عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی
لکھنؤ کیمپس۔
دلی کی تاریخ و ثقافت اور معاشرت کے بارے میں امیر خسرو (1253۔1325)کے شاعرانہ خیالات ان کے دلی جذبات کے آئینہ دار ہیں۔دلی سے ان کے جذباتی لگاؤ کا اندازہ ان کے اشعار سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہی جذباتی تعلق وطن دوستی اور وطن پروری کے اولین نقوش قائم کرتا ہے۔دہلی کو حضرت دہلی سے مخاطب کرنا بھی اسی سرشار طبیعت اور محبت کی دلیل ہے۔خسرو نے دلی ہی کیا ہندستان،یہاں کے موسم،پھل اورآب و ہوا نیز یہاں کے مکینوں کے بارے میں جو کچھ لکھاہے اس سے اس عہد کی عام معاشرت اور ثقافت کا خاکہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔سفرنامے عہد وسطی کے ہندستان کاایک معتبر مآخذ ہیں۔اور بہت سی تاریخی و ثقافتی کڑیوں کو سفرنامو ں سے ہمارے مورخوں نے مربوط کرنے کی کوشش کی ہے۔دلی کی تاریخ و تہذیب کو بھی اشعارِخسرو کے تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ خسرو کے اندر شاعر کے ساتھ ساتھ ایک مورخ بھی چھپا بیٹھا ہے۔خسرو کی بیشتر تصنیفات تاریخ و ثقافت کے شعور اور بیان سے مالا مال ہیں۔ اگر مفتاح الفتوح /تاج الفتوح نہ ہوتی تو جلال الدین فیروز شاہ کی فتوحات اور اس عہد کے بعض اہم واقعات ہم تک نہیں پہنچتے۔اسی طرح خزائن الفتوح صرف علاء الدین کی فتح یابیوں کی داستان نہیں ہے بلکہ ایک پورا عہد ہے جو اس کتاب کے توسط سے دریافت ہوا ہے۔علاء الدین خلجی کے سولہ سالہ عہد کے سیاسی ومعاشرتی حالات پر اسے تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ ادب کو تاریخی شعور اور تاریخ کو ادبی شہ پارہ کی حیثیت عطا کرنے میں خسرو اپنی مثال آپ ہیں۔
خسرو کی سب سے پہلی مثنوی قران السعدین ہے۔یہ تین ہزار نو سو چوالیس اشعار پر مشتمل ہے۔ اودھ میں سرجو دریا کے کنارے باپ بیٹے (سلطان معزالدین کیقباد۔ ناصرالدین بغراخان)کی شاہی آداب کے ساتھ ملاقات کو امیر خسرو نے سلطان کی خواہش پر نظم کیا۔اور کیقبادکو 1289میں یہ مثنوی پیش کی۔چونکہ اس میں دلی کا ذکر کثرت سے ہے۔غالباً اسی لیے بعض محققین نے لکھا ہے کہ قران السعدین کے بعض نسخوں پر اس کا نام’مثنوی درصفت دہلی‘ لکھا ہوا پایا گیا ہے۔(”امیر خسرو کی دہلی“، ڈاکٹر شریف حسین قاسمی مشمولہ امیر خسرو مرتب سید اطہر شیر،ادارہ تحقیقات عربی وفارسی، پٹنہ، بہار۔ 1984)
اس میں خسرو نے مسجد قوۃ الاسلام،قطب مینار، حوض سلطانی/شمسی کے علاوہ دلی کی مشہور عمارتوں اور یہاں کے تین حصاروں کا بھی ذکر ہے۔مثنوی میں دہلی کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ اس کی بعض خصوصیات کے تناظر میں اسے باغ ارم قرار دیا گیا ہے۔اس شہر کے گردو پیش میں باغات کا ذکرکیا گیا ہے۔شہر کی آبیاری جمنا سے ہوتی ہے۔دہلی کی شہرت ہر طرف ہے۔خسرو نے لکھاہے کہ اپنی انھیں خصوصیات کے سبب یہ قبتہ الاسلام بن گیا ہے۔ قاضی منہاج سراج نے خسرو سے پہلے دہلی کو قبتہ الاسلام کا نام دیاہے۔(حوالہ سابق)
مسجد قوت الاسلام،قطب مینار اور حوض شمسی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔خسرو نے مسجد قوت الاسلام کو جامع مسجد کہا ہے۔اس کا شمار دلی کی قدیم مساجد میں کیا جاتا ہے یہ قطب مینار کے پاس ہے۔مسجد کے تئیں مقامی لوگوں کی عقیدت کا عالم یہ ہے کہ خسرو کے بقول یہاں کے لوگ اسی کو اپنا کعبہ سمجھتے ہیں۔ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفرنامے میں اس مسجد کا ذکر کیا ہے۔
دہلی کی جامع مسجد بڑی وسییع ہے۔اس کی دیواریں اور چھتیں اور فرش ہر ایک چیز تراشی ہوئی سفید پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ جس کو سیسہ لگاکر جوڑلگایا ہے۔اور لکڑی کا کہیں نام نہیں ہے۔اس میں تیرہ گنبد ہیں جو پتھر کے ہیں اور منبر بھی پتھر کا ہے چار صحن ہیں اور اس کے وسط میں ایک لاٹ ہے۔معلوم نہیں کس دھات کی بنی ہوئی ہے کسی نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ ہفت جوش یعنی ساتوں دھاتوں کو جوش دے کر ان سے لاٹ بنائی گئی ہے کسی نے اس لاٹ میں سے انگل بھر ٹکڑا تراشا ہے وہ جگہ نہایت چکنی ہے۔لوہا اس میں اثر نہیں کرتا۔اس کا طول تیس ہاتھ کا ہے۔جو میں نے اپنی پگڑی سے ناپا تھا۔(سفرنامہ ابن بطوطہ،مترجمہ رئیس احمد جعفری،ص:515نفیس اکیڈمی کراچی)
مسجد کا ذکر خسرو نے اس طرح کیا ہے۔
مسجد او جامع فیض الہ
زمزمئہ خطبئہ او تا بماہ
غلغل تسبیح بگنبد دروں
رفتہ ز نہ گنبد والا بروں
درنہ سقفش زسماتا زمیں
نصب شدہ جملہ ستوں ہائے دیں
خزائن الفتوح میں خسرو نے علاء الدین خلجی کے تعمیری کاموں کا ذکر کیاہے۔چونکہ علاء الدین خلجی نے اس مسجد کی بھی توسییع اور مرمت کا کام کیا تھا اور وہ دوسرے مینار کی تعمیر کا بھی ارادہ رکھتا تھا جو پہلے مینار سے ہر لحاظ سے بہتر اور عالی شان ہو۔دوسرے مینار کی تعمیر کے لیے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ قرب و جوار سے پتھر بھی لائے گئے تھے۔خزائن الفتوح سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر اس مسجد کی تعمیر کی گئی جس کی حالت خستہ تھی۔ان کے بقول شہری اور دیہی علاقوں کی مسجدوں کی مرمت کا مقصد یہ تھا کہ تمام دنیا تسبیح اور اذان کی آوازوں سے گونج اٹھے۔
اس نے (علاء الدین خلجی)نیک کام کی ابتدا دارالسلطنت (دلی)کی مسجد جامع(مسجد قوۃ الاسلام)سے کی۔اس نے حکم دیا کہ تین قدیم (پہلے سے بنے ہوئے)مقصوروں میں چوتھے مقصورے کاا ضافہ کیا جائے۔یہ مقصورہ اتنے (اونچے)ستونوں کا سہار دے کر بنایا جائے کہ اسے آسمان دوسرا بیت المعمور (کہتے ہیں کہ چوتھے آسمان پر بیت المعمور نام کی ایک مسجد ہے جو فرشتوں سے بھری رہتی ہے)کہہ کر پکارے (دلی کے آثار قدیمہ،فارسی تاریخوں میں خلیق انجم (مرتبہ)ص:164۔اردو اکادمی دہلی 2003)۔
ّؓقطب مینار کا شمار ہندستان کی منفرد اور اپنے طرز کی خاص عمارتوں میں ہوتاہے۔خسرو کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بالائی منزل سنہری تھی اور قبے کابالائی حصہ سونے کا تھا۔خسرو نے فخریہ لکھا ہے کہ اس کوساتوں آسمان تک پہنچانے والی سیڑھی اور آسمان کو سنبھالنے والا ستون بھی کہتے ہیں۔مینار کے چاروں طرف قرآنی آیات کندہ ہیں۔
حوض شمسی،اس کو سلطان شمس الدین التتمش نے 1229میں بنوایا تھا۔امیر خسرو لکھتے ہیں ”یہ دو پہاڑوں کے درمیان واقع تھا اس کا پانی صاف اور شفاف تھا۔شفافیت کا یہ عالم تھا کہ رات کے وقت بھی اس کی تہہ کی ریت دکھائی دیتی تھی“۔پہاڑی زمین ہونے کی وجہ سے اندر جذب نہیں ہوتا تھا بلکہ پہاڑوں سے ٹکراتا تھا۔شہر کے لوگ اسی کا پانی پیتے تھے۔درمیان میں ایک چبوترہ تھاشہر کے لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے تھے۔پروفیسر شریف حسین قاسمی نے اس حوض کے بارے میں لکھا ہے:
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسی حوض کے آس پاس متعد بزرگ و اولیا اللہ عبادت میں مشغول رہتے تھے اوائل وبعد کے علماء و مشائخ کی نظر میں حوض سلطانی کی بڑی عظمت تھی حضرت نظام الدین اولیا یہاں عبادت و ریاضت کے لیے تشریف لاتے تھے...شمسی دور کے شیخ الاسلام شیخ نجم الدین صغری اور مولانا برہان الدین محمود بن ابو الخیر بلخی اسی حوض کے کنارے دفن ہیں۔مولانا برہان الدین جہاں دفن ہیں اس قطعہئ آراضی کو تختہ نور کہتے ہیں۔یہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے معاصر ہیں۔ان دونوں بزرگوں کے علاوہ شیخ نورالدین مبارک غزنوی مرید شیخ شہاب الدین سہروردی،قاضی سعد و قاضی عماد اور شیخ رکن الدین فردوسی کے مرید و خلیفہ شیخ نجیب الدین فردوسی اسی حوض کے آس پاس دفن ہیں (امیر خسرو کی دہلی،ڈاکٹر شریف حسین قاسمی ص:118مشمولہ امیر خسرو مرتب سید اطہر شیر ادارہ تحقیقات عربی وفارسی، پٹنہ، بہار۔ 1984)
خسرو کی دلی کا ذکر صوفیا کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس زمانے میں صوفیا کرام اور ان کی خانقاہوں کو خاصی اہمیت حاصل تھی۔ ان میں سب سے مرکزی حیثیت یا بلند مرتبہ صوفی نظام الدین اولیا کو حاصل تھا۔ ان کی بہت ساری خوبیوں میں سب سے اہم چیز خوش خلقی تھی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ عام لوگ متاثر ہوتے تھے بلکہ علما اور صوفیا کے اندر حضرت نظام الدین اولیا کی شخصیت اور ان کے سادہ انداز گفتگوسرایت کرجاتی تھی۔ کیونکہ شیخ نظام الدین اولیا خدمت خلق کو عبادت سے افضل جانتے تھے۔ ان کی یہ بھی تعلیم تھی کہ ترک دنیا سے مطلب دنیا سے فرار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر حلقے میں مقبول تھے۔
اسی عہد میں ایک اہم صوفی شیخ ابوبکر طوسی حیدری بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جمنا کے کنارے اپنی خانقاہ بنائی تھی اور اس میں محفل سماع کا اہتمام کرتے تھے۔ ڈاکٹر سید اطہر عباس رضوی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ”شیخ ابوبکر طوسی حیدری اور ان کے شاگردوں کی مرضی سے ایک اہم صوفی سیدی مولا کا دردناک قتل دور جلال الدین خلجی کا ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ سیدی مولا ہلمند سے آئے تھے۔ انھوں بابا فرید گنج شکر کے دربار میں ایک عرصے تک حاضری بھی دی تھی۔ بابا نے تاکید کی تھی کہ سیاست اور والیان ملک سے واسطہ نہ رکھنا۔ عہد بلبن اور کیعقباد میں طورسی حیدری کی مقبولیت کم تھی مگر جلال الدین خلجی کے زمانے میں بہت بڑھ گئی تھی۔ خود باشاہ کا بیٹا خانخانا ان کا مرید خاص ہوگیا۔ برنی اور دوسرے توہم پرست جلال الدین خلجی کے زوال و انجام بد کا سبب اسی واقعے کو بتاتے ہیں۔“(مضمون بعنوان عہد خسرو میں دہلی کا سماجی اور سیاسی افق، ڈاکٹر سید اطہر عباس رضوی، مشمولہ ’خسرو شناسی‘ (مرتبین)ظ انصاری، ابو الفیض سحر،ترقی اردو بیور نئی دہلی، 1989، دوسرا ایڈیشن، ص:48)
اس کے علاوہ شیخ صفی الدین بخراضی،شیخ شہاب الدین سہروردی اور شیخ فریدالدین جیسے صوفیا کرام کے یہاں خلق خدا کا جمگھٹ لگا رہتا تھا۔ جس میں ہر طبقے اور فرقے کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ صوفیا نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ایک طرف جہاں روحانی تجربات کیے اور لوگوں کو عبادت و ریاضت کی طرف راغب کیا وہیں خلق خدا کی خدمت کا پیغام بھی عام کیا۔ شیخ بہاء الدین ذکیہ اور قطب الدین بختیار کاکی نے باقی کے یہاں امراء وشرفاء کا ٹھٹ لگا رہتا تھا۔ یہ سب لوگ ایمان و یقین کی تلاش میں نہیں آتے رہے ہوں گے۔
ان معروضات سے خسرو کی دلی کی سماجی اور مذہبی سرگرمیوں کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں حضرت امیر خسرو کے زیر نگیں علم و ادب اور فن و ثقافت کی ایک دنیا تھی جس کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ شبلی ان کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے۔
ہندستان میں چھ سو برس سے آج تک اس درجہ کا جامع کمالات نہیں پیدا ہوا،اور سچ پوچھو تو اس قدر مختلف اور گوناگو ں اوصاف کے جامع ایران و روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو ہی چار پیدا کیے ہوں گے۔(بیان خسرو : ص 26)