کیف،محمد جعفر،ظہیر خان ،محمدشامی ،محمد سراج کے نام شامل ہیں ۔ 

ائیے ڈالتے ہیں ایک نظر ان کھلاڑیوں پر جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی قومی ٹیم میں نمائندگی کی

بہرحال تقسیم ملک کےبعد چھٹی دہائی میں مسلم کرکٹرز کا فقدان ضرور رہا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسا نام نہیں ابھرا جو طویل عرصے تک چھایا رہا ہو۔ ان دس سال کے دوران جو نام سامنے آئے ہیں  ان میں ایک   خان محمد ابراہیم ہے جنہوں نے 1948-49 سیزن میں 4 ٹیسٹ کھیلے ۔ 1948-49 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف 4 ٹیسٹ کھیلے۔ ونو مانکڈ کے ساتھ بیٹنگ کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے پہلے ٹیسٹ میں 85 اور 44 رنز بنائے  لیکن اپنی اگلی 6 ٹیسٹ اننگز میں صرف 40 رنز بنائے۔

awazurduخان محمد ابراہیم  ۔۔۔ چھٹی دہائی کا مسلم چہرہ


ایک نام غلام احمد کا ہے جو کامیاب کردار رہے۔جو آف اسپن بالر تھے-غلام احمد ۔جو کہ منصور علی خان پٹودی کے بعد دوسرے مسلمان کپتان تھے۔وہ ہندوستان کے پہلے ورلڈ کلاس آف اسپنر تھے۔22ٹسٹ میں 68وکٹ حاصل کی تھیں۔بہترین بالنگ 49رنوں پر7وکٹ تھی۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کئی سال تک بی سی سی آئی کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔ حیدرآباد کے لیے 1939-40 سے 1958-59 تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔1948-49 سے 1958-59 تک ہندوستان کے لیے 22 ٹیسٹ کھیلے۔ انہوں نے 1952 میں انگلینڈ اور 1954-55 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ انہوں نے 1955-56 میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میں ہندوستان کی کپتانی کی، جو ڈرا ہوا ۔ 1958-59 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف دو ٹیسٹ، دونوں میں ہندوستان ہار گیا۔

اب بات کرتے ہیں غلام مصطفیٰ گارڈ کی ،جنہوں نے 1958سے 1960 تک دو ٹیسٹ کھیلے ۔گارڈ نے 1946-47 سے 15 سال سے زیادہ عرصے تک بمبئی اور گجرات کے لیے ہندوستانی ڈومیسٹک کرکٹ میں کامیابی سے بالنگ کی۔ لیکن 1958-59 میں بمبئی (ممبئی) میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلا میچ اپنے پہلے ٹیسٹ میں شامل ہونے سے پہلے وہ تقریباً 33 سال کے تھے۔ اس نے 3 اچھی وکٹیں لیں جان ہولٹ (جونیئر) کونراڈ ہنٹے اور گیری سوبرز لیکن باقی سیریز کے لیے ڈراپ کر دیا گیا۔ 1959 میں انگلینڈ کا دورہ نہیں کیا۔ گارڈ 1959-60 میں آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں بھی بمبئی (ممبئی) میں دوبارہ نمودار ہوئے لیکن ایک بھی وکٹ لینے میں ناکام رہے اور دوبارہ ڈراپ کر دیا گیا۔

awazurduبال کے ساتھ غلام احمد اور غلام مصطفی گارڈ 


ایک نام تھا عباس علی بیگ کا ،جنہوں نے 1959میں انگلینڈ کے خلاف ٹسٹ کیر ئر کا آغاز کیا تھا۔ 112رن کی اننگ کھیلی تھی۔وہ انگلینڈ کے خلاف سینچری بنانے والے پہلے مسلمان کرکٹر تھے۔انہوں نے ملک کیلئے 10ٹسٹ کھیلے تھے۔عباس علی بیگ نے 1959 اور 1967 کے درمیان 10 ٹیسٹ کھیلے۔ 21 سالہ کرکٹ کیریئرمیں فرسٹ کلاس کرکٹ میں 34.16 کی اوسط سے 12,367 رنز بنائے۔ انہوں نے 1991-92 اور 1992 کرکٹ ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے دورے کے دوران ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی تھی ۔

فرمائشی چھکے باز  سلیم دررانی کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ جنہوں نے 1960 سے 1973 تک ہندوستان کے لیے 29 ٹیسٹ کھیلے۔ وہ ایک دھیمے لیفٹ آرم آرتھوڈوکس گیند باز تھے۔ ان کی شہرت چھکے لگانے کی تھی جو بائیں ہاتھ کے بیٹسمین کی نماِیاں خوبی ہوتی ہے۔ کابل میں پیدا ہوئے درانی نے 1959میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کیر ئر کا آغاز کیا تھا،انہوں نے29ٹسٹ کھیلے تھے۔جن میں 1202 رن بنائے تھے۔ان میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پورٹ آف اسپین کی104رن کی اننگ بھی شامل ہے۔انہوں نے 75وکٹ بھی لی تھیں۔

awazurduعباس علی بیگ ۔۔ چھکا لگایا تو لڑکی نے میدان میں اتر کر بوسہ لے لیا


awazurduسلیم درانی ۔ فرمائشی چھکے باز 


awazurduمنصور علی خان پٹودی  ۔۔۔ جنہیں ہندوستانی کرکٹ  میں ٹائیگر پٹودی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے 


ہندوستانی کرکٹ کا ٹائیگر

اب منصور علی خان کی بات کریں تو انہیں ہندوستانی کرکٹ میں ‘‘جونئیر پٹودی ’’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔جو کرکٹ کی دنیا کے سب سے کم عمر کپتان بنے تھے۔انہوں نے 46ٹسٹ میں ملک کی نمائندگی کی جن میں 2793رن بنائے تھے ۔سب سے بڑا اسکور203رنوں کا تھا جو 1961میں انگلینڈ کے خلاف بنایا تھا۔ایک کار حادثہ میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی جس کے سبب کرکٹ سے دوری ہوئی ۔مگر1974میں وہ پھر واپس آئے ،ایک بار پھر قیادت کی۔ہندوستان نے ان کی قیادت میں مزید9ٹسٹ کھیلے تھے۔ یہ ان کا کمال تھا۔ پٹودی ایک جارحانہ بیٹسمیناور گھاگ کپتان کے طور پر مشہور تھے۔ ان کی برق رفتار فیلڈنگ کے لیے انہیں ’ٹائیگر‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ پٹوڈی نے ہندوستان کے لیے 46 ٹیسٹ کھیلے جن میں سے 40 میں وہ کپتان رہے۔ آج تک انھیں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا سب سے کم عمر کا کپتان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تقریباً 35 کی اوسط سے انہوں نے 2793 رن بنائے جس میں 6 سینچریاں اور 16 نصف سینچریاں شامل تھیں-ساتویں دہائی میں بلاشبہ منصور علی خان پٹودی کا نام سے بڑا رہا ،اپنی شخصیت،کھیل اور قیادت کے ساتھ فلمی اداکارہ شرمیلا ٹیگورکے ساتھ شادی کے سبب وہ ہمیشہ سرخیوں میں رہے اور مقبول بھی۔

اب بات کرتے ہیں سید عابد علی کی۔۔۔ جنہیں ہندوستانی کرکٹ میں میڈیم پیس بالر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔جنہوں نے1967میں آسٹریلیا کے خلاف اپنے کیرئر کا آغاز کیا تھا۔29ٹسٹ میں 47وکٹ چٹخائے ۔ایک بیٹسمین کی حیثیت سے 1018رن بنائے۔ہندوستان کی ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی ٹسٹ فتح میں شامل تھے۔انہوں نے 5ون ڈے بھی کھیلے تھے۔۔1967میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے کے لیے انھیں غیر متوقع طور پر ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا۔ انہوں نے ممکنہ طور پر کپتان ایم اے کے پٹودی کی جگہ آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے لیے ٹیم میں جگہ بنائی جو زخمی ہو کر باہر ہو گئے تھے۔ عابد نے دونوں اننگز میں 33 رنز بنائے اور 55 کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں ۔ تیسرے ٹیسٹ میں بیٹنگ کا آغاز کرنے کے لیے بھیجے گئے، انہوں نے 47 رنز بنائے۔ اس کے بعد آخری ٹیسٹ میں 81 اور 78 رنز کی اننگز کھیلی۔ 1971 کے پورٹ آف اسپین ٹیسٹ میں جب ویسٹ انڈیز کے خلاف سنیل گواسکر نے فاتحانہ رنز بنائے تو عابد علی نان اسٹرائیکر تھے۔ سیریز کے آخری ٹیسٹ میں جب ویسٹ انڈیز نے مشکل ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی تو عابد علی نے لگاتار دو بال پر روہن کنہائی اور گیری سوبرز کو بولڈ کیا۔ چند ماہ بعد اس نے وننگ باؤنڈری اس وقت لگائی جب ہندوستان نے اوول میں انگلینڈ کو چار وکٹوں سے شکست دی۔ اسی سیریز کے مانچسٹر ٹیسٹ میں، انہوں نے پہلے دن لنچ سے قبل 19 رنز کے عوض پہلی چار وکٹیں لے کر انگلینڈ کا اسکور 41 رنز پر 4کر دیا۔ انہوں نے مزید نو ٹیسٹ میچ کھیلے اور 1975 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 70 رنز بنائے۔

awazurduسید کرمانی  ہندوستانی کرکٹ کے چند سب سے کامیاب وکٹ کیپرز میں سے ایک 


وکٹوں کے پیچھے ۔۔۔ کرمانی

ایک نام تھا سید مجتبی حسین کرمانی ۔۔۔ ہندوستانی کرکٹ میں وکٹوں کے پیچھے ایک وقت سب سے کامیاب نام تھا۔ وکٹ کیپر کے کردار میں کرمانی نے اپنا لوہا منوایا بلکہ ایک بیٹسمین کی شکل میں بھی وہ بہت کامیاب رہے۔ انہوں نے 1975میں ٹسٹ کرکٹ کا آغاز کیا تھا۔کرمانی نے 1971 اور 1974 میں انگلینڈ کے دوروں اور 1975 کے ورلڈ کپ میں فرخ انجینئر کے انڈر اسٹڈی کے طور پر شروعات کی۔ کرمانی نے اپنا ڈیبیو نیوزی لینڈ کے خلاف کیا اور اپنے دوسرے ٹیسٹ میں ایک اننگز میں چھ شکار کرنے کا عالمی ریکارڈ برابر کیا۔ جب نیوزی لینڈ نے اگلے سال ہندوستان کا دورہ کیا تو اس نے 65.33 کے ساتھ بیٹنگ اوسط میں سرفہرست رہا اور آسٹریلیا کے دورے میں 305 رنز بنائے۔ ۔88 ٹسٹ کھیل کر انہوں نے 2759رن بنائے تھے۔جن میں دو سینچریاں شامل تھیں۔وکٹ کے پیچھے ٹسٹ میں 198شکار پکڑے تھے جبکہ ون ڈے کرکٹ میں بھی49میچوں میں 36شکار پکڑے اور373رن بنائے تھے۔ کرمانی نے 1983 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں بہترین وکٹ کیپر کا ایوارڈ جیتا، جس کی خاص بات فاؤد بچس کا وہ کیچ تھا جو انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف فائنل میں لیا تھا۔ زمبابوے کے خلاف پہلے راؤنڈ کے میچ میں انہوں نے تین کیچز اور دو اسٹمپنگ کرکے اس وقت کا ریکارڈ برابر کیا۔ گھر پر ویسٹ انڈیز کے خلاف، اس نے سنیل گواسکر کے ساتھ شراکت کی - جس نے مدراس ٹیسٹ میں نویں وکٹ کے لیے 143* کے ریکارڈ اسکور میں 236* رنز بنائے۔ کرمانی ایک نچلے آرڈر کے قابل بھروسہبیٹسمین تھے اور ایک اور مثال کپل دیو کے ساتھ 1983 کے ورلڈ کپ میں زمبابوے کے خلاف نویں وکٹ کے لیے ناقابل شکست 126 رنز ہے جس میں کرمانی کا 26 رنز کا حصہ تھا۔انہیں 1982ء میں پدم شری سے نوازا گیا۔لیکن تین سال بعد آسٹریلیا کے دورے میں کرمانی کا سفر تھم گیا تھا۔

ونڈر بوائے کا ظہور

 ہندوستانی کرکٹ میں محمد اظہر الدین کا نام اس فہرست میں رہا جنہوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔  جب اظہر الدین نے کرکٹ کے افق پرچمکنا شروع کیا تو اس وقت کرمانی کا زوال تھا۔اظہر نے تین ٹسٹ میں لگاتار تین سینچریاں بناکر ‘‘ونڈر بوائے’’ کا اعزاز حاصل کیا تھا۔اس کے بعد وہ ملک کیم سب سے کامیاب کپتان بنے ۔1984میں کولکتہ میں اظہرالدین نے پہلا ٹسٹ ایڈن گارڈن میں کھیلا اور110رن بنائے ،وہ پہلے ٹسٹ میں سینچری بنانے والے آٹھویں ہندوستانی تھے ۔دوسری سینچری105 مدراس ٹسٹ میں اور تیسری122 کانپور ٹسٹ میں بنائی تو دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔اظہر الدین نے 9000ہزار سے زیادہ رن بنائے۔ان کا سب سے بڑا اسکور 199رن تھا ۔جس میں 22 سنچریاں اور 21 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ایک روزہ میں ان کا ریکارڈ زیادہ متاثر کن تھا، جس نے 334 میچوں میں 36.92 کی اوسط سے 9,378 رنز بنائے۔ بطور فیلڈر، ایک روزہ کرکٹ میں 156 کیچز لیے۔ اظہر کا کیرئر میچ فکسنگ کے چکر میں ہوا جس میں ان پر تاحیات پابندی عاہد کی گئی جو سزا کم اور کرکٹ آقاؤوں کا انتقام زیادہ تھا۔

awazurduونڈر بوائے محمد اظہر الدین 


awazurduراشد پٹیل،وسیم جعفر  اورارشد ایوب 


اس کے بعد ایک نام ارشد ایوب کا آیا تھا۔ایک ذہین اسپنر۔مگر بد قسمتی سے اہم مواقع پر کرشمہ نہیں دکھا سکے ،اس لئے13ٹسٹ میں ہی کیرئر سمٹ گیا۔جن میں اس نے41 وکٹ لئے اور257رن بنائے تھے۔ساتھ ہی31ون ڈے میں31وکٹ لی تھیں۔

 گجرات کے راشد پٹیل کا بہت ہی ناکام کیریئر رہا۔ ان کا واحد ٹیسٹ بمبئی میں نیوزی لینڈ کے خلاف 89 -1988 میں تھا۔

ممبئی کے وسیم جعفر نے  میں ٹیسٹ کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ 31 ٹیسٹ میں 1994 رن بنائے تھے جن میں  پانچ سینچریاں اور 11 ہاف سینچریاں تھیں

 الہ آباد کے نوجوان محمد کیف اپنی بیٹنگ سے زیادہ فیلڈنگ کے لیے شہرت رکھتے تھے۔13ٹیسٹ میں624 رن بنائے بلکہ 125 ون ڈے میں 2753 رن  بنائے ۔  محمد کیف اور محمد جعفر نے ہندوستانی کرکٹ میں نمائندگی کی اور بہت زیادہ کامیاب نہ ہونے کے باوجود ایک چھاپ چھوڑی ہے۔

بالنگ مںی دوسرا کپل ۔۔۔۔ ظہیر خان

 ظہیر خان ۔۔ موجودہ نئی نسل کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں ۔کپل دیو کے بعد انہیں ہندوستانی کرکٹ کا سب سے کامیاب فاسٹ بالر مانا جاتا ہے۔ظہیر خان نے 2000 تا 2014 ہندوستان کے کرکٹ کے تینوں فارمیٹ اپنی خدمات دیں۔ کرکٹ عالمی کپ 2011 کا اہم حصہ تھے جب ہندوستان نے عالمی کپ جیتا تھا۔ اس سال وہ 9 مقابلوں میں 21 لے کر کامیاب ترین بالرتھے۔ 2011 میں انہیں ارجن ایوارڈ  سے نوازا گیا۔ ان کا کرکٹ سفر متعدد زخموں اور چوٹ سے بھی عبارت ہے۔92 ٹیسٹ میں 311 وکٹ اور ون ڈے انٹر نیشنل میں 282 وکٹ لیے تھے

جاری 

awazurdu