محمد سراج: کرکٹ مداح سے دنیا کا نمبرون بالر بننے تک کا سفر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 31-01-2023
محمد سراج: کرکٹ مداح سے دنیا کا نمبرون بالر بننے تک کا سفر
محمد سراج: کرکٹ مداح سے دنیا کا نمبرون بالر بننے تک کا سفر

 

 

عبدالرحمن پاشا/حیدرآباد

           معروف سائنس دان و سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کا مشہور قول ہے کہ ”خواب وہ نہیں ہے جو آپ نیند میں دیکھیں، خواب وہ ہے جو آپ کو نیند ہی آنے نہ دے“۔ محمد سراج اس کی عملی مثال بن گئے۔ اب وہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے نمبر ون بالر بن گئے ہیں۔

ہندوستانی تیز رفتار بالر محمد سراج نے نیوزی لینڈ کے تیز گیند باز ٹرینٹ بولٹ کے گیند بازوں کے لیے ایم آر ایف ٹائرز آئی سی سی مردوں کی ون ڈے پلیئر رینکنگ میں نمبر 1 مقام حاصل کرکے 12 ماہ کی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ محمد سراج کے لیے یہ ایک قابل ذکر اضافہ ہے، جو بین الاقوامی سطح پر 50 اوور کا میچ کھیلے بغیر تین سال کے وقفے کے بعد پچھلے سال فروری میں ہندوستان کے ون ڈے سیٹ اپ میں واپس آئے تھے۔ اس کے بعد سے سراج نے 20 میچوں میں 37 وکٹیں حاصل کر کے ہندوستان کے سب سے مستقل تیز گیند بازوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔

            منگل 19/جنوری2021 کا دن ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بڑا تاریخ ساز اور عظیم ترین دن رہا۔ کیونکہ اسی دن ہندوستان کی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا میں شاندار انداز میں کھیل کر خود آسٹریلیا کی ٹیم کو تقریبا 32برس بعدہرا دیا اور اپنی زبردست فتح درج کرائی۔  بارڈر گاوسکر ٹرافی کے چوتھے ٹیسٹ میچ میں بھارتی ٹیم نے میزبان آسٹریلیا کو تین وکٹوں سے شکست دے کر سیریز 1-2 کو اپنے نام کر لیا۔

آسٹریلیا میں واقع گابا انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میچ کے پانچویں روز بھارتی ٹیم نے آسٹریلیائی ٹیم کے 328 رنز کے ہدف کا تعاقب کیا اور جملہ 329 رنز بنا کر یہ میچ اپنے نام کرلیا۔ بھارتی ٹیم میں رشبھ پنت، چیتیشور پجارا اور شبھمن گل کی شاندار بلے بازی کی بدولت اس طرح کی زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ٹیم انڈیا میں شامل نمایاں نام اور تیز گند باز محمد سراج نے بھی اپنا کلیدی ادا کیا۔محمد سراج نے آسٹریلیا کے خلاف بھارت کے لیے سب سے زیادہ یعنی 13وکٹیں حاصل کی۔جس کے بعد ان کی عالمی سطح پر ایک منفرد پہچان بن گئی۔

awazurdu

اسی بنا پر محمد سراج کی نمایاں کارکردگی کو سرہانے کے لیے کرکٹ فیڈریشن آف انڈیا (سی ایف آئی) نے اعلان کیا ہے کہ ایک تقریب منعقد کر کے محمد سراج کو اہم اعزاز سے نواز جائے گا۔ تو وہیں بورڈ آف کنٹرول اینڈ کرکٹ ان انڈیا(بی سی سی آئی) کے صدر سورو گنگولی نے بھارتی ٹیم کی کامیابی کو ناقابل فراموش تاریخ قرار دیا ہے۔

محمد سراج کو مہندرا اینڈ مہندرا کی جانب سے اس کے چیرمین آنند مہندر نے تہارایس یو وی کار تحفہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ آنند مہندرا نے سوشل میڈیا پر ہندوستانی نوجوان کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی کی دل کھول کر ستائش کرتے ہوئے محمد سراج کے علاوہ پانچ دیگر نوجوان کھلاڑیوں شبھمن گل، این انڑاجن، شردول ٹھاکر، نودیپ سائنی اور واشنگٹن سندر کو بھی یہ کار تحفہ میں دینے کا اعلان کیا ہے۔(24/جنوری)

محمد سراج کی جستجو اور کارکردگی

           حیدرآباد کے ٹولی چوکی سے تعلق رکھنے والے محمد سراج کا ٹیم انڈیا میں کھیلنا کئی اعتبار سے منفرد رہا اور بہت چیلنجنگ بھی، اس کے لیے کہ کھیل کے دوران ان کے والد گرامی کا انتقال ہوگیا، جو کہ سراج کا سب سے بڑا سہارا تھے۔ والد کے انتقال کے بعد انھیں آپشن بھی دیا گیا کہ وہ چاہے تو میدان چھوڑ کر اپنے والد کے دیدار اور نمازہ جنازہ کے لیے حیدرآباد جاسکتے تھے، لیکن انھوں نے اس سے منع کردیا اور اپنے ملک کے لیے کھیلنے کو سب سے زیادہ ترجیح دی۔

ابھی سراج اس غم سے دوبھر بھی نہیں ہوئے تھے کہ انھیں آسٹریلیا میں نسلی بنیادوں پر نکتہ چینیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کئی لوگوں نے ان کے نام اور شخصیت کی بنا پر طرح طرح کے فقرے کسے اور ان کی ہتک عزت بھی کی گئی، لیکن سراج کا مطمع نظر ایک تھا۔ سراج نے راہ کی اس الجھنوں پر کبھی توجہ منتشر نہیں کی۔ انھیں اپنے مقصد سے جنون کی حد تک عشق ہے۔

          محمد سراج کی پیدائش 13/مارچ1994کو حیدرآباد میں ہوئی۔ ان کا بچپن غریبی اور نامساعد حالات میں گزرا۔ انھیں بچپن ہی سے کرکٹ کھیلنے کا شوق رہا۔ سراج نے اپنے شروعاتی دور ہی سے جی جان لگا کر زبردست محنت کی۔ ان کے والد محمد غوث کا بھی خوب تھا کہ ان کا فرزند بھارت کی ٹیم کے لیے کھلیں اور پوری دنیا میں حیدرآباد کے ساتھ ساتھ ملک کا نام روشن کرئے۔

محمد سراج نے اپنے کیریئر کا آغاز ٹینس بال کرکٹ سے کیا۔ اس دوران وہ چامینار کرکٹ کلب (سی سی سی) میں ایک بلے باز کی حیثیت سے جوائن ہوئے اور ساتھ ساتھ انھوں نے ایک بہترین اور تیز گیند باز کے طور پر اپنی منفرد پہچان بھی بنائی۔ اس کے بعد انھوں نے سنہ 16-2015 میں حیدرآباد کے لیے رجنی سیزن میں ڈیبیوٹ کیا اور سنہ 17-

2016میں حیدرآباد کے لیے سب سے زیادہ ویکٹ لینے والے کھلاڑی بن گئے۔

awazurdu

والد کے خواب کو فرزند نے حقیقت میں بدلا

         والدین اپنی اولاد کے لیے خوب دیکھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بہتر سے بہتر زندگی گزارے۔ ان کی اولاد جس کسی شعبہ میں رہے، اس میں اعلی سے اعلی ترین کامیابی حاصل کرے۔ اسی بنیاد پر وہ اپنی اولاد پر فخر بھی کرتے ہیں اور یہ اولاد اپنے والدین کے لیے چین و سکون، عزت وشہرت اور قلبی اطمینان کا باعث بنتی ہے۔

محمد سراج کے والد محمد غوث آٹو رکشا ڈرائیور تھے۔ ان کا ذاتی مکان نہیں تھا بلکہ وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ مگر اپنی اولاد کے سلسلے میں ان کی امیدیں، آرزویں اور خواب بہت بلند تھے۔ وہ آٹو رکشا ڈرائیور تو تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے سواریوں کو منزلِ مقصود تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے فرزند محمد سراج کو اعلی مقام تک پہنچانے کے خواب بھی دیکھا کرتے۔

انھیں لگتا کہ جیسے میں اپنے سواریوں کو ان کے مقام تک پہنچا رہا ہوں، اسی طرح میرا فرزند بھی ایک دن مقام بلند تک پہنچے گا۔ وہ بھی اپنے سفر کا راہی ہے۔ اسے بھی ایک طویل سفر طئے کرنا ہے۔ یہ سفر مرحوم محمد غوث کا خواب تھا، جسے محمد سراج نے بھارتی ٹیم کے لیے کھیل کر پورا کیا۔ اس سے قبل سراج نے سب کو اس وقت چونکا دیا، جب سنہ 2017 میں انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلنے کے لیے سَن رائزس حیدرآباد نے انھیں 2.6 کروڑ روپیے میں اپنی ٹیم کے لیے منتخب کیا۔

          آسٹریلیا میں میچ کے دوران ان کے والد محمد غوث کا 20/نومبر2020 کوانتقال ہوگیا۔ یہ محمد غوث (مرحوم) ہی تھے۔ جنہوں نے اپنے ہونہار فرزند کو بچپن ہی سے ایک خواب دیکھایا۔ جس کو وہ پورا کرنے میں لگے رہے۔ جب سراج نے اپنے والد کے اس خواب کو پورا کیا تو ان کے والد اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس لیے انھیں میچ کے دوران اپنے والد کی جدائی کا شدید غم ہوا، وہ جذباتی کرب میں مبتلا ہوئے۔

سراج کے بڑے بھائی محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس غیر متوقع موقع پر بھی ان کی والدہ ماجدہ نے انھیں سہارا دیا اور صبر کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی تاکید کی۔ یہی وجہ ہے کہ سراج آسٹریلیا سے واپسی کے فوری بعد 21/جنوری2021 کوراجیو گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں اترتے ہی قبرستان چلے گئے، جہاں ان کے والد مدفون ہے۔

انھوں نے اپنے والد کی قبر پر گل ہائے عقیدت پیش کیا اور دعائے مغفرت کی۔ مانو ایسا لگ رہا تھا کہ سراج کہہ رہے ”ابّا آپ دیکھنا چاہتا تھے نا کہ میں بھارتی ٹیم کے لیے کھیلوں۔ ابّا میں نے آپ کے اس خوب کو پورا کرنے کی جی جان سے کوشش کی۔ ابّا میں نے بھارتی ٹیم کے لیے کھیل کر دنیا بھر میں بھارت کا سر بلند کیا ہے۔ ابّا آپ کے خواب کو میں نے حقیقت میں بدل دیا۔

awazurdu

 

ابا جی! میں آپ کے خواب کو پورا کرنے اور بھارت کے لیے کھیلنے کے جذبہ کے تحت آپ کی نماز جنازہ سے بھی محروم رہا۔ ابا آپ نے ہی تو میری پرورش کر کے مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ابا آپ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ لیکن میں ہمیشہ آپ کو یاد رکھوں گا۔۔ ابا اللہ تعالٰی آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین

جوانوں کو خواب دیکھائیے

            محمد سراج کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سراج کو محض 26 برس کی عمر میں اتنی بڑی کامیابی کیسے ملی؟۔ کیسے وہ ایک مقامی نوجوان سے ایک عالمی شہرت یافتہ تیز گیند باز بن گئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ ان کی اپنی جستجو ہے، ان کی اپنی محنت ہے، ان کی اپنی لگن ہے، ان کا اپنے پیشے سے بے پناہ محبت و تعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی سینے میں اس طرح کی چنگاری کس نے پیدا ہے؟۔ اس بارے میں سراج کا بار بار کہنا ہے کہ”میرے والد کا خواب تھا کہ میں ٹیم انڈیا کے لیے کھیلوں“۔ والد کا یہی خواب سراج کے لیے زبردست تحریکبن گیا۔

جس کو پورا کرنے میں وہ لگ گئے۔

           معروف نیو کلیر سانئس دان و سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام (پیدائش: 15/اکتوبر1931۔ وفات 27/جولائی 2015) کا مشہورقول ہے کہ ”خواب وہ نہیں ہے جو آپ نیند میں دیکھیں، خواب وہ ہے جو آپ کو نیند ہی نہیں آنے دے“۔ سراج اس کی عملی شکل بن گئے۔ اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ معمولی کاموں اور چند پیسوں کے لیے کم عمر بچوں کو کسی کام پر لگادیا جاتا ہے۔ جس سے وقتی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے، لیکن بچے کا ذہن مفقود ہوجاتا ہے اور وہ شروع ہی سے حقیر چیزوں کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ اس کے پاس کوئی واضح مقصد ہوتا ہے اور نہ وہ کوئی بڑاخواب دیکھ سکتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو بچپن ہی سے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ان کی تربیت اس انداز میں ہو کہ وہ اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرسکیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کم عمر لوگوں نے ہی دنیا میں بڑے بڑے کام کردیکھائے ہیں۔ وہ اس لیے ہو پایا ہے کہ ان کے بچپن ہی سے انھیں اس طرح کی تربیت ملی تھی۔

ان کے بڑوں نے انھیں بامقصد زندگی جینے کا سلیقہ سکھایاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کن چیزوں میں زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ کون سے ایسے شعبے ہیں، جن میں وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے ترقی کرسکتے ہیں۔ اس لیے بڑوں کا تجربہ اور جھوٹوں کی جدت ضروری ہے۔

          محمد سراج کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ انھیں دنیا کو اپنی کارکردگی دیکھانی پڑتی ہے۔ تب ہی ان کی قدر میں اضافہ ہوگا۔محمد سراج کی اس شاندار کامیابی سے بہت سے نوجوانوں میں امید کی نئی کرنیں پیدا ہوئی ہیں۔ اگر کسی کے اندار صلاحیت، بہترین کارکردگی اور مقابلہ کرنے کی قوت ہے، تو دنیا اس کا استقبال کرتی ہے، بس ضرورت ہے کہ وہ آگے بڑھ کر کسی بھی شعبہ میں اپنی اہمیت کو منوائیں۔ بقول علامہ اقبال:

تو رہ نورد شوق ہے، منزل نہ کر قبول

لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول