اردو کے زوال کے ذمہ دار خود اہل زبان ہیں :ڈاکٹر شہاب افسر خان

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2024
اردو کے زوال کے ذمہ دار خود اہل زبان ہیں :ڈاکٹر شہاب افسر خان
اردو کے زوال کے ذمہ دار خود اہل زبان ہیں :ڈاکٹر شہاب افسر خان

 

شاہ تاج خان (پونے)

تھا عرش پہ اک روزدماغِ اردو

پامالِ خزاں آج ہے باغِ اردو

غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم

وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغِ اردو

                یہ شکوہ، یہ شکایت ڈاکٹر شہاب افسر خان کو بھی ہے کہ جب انہوں نے اپنے اسکول میں اردو کو بطور ایک مضمون شامل کیا تو بچوں کے والدین کی عدم دلچسپی نے انہیں حیران کر دیا ۔آواز دی وائس سے فون پر ہوئی گفتگو میں وہ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘خلیجی ممالک سے واپس آنے کے بعد جب میں نے جون 2018 میں ونچسٹر انٹرنیشنل انگلش اسکول کی بنیاد رکھی تو مجھے حیرانی کے ساتھ ساتھ بے حد افسوس ہوا کہ بچوں کے سرپرست خود بچوں کو اردوسبجیکٹ نہیں دلانا چاہتے تھے۔وہ اسے بچوں کے لیے غیر ضروری سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ ابتدا میں آٹھ ۔نو بچے اردو پڑھنے کے لیے آئے ضرور لیکن کچھ ہی عرصے میں یہ تعداد گھٹ کر صفر ہو گئی۔’’ڈاکٹر صاحب نے تیس سال سے زیادہ عرصہ ملک سے باہر مختلف اسکولوں میں بطور پرنسپل اپنی خدمات انجام دی ہیں۔جب افسر صاحب نے اپنے ملک، اپنے شہر میں تعلیم کا ایک معیاری مرکز قائم کرنے کا ارادہ کیا تو اُسے حقیقت کی شکل دینے میں ان کے تجربے نے بہت مدد کی۔پیشہ کے اعتبار سے معلم ہیں۔اورنگ آباد ،مہاراشٹر کے مشہورو معروف اداروں میں درس وتدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔واضح رہے کہ اورنگ آباد کے انگریزی اسکولوں جیسے سینٹ فرانس ڈے سیلیس ہائی اسکول،ہولی کراس انگلش ہائی اسکول،ماڈل ہائی اسکول وغیرہ میں انہوں نے اردو بطور سبجیکٹ پڑھائے جانے کی نہ صرف تجویز پیش کی بلکہ اُس کا باقاعدہ آغاز بھی کیا۔انگریزی میڈیم اسکولوں میں اردو پڑھانے کی ابتدا اور انتظام کرنے کا انہیں شرف حاصل ہے۔اس کے علاوہ ملک کے باہر جن اسکولوں میں ڈاکٹر صاحب نے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں وہاں بھی انہوں نے اردو زبان کو متعارف کرایا۔

گذشتہ دنوں ڈاکٹر شہاب افسر خان کو لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ دینے کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔آل انڈیا علماء بورڈ کی جانب سے اورنگ آباد میں ‘‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ’’پروگرام کا مولانا آزاد ریسرچ سینٹر میں انعقاد کیا گیا ۔ تعلیم نسواں اور خاص طور پر مسلم لڑکیوں کی تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر منعقدہ تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں خواتین کی عزت کرنے اور بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ‘‘ہمارا نعرہ ہے کہ بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی کو آگے بڑھاؤ۔لہذا اس مشن کے تحت ہم نے اپنے اسکول میں لڑکیوں کی تعلیمی فیس نصف کر دی ہے۔’’

بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا

ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

                درس و تدریس سے وابستہ رہے ڈاکٹر شہاب افسر خان کو زمانہ طالبِ علمی سے ہی افسانے اور خاکہ لکھنے کا شوق رہا ہے۔اُن کے اب تک دو افسانوی مجموعے ‘‘میرے افسانے’’ اور ‘‘دلِ ناداں’’شائع ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر افسر کا کہنا ہے کہ‘‘میں پیشے سے معلم ہوں ،منتظم بھی ہوں اور میرا مشغلہ افسانے اور افسانچے لکھنا ہے۔معاش کے سلسلے میں گلف میں اپنی ذمۃ داریاں نبھاتے ہوئے ادب سے کافی عرصے تک دور رہا لیکن جیسے ہی کچھ فرصت ملی تو قلم سنبھال لیا۔’’ڈاکٹر صاحب کے لکھے افسانے اور مضامین اردو کے جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔بے حد مصروف ہونے کے باوجود ڈاکٹر صاحب لکھنے کے لیے وقت نکال لیتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ وقت ملتا نہیں، نکالنا پڑتا ہے۔

awazurdu

 

ڈاکٹر صاحب کی تحریریں روایتی ڈگر پر نہیں چلتیں بلکہ ان کی اپنی ایک الگ پگڈنڈی ہے جس پر اُن کا قلم دوڑتا نظر آتا ہے۔ جا بجا انگریزی الفاظ کا استعمال اور ملک و بیرونِ ممالک کے مشاہدات و تجربات کی جھلک اُن کی تحریروں میں سیاحتی ذوق کاپتہ دیتی ہے۔وہ خود کہتے ہیں کہ مجھے سیاحت کا بہت شوق ہے۔یہی سبب ہے کہ اُن کی تحریروں میں دیگر ممالک کے تہذیبی عناصر بھی جگہ پاتے ہیں۔ جو انہیں اپنے ساتھی ادباء کے درمیان منفرد اندازِبیان کے ادیب کی حیثیت سے متعارف کرانے میں معاون و مددگار بنتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب ایک معلم ،ایک ماہرمنتظم کی حیثیت سے تو قوم کی خدمت کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی وہ اپنے قلم سے اردو سے اپنی وابستگی کا احساس بھی کرا تے ہیں۔

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

                اردو کا ذوق رکھنے والے افسر صاحب آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘میں نے جب اورنگ آباد کے متعدد انگریزی میڈیم اسکولوں میں اردوکوبطور سبجیکٹ متعارف کرایا تواسکول انتظامیہ اور لوگوں نے بہت دلچسپی دکھائی تھی ۔ بیرونِ ممالک میں بھی اردو زبان پڑھنے والوں کی دلچسپی سے میں واقف تھا اس لیے جب میں نے اپنا اسکول قائم کیا تو مجھے یقین تھا کہ بچوں کے سرپرست اردو مضمون کا خیر مقدم کریں گے ا ور اپنے بچوں کو اردو زبان سیکھنے کی ترغیب دیں گے،مگر لوگوں کے رویہ سے میں بہت دل برداشتہ ہوا۔حالات دیکھ کر میں نے داخلہ فیس میں رعایت دینے کی بات کہی اور بھی متعدد مراعات دینے کا اعلان کیا، مگر والدین کی عدم دلچسپی نے مجھے مایوس کیا۔’’ وہ آگے کہتے ہیں کہ میں نے ہار نہیں مانی ہے ۔اگلے نصابی سال میں مزید مراعات کا اعلان کروں گا۔میں اور میری ٹیم اِس ضمن میں کام کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ ونچسٹر انٹر نیشنل اسکول اورنگ آباد میں اپنے معیار ی تعلیم کے سبب مختصر وقت میں ہی لوگوں کے درمیان اپنی ایک پہچان بنانے میں کامیاب رہا ہے۔

                ڈاکٹر افسر اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو کا موجودہ منظر نامہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے ،وہ سمٹتا جا رہا ہے۔جب ہمارے بچے،نئی نسل ہی اردو نہیں سیکھے گی تو مستقبل میں اردو کی نشوونما اور فروغ کی ذمّہ داری کون سنبھالے گا؟وہ مزید کہتے ہیں کہ کیا ہمارے گھروں میں اردو کی کوئی اہمیت ہے؟کیا ہم اس کی پاسبانی کر رہے ہیں؟اور سب سے اہم سوال کہ کیا ہماری نئی نسل اردو زبان کو اپنانے اور سیکھنے کے لیے تیار ہے؟ڈاکٹر افسر کہتے ہیں کہ‘‘میں نے تین مہینے تک اردو سیکھنے کی خواہش رکھنے والے طلبا کا انتظار کیا۔اردو کے استاد کو تنخواہ دی،مگر سب بے سود ثابت ہوا۔’’واضح رہے کہ اردو کے ادبی حلقوں سے ایک طویل عرصے سے یہ آوازیں اٹھتی رہی ہیں، خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں، کہ اردو کا قاری گُم ہو گیا ہے، اردو مر رہی ہے ،توکہیں جس صورتِ حال کا ذکر ڈاکٹر شہاب افسر خان کر رہے ہیں وہ اسی خدشہ کا ثبوت تو نہیں!

تعلیم سے ہی بدلے گی قوم کی تقدیر

                اورنگ آباد کے ماڈل اسکول کے بانی پرنسپل رہے ڈاکٹر شہاب افسر کو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت جلد خلیجی ممالک میں اپنی خدمات انجام دینے کا موقع ملا ۔انہوں نے عمان،ریاض،شارجہ،ابوظہبی وغیرہ کے متعدد اسکولوں میں بطور پرنسپل اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک بہترین منتظم کی حیثیت سے خود کو ثابت کیا۔ مشاہدات و تجربات نے ڈاکٹر افسر کو اپنے ملک واپس آنے کے بعد بھی آرام کی مہلت نہیں دی۔ہندوستان واپس آنے کے چند ماہ بعد ہی انہوں نے اورنگ آباد میں ونچسٹر انٹر نیشنل انگلش اسکول کی بنیاد رکھی۔کل اور آج کے بچے اور بچپن کے تعلق سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اپنے تجربے کی بنیاد پر آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران کہا کہ‘‘تبدیلی دو طرح کی ہوتی ہے،ایک مثبت اور ایک منفی۔آج کے بچوں میں، میں نے دونوں ہی طرح کی تبدیلیاں محسوس کی ہیں۔مثبت تبدیلی اس لحاظ سے کہ آج کے بچے ٹکنالوجی کے میدان میں پیچھے نہیں ہیں۔اور منفی اِس حساب سے کہ آج کے بچوں میں اخلاقیات کی بے حد کمی واقع ہو گئی ہے۔’’وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

                اِس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب ماحول کے تئیں نہ صرف بیدار ہیں بلکہ اپنی ذمّہ داری کوسمجھتے بھی ہیں ۔اِس تعلق سے اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ‘‘ماہرِ تعلیم ہونے کی حیثیت سے میں نے اپنے اسکول کا انفراسٹرکچر ماحولیاتی بقا کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بنایا ہے۔جس میں سولر پینل سے بجلی،جبکہ بارش کے پانی سے اسکول میں پانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔’’اُن کے اسکول میں نہ صرف اکیڈمک بلکہ آرٹ ، میوزک اور کھیلوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ بچوں کی مجموعی صلاحیتوں کو باہر لایا جا سکے اور وہ مستقبل میں ایک بہتر شہری کی حیثیت سے ملک وقوم کی خدمت کر سکیں۔بچوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے صرف طلبا و طالبات پر ہی کام نہیں کیا جاتا بلکہ اساتذہ کی صلاحیتوں پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔

awazurdu

 

ڈاکٹر صاحب نے زور دے کر کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہمارے ساتھی ،ہمارا اسٹاف بھی خود کو اپڈیٹ کرتا رہے اِس کے لیے طلبا و طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے مواقع میسر کیے جاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا ماننا ہے کہ جب تک اساتذہ خود کو جدید معلومات سے منسلک نہیں کریں گے تب تک وہ بچوں کی وقت کے مطابق ضرورت کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ڈاکٹر افسر کہتے ہیں کہ‘‘ہر طالبِ علم کی ذہنی صلاحیت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔اس کے علاوہ وہ مانتے ہیں کہ ہر معلم کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ بچے کے ذہن کو تعمیری کاموں کی جانب راغب کرنے میں مددگار بنیں ۔بچے کے ذہن میں ناکامی کے ڈر کے پودے کو اُگنے کا موقع نہ دیں۔بچے کو اُس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر مستقبل کی تیاری کے لیے اُسے تیار کریں۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ‘‘میری یہ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ مختلف پیشوں اور شعبوں سے اپنے اسکول کے بچوں کو متعارف کراتا رہوں۔تاکہ بچوں کے پاس اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر فیلڈ کا انتخاب کرنے میں آسانی ہو۔’’ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ ایک اسکول اور ایک استاد کی ذمّہ داری صرف نصاب پڑھا دینے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ایک بچے کے ذہن کو سوچنے سمجھنے کے قابل بنا کر اُس کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی بھی ہوتی ہے۔وہ مانتے ہیں کہ وہ علم ،علم کہلانے کے لائق نہیں جس میں ارتقاء کا عنصر نہ ہو۔اور یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ علم کا ارتقاء روشنی کی رفتار سے جاری ہے۔ہمیں اُس کے ساتھ چلنے کے لیے خود کو اور نئی نسل کو تیار کرنا ہوگا۔

یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے

                اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ بچوں کے لیے اور بچوں کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ نسلِ نو کو اپنا پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘میں نئی نسل سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ٹکنالوجی کے اِس دور میں اپنے اخلاقیات کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ٹکنالوجی کبھی بھی اخلاق کا نعم ا لبدل نہیں ہوسکتی۔اپنے والدین ،اساتذہ،اور بڑوں کا احترام کریں۔لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالا جائے کہ ہم مصنوعی ذہانت میں پیچھے رہیں۔ٹکنالوجی اپنی جگہ ہے اور اخلاقیات اپنی جگہ۔’’ڈاکٹر شہاب افسر خان آج کے بچے کی تعلق سے پروین شاکر کی غزل کا یہ شعر پڑھتے ہیں کہ

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں

بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

                ایک ماہرِ تعلیم،معلم ،منتظم اور ایک ادیب کی حیثیت سے ڈاکٹر شہاب افسر خان کا سفر جاری ہے ۔وہ لگاتار کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔وہ اردو کے مستقبل سے نا امید نہیں مگر مایوس ضرور ہیں۔لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہے۔انہیں امید ہے کہ اسکول کے اگلے سیشن میں بچے اردو کو بطور مضمون اختیار کرنے میں دلچسپی لیں گے ۔کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی۔اور میں کوشش کرتا رہوں گا۔