ڈاکٹر شجاعت علی قادری
تاریخی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے قریب، ایک تعلیمی ادارہ جو عظیم ہندوستانی صوفی روایات سے وابستہ ہو کر معاشرہ کی خدمت کر رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے کمزور طبقات کے طلباء کی تعمیر وترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ تاکہ وہ معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔ اترپردیش کے ایٹہ ضلع میں مارہرہ شریف کے مشہور فارسی اور ہندی صوفی شاعر سید شاہ برکت اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ قائم کر دہ اس ادارہ میں نرسری اسکول، سیکنڈری اسکول، مینجمنٹ کالج اور کوچنگ سینٹر جیسے متعدد شعبے چلائے جاتے ہیں۔۔ ان تمام اداروں میں ہاسٹل کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
دراصل1995 میں اپنا سفر شروع کرنے والا ادارہ البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی، تب سے اب تک بڑھتا، پھلتا پھولتا چلا آ رہا ہے۔ اس کا قیام اس ادارہ کے بانی وصدرریٹائرڈ پروفیسرسید محمد امین میا ں برکاتی کے گہرے وژن کی مرہون منت ہے۔البرکات پلے اینڈ لرن سنٹر، البرکات پبلک اسکول (ٹو پلس)، البرکات کالج آف گریجویٹ اسٹڈیز، البرکات انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، البرکات انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اور البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ۔ان تمام مختلف تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کے منصوبوں کے روح رواں ادارہ کے بانی ہی ہیں۔
تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام کے واضح مقصد کے ساتھ، جیسا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت ضمانت دی گئی ہے، سوسائٹی نے 2004 میں البرکات انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اسٹڈیز قائم کیا۔ البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی ا مقصد ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت فراہم کردہ حقوق کے تحت تعلیمی اداروں کا قیام اور انتظام کرنا ہے۔یہ سوسائٹی خانقاہِ برکاتیہ، مارہرہ شریف، ضلع ایٹہ، اتر پردیش کے نامور صوفیوں کی روایات اور تعلیمات سے تحریک حاصل کرتی ہے۔
اس خاندان کی سربراہی خانقاہِ برکاتیہ کے سجادہ نشین پروفیسر سیدمحمد امین صاحب کر رہے ہیں۔پروفیسر سید محمد امین میاں صاحب کا شمار ان تعلیم یافہ لوگوں میں ہوتا ہے جو تعلیم سے حددرجہ وابستگی رکھتے ہیں اور معیاری تعلیمی اداروں کی ترقی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔یہ سوسائٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نامور اسکالرز کی مقروض ہے کہ انہوں نے تعلیمی منصوبوں کاخاکہ تیار کرنے اور اسے زمین پر اتارنیمیں انمول تعاون کیا۔
کامیابی
ہر سال البرکات کے مختلف اداروں کے طلباء نے اپنی نمایاں کارکردگی سے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ طلباء نے کلاس 10، 12 کے امتحانات میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے امتیازی نمبر حاصل کیے ہیں۔ اس ادارہ کے گریجویٹس ہندوستان کی مختلف اعلیٰ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں،اوربہت سارے طلباء اپنی پسند کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ البرکات کے طلباء علی گڑھ، یوپی اور پورے ملک میں مختلف مسابقتی اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لے رہے ہیں۔
پروفیسرسید محمد امین میاں صاحب کے صاحبزادے سید محمد امان میاں کے مطابق اس کا مقصد طلباء کو مسابقتی امتحانات کے لیے اس طرح تیار کرنا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بنیادی ثقافتی اقدار پر قائم رہیں۔ البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی کے صدر پرفیسرسیدمحمد امین میا ں نے کہا کہ سوسائٹی کا مقصد عظیم ہے اور اس کی بنیاد ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو معیاری اور قدر پر مبنی تعلیم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ مستقبل میں قابل رہنما بن سکیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اس انسٹی ٹیوٹ کو سپرنٹنڈ کرنے کے لئے انتہائی فخر محسوس کرتا ہوں جوگزشتہ کچھ سالوں کے دوران، تربیت اور بچوں کی شخصیت کی نشوونما کے میدان میں اپنی ناقابل تردید خدمات کے ساتھ میرے وجود کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے رہنما اصول طلباء میں 'آگاہی، قابلیت اور مہارت پیدا کرنا' ہیں تاکہ وہ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں۔اورزمانہ کے ساتھوہ شانہ بشانہ چلنے کے قابل بن سکیں۔اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں مشکلات سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں۔ البرکات طلباء کو ایک ایسی دنیا کے لیے تیار کرنے کے لیے ایک ہدف پر مبنی تعلیم فراہم کرتا ہے جو ابھی تک ترقی کے مرحلے میں ہے اور بہت سے اہداف ابھی تک حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ تعلیم و انتہائی توانائی سے بھرپور نوجوان بنانے کی خواہشات ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ مشن اپنے مطلوبہ ثمرات لائے گا۔
خانقاہ برکاتیہ کا تعارف
خانقاہ برکاتیہ قادری سلسلہ کی ایک بہت مشہور خانقاہ ہے۔ اس کا سلسلہ برکاتی سلسلہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی ابتدا بلگرام ہندوستان میں ہوئی تھی اور اس سلسلہ کا نام شاہ برکت اللہ علیہ الرحمہ کے نام پر رکھا گیا ہے، مارہرہ کے بزرگ اور اس خانقاہ کے پیروکار قادری برکاتی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ بغداد کے قادری سلسلہ کی ذیلی شاخ ہے۔
شاہ برکت اللہ علیہ الرحمہ میر سیدعبدالجلیل واسطی بلگرامی کے پوتے (پیدائش 13 شوال 1071 ہجری) اصل میں ہندوستان میں چشتی سلسلہ کی پیروی کرتے تھے۔ تاہم کالپی کے دورے پر آپ کو سید شاہ فضل اللہ نے قادری سلسلہ میں داخل کر لیا۔
ایک ہمہ گیر شاعر شاہ برکت اللہ علیہ الرحمہ نے برج اور فارسی دونوں زبانوں میں لکھا۔ برج میں ''پیم پرکاس'' کے عنوان سے ان کی تصنیف ہندو اور مسلم دونوں کے علمی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ اسی طرح ''دیوانِ عشقی'' فارسی میں عرفِ عشقی مارہروی کے نام سے تصانیف کا مجموعہ ہے۔
وہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ہندوستانی تصوف کی ایک اہم روحانی شخصیت تھے۔
ان کے بڑے بیٹے شاہ آل محمد نے اپنے آپ کو مراقبہ اور ذکر کے لیے وقف کرتے ہوئے اپنے خاندان کی روایات کو جاری رکھی۔ ان کے بیٹے سید شاہ حمزہ جو کہ مارہرہ کے تیسرے قطب ہیں، انہوں نے مختلف اسلامی صوفیانہ مضامین پر بہت سے مقالے لکھے جن میں سے کاشف الاستاراور فصل الکلمات بہت مشہور ہیں۔
شاہ حمزہ کے بیٹے سید شاہ علی احمد اچھے میاں کراماتی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی روحانی طاقتوں سے بیمار وں کا علاج کیا اور یہ اتنے مشہور ہوئے کہ مارہرہ کا قصبہ اچھے میاں کا مارہرہ کے نام سے مشہور ہوا۔
شاہ امیر عالم کے سب سے بڑے بھائی یعنی سید شاہ آل رسول احمدی اعلیٰ درجے کے روحانی بزرگ تھے۔ انہوں نے چشتی اور قادری سلسلہ یکجا کیا۔
ان کے بعد حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری (عرف میاں صاحب) تھے جو مارہرہ خاندان کے آخری قطب تھے۔ اس طرح شاہ برکت اللہ کی درگاہ ایک منفرد درسگاہ ہے جہاں قطب کے زمرے میں سات اولیاء ایک گنبد کے نیچے آرام فرما رہے ہیں۔
حضرت نوری میاں کی نیابت ان کے چچا زاد بھائی سید شاہ مہدی حسن صاحب کو وراثت میں ملی تھی۔ جنہیں نظام حیدرآباد، فرخ آباد کے نواب اور ریاست رام پور کے نواب جیسی شاہی ریاستوں کے حکمران عزت دیتے تھے۔
اس سلسلے کو سید العلماء سید شاہ آل مصطفی سید مارہروی اور احسن العلماء سید شاہ مصطفیٰ حیدر حسن مارہروی نے بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔
مارہرہ کے سید میاں بھی اپنے وقت کے عالم اور مفتی تھے۔ انہوں نے اجمیر اور لاہور سے اسلامک اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ جائیداد کے تنازعات اور طلاق کے مسائل کے حل کے لیے ان کے فتوے بمبئی ہائی کورٹ میں پیش کیے گئے۔ وہ ممبئی میں بکر قصاب جماعت کے کمیونٹی قاضی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے امام بھی تھے۔ وہ مارہرہ میں درگاہ شاہ برکت اللہ علیہ الرحمہ کے سجادہ نشین اور متولی تھے۔ انہوں نے ملک کے تقریباً ہر علاقہ کا دورہ کیا اور عوام کو اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ انہوں نے تین کتابیں لکھیں جن میں مقدّس خاتون، نئی روشنی اور فیضِ تمبیح شامل ہیں۔ سید میاں داغ دہلوی کے سب سے پسندیدہ شاگرد اپنے چچا حضرت احسن مارہروی کی وراثت میں اردو کے اعلیٰ شاعر تھے۔
حضرت سید العلماء کے چھوٹے بھائی حضرت سید شاہ مصطفیٰ حیدر حسن مارہروی تھے۔ آپ حضرت سید شاہ اسماعیل حسن صاحب مارہروی اور حضرت سید شاہ محمد میا ں مارہرویکے براہ راست جانشین تھے۔
احسن العلماء، حضرت حسن میاں قادری سجادہ نشین تھے اور اپنی خانقاہ میں خالص خانقاہی نظام قائم کیا۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں تک اپنے نیک اعمال اور زبانی ابلاغ کے ذریعے اسلام اور سنت کے پیغام کو عام کیا۔ انہوں نے دینی اور عصری تعلیم کے مختلف اداروں کی سرپرستی کی۔ ان کے چار بیٹے ہوئے: پہلے سید محمد امین میاں قادری (سابق پروفیسر، اے ایم یو، علی گڑھ)؛ دوسرے، سید محمد اشرف میاں قادری IRS (کمشنر آف انکم ٹیکس، دہلی)؛ تیسرے (مرحوم)
آئی پی ایس سید محمد افضل میاں قادری (اے ڈی جی، ایم پی) اور چوتھے نمبر پر سید محمدنجیب حیدر قادری (سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ نوری گدی)