غوث سیوانی،نئی دہلی
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں
انسان مرسکتا ہے مگر اس کے جذبات نہیں مرسکتے اور جو لوگ کسی مقصد کے لئے مرتے ہیں، ان کی خواہشات قدرت کی جانب سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ اس بات پر شاید آپو کو ہنسی آئے کہ انگلینڈ میں پڑی ہوئی ایک انسانی کھوپڑی کی خواہش ہے کہ وہ ہندوستان کی سرزمین میں دفن ہو مگر اس کی یہ خواہش کب پوری ہوگی؟ معلوم نہیں۔ ایسا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ جو لوگ اپنے ملک کے لئے جیتے اور مرتے ہیں،ان کی آخری خواہش اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے وطن کی مٹی کا حصہ بن جائیں۔ یہ کھوپڑی جس شخص کی ہے،وہ ایک مجاہد آزادی تھا اور اسے انگریزوں نے توپ سے باندھ کر اڑا دیا تھا۔ اس کا جسم ہندوستان کی مٹی کا حصہ بن گیا مگراس کی کھوپڑی اب تک لندن میں موجود ہےاور واپس ہندوستان آنے کے لئے بے چین ہے۔
اہم سوال
ایک مجاہد آزادی کی کھوپڑی انگلینڈ کیسے پہنچی؟ کب پہنچی؟ اور اس کا نام کیا تھا؟ اس قسم کے سوال آپ کے ذہن میں ابھر رہے ہونگے۔ان سوالوں کے جواب ایک ایک کرکے دیتا ہوں اور کچھ تفصیلات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ 1857 میں پورے ملک میں انگریز حکمرانوں کے خلاف بغاوت ہوئی جسے پہلی جنگ آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔اس کا آغاز ان ہندوستانیوں نے کیا تھا جو انگریزی فوج میں تھے۔ حالانکہ ایسے ہزاروں افراد کو بغاوت فرو ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا اور موت کے گھات اتار دیا گیا۔ کچھ لوگوں کو جیلوں میں بند کیا گیا، کچھ کی جائیداد ضبط کی گئی، گھر مسمار کےگئے اور بعض مجاہدین آزادی کو کالاپانی کی سزا ہوئی۔ جن فوجیوں نے بغاوت کرتے ہوئے انگریزوں کا قتل کیا تھا انہیں میں ایک عالم بیگ بھی تھا جو فوج میں حوالدار کے عہدے پر فائز تھا۔ یہ ان گمنام مجاہدین آزادی میں شامل تھا جنہوں نے مادروطن کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی قوت سے ٹکر لی تھی۔ انگلینڈ میں موجود کھوپڑی اسی عالم بیگ کی ہے۔اس کھوپڑی کے تعلق سے ریسرچ کے بعد پانچ سو صفحات سے زیادہ کی ایک کتاب برطانوی مورخ کم اے ویگنر نے لکھی گئی ہے جس کا نام ہے
The Skull of Alum Beg
کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں نے 1857 میں ہندوستانیوں پر کیسے مظالم ڈھائے تھے۔پنجاب کے اجنالہ (امرتسر) کے ایک کنویں سے تقریباً 165 سال بعد ماہرین آثار قدیمہ نے انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے نکالے تھے۔ یہ کنکال ان ہندوستانی سپاہیوں کے تھے جنہوں نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ انگریزوں نے 282مجاہدین آزادی کو قتل کر کے کنویں میں پھینک دیا تھا۔ ممکنہ طور پرانہیں میں حوالدار عالم بیگ بھی شامل تھا۔
کتاب اور صاحب کتاب
کھوپڑی یا وار ٹرافی؟
مذکورہ کتاب کی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ مجاہد آزادی عالم بیگ کی کھوپڑی کووار ٹرافی کے طور پر انگلینڈ لے جایا گیا تھا اور مقصد تھا کہ ملکہ انگلینڈ کو بطور تحفہ پیش کیا جائے۔برطانوی مورخ کم اے ویگنرکی تحقیق کے مطابق عالم بیگ برطانوی فوج میں شامل تھا۔ اس کی پوسٹنگ میاں میر (اب پاکستان میں) میں تھی۔
تب کی دستاویزات کے مطابق 1857 میں یہاں تقریباً 500 ہندوستانی سپاہیوں نے بغاوت کی تھی۔یہ فوجی پنجاب کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو جموں میں دریائے راوی کے کنارے برطانوی فوج نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ باقی فوجیوں کو گولی مار کر اجنالہ کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔
کون تھا عالم بیگ؟
مورخ کم اے ویگنر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عالم بیگ اجنالہ میں مارے جانے والے ہندوستانی فوجیوں کا لیڈر تھا۔ وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ حوالدار عالم بیگ باغی 46 رجمنٹ بنگال نارتھ انفنٹری بٹالین کی قیادت کر رہا تھا۔ بعد میں اسے کانپور سے پکڑ کر سیالکوٹ لایا گیا۔ جب برطانوی کمشنر ہنری کوپر کو معلوم ہوا کہ ملکہ وکٹوریہ آرہی ہیں تو اس نے عالم بیگ کا سر ان کے سامنے پیش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسے توپ سے باندھ کر موت کے گھات اتار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کی کھوپڑی کو گرم پانی میں ڈال کراس کی کھال کو صاف کیا گیا۔ اس سر کو گریسلی ٹرافی کا نام دیا گیا۔ یہ سر 1858 میں انگلینڈ لے جایا گیا تھا۔ ملکہ برطانیہ کو انگلینڈ میں پیش کیا گیا۔
کیپٹن اے آر کوسٹیلو کھوپڑی لے کر انگلینڈ گیا تھا۔ اس واقعے کے وقت وہ سیالکوٹ میں بطور کپتان تعینات تھا اور عالم بیگ کو موت کے گھات اتارتے وقت وہ ڈیوٹی پر تھا۔ 1963 میں کھوپڑی لندن میں لارڈ کلائیڈ پب کے ایک سٹور روم سے دریافت ہوئی تھی جب پب کو کسی اور نے خرید لیا تھا۔ نئے مالکان 1857 کی اس جنگی ٹرافی کو حاصل کرنے پر خوش نہیں تھے۔ سال 2014 میں جب اجنالہ میں کھدائی کے دوران کنکال ملے تھے، اسی وقت سائنسدان ویگنر نے پب مالکان سے رابطہ کیا۔
جے ایس سہروات کا بیان
اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ بشریات کے پروفیسر۔ جے ایس سہراوت جو اجنالہ سے ملنے والی باقیات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ 1857 کے انقلاب کے دوران حوالدار عالم بیگ کو پکڑ کر توپ سے اڑا دیا گیا۔ اس کی کھونپڑی انگلینڈ سے ملی تھی۔ وہاں کے سائنسدان ویگنر اور میرے جاننے والوں نے مجھے بتایا ہے۔ مکمل تلاش کا ریکارڈ ملا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم ویگنر سے رابطے میں ہیں۔ وہ جلد ہی کھوپڑی کو ہندوستان لائیں گے اور ہم رسم و رواج کے مطابق اس کی آخری رسومات ادا کریں گے۔
تحقیق میں کیا نکلا؟
واضح ہوکہ عالم بیگ کو سیالکوٹ (اب پاکستان میں) میں شہید کیا گیا تھا۔ اس کا سر، جسے گرسلے ٹرافی کا نام دیا گیا، 1858 میں انگلینڈ لے جایا گیا۔ اب حال ہی میں انگلینڈ کے شہر ایسیکس میں لارڈ کلائیڈ پب فروخت ہوا تو نئے پب مالک نے اسے صاف کیا تو اس میں سے ایک کھوپڑی نکل آئی۔ اس کی آنکھ میں آدھا لکھا ہوا خط تھا۔ سائنسدان وینگر کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مکمل تحقیق کی، کھوپڑی کی آنکھ میں رکھے خط نے بھی کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ عالم بیگ کی عمرتب 32 سال تھی جب اسے توپ سے اڑایا گیا تھا۔ قد پانچ فٹ سات انچ تھا۔ جسم منحنی تھا۔ وہ ایک انتھک آدمی لگ رہا تھا۔
انگریزوں نے اس وقت کے ریکارڈ میں لکھا تھا کہ عالم بیگ ایک کٹر محب وطن تھا جو کسی بھی حالت میں جھکنے کو تیار نہیں تھا۔ شعبہ بشریات، پنجاب یونیورسٹی کےپروفیسرجے ایس سہروات نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 1857 کے انقلاب کے دوران حوالدار عالم بیگ کو پکڑ کر توپ سے اڑا دیا گیاتھا۔ اس کی کھوپڑی انگلینڈ سے ملی ہے۔ وہاں کے سائنسدان وینگر اور میرے جاننے والوں نے مجھے بتایا ہے۔ تلاشی کا مکمل ریکارڈ مل گیا ہے۔ اب وہاں کے سائنسدانوں سے کھوپڑی کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔ کھوپڑی ملنے کے بعد اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ اتر پردیش کے علاقے کانپور کا تھا، ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد اس کے اہل خانہ کا بھی پتہ چل سکے گا۔
بی ایچ یو کے ماہر جینیات پروفیسردنیشور چوبے کے مطابق عالم بیگ کی کھوپڑی پر دو طرح کے ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں۔ دہلی میں رہنے والے کانپور کے ایک خاندان نے عالم بیگ کے خاندان سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے جینز کو کھوپڑی کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ میچ کامیاب ہونے کی صورت میں عالم بیگ کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔ اس کھوپڑی کا معائنہ کرنے کے بعد اس کی خوراک جاننے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کی مدد سے ان کے رہنے کی جگہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
آنکھ حلقے سے ملا کاغذ
ہندوستان کی مٹی چاہیئے
پلان یہ بھی ہے کہ عالم بیگ کی کھوپڑی کو ہندوستان لایا جائے اور جو جانکاریاں سائنسی تحقیق کے ذریعے نکل سکیں نکالی جائیں، اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی سرحد پراسے پورے احترام کے ساتھ دفن کیا جائے۔ اس پر تحقیق کرنے والے برطانوی مورخ چاہتے ہیں کہ کھوپڑی کو اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں عالم بیگ نے آخری جنگ میں حصہ لیا تھا۔ کوئین میری کالج، لندن میں برطانوی امپیریل ہسٹری کے سینئر لیکچرر، ڈاکٹر۔ کم ویگنر کا خیال ہے کہ یہ صحیح وقت ہے کہ حوالدار عالم بیگ کو اس کے ملک میں دفن کیا جائے۔اسی مقام پر جہاں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقے میں دریائے راوی کے کنارے عالم بیگ نے تریمو گھاٹ کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
انہوں نے کہا، میں عالم بیگ کی کھوپڑی کی واپسی کو سیاسی نہیں سمجھتا۔ میرا مقصد صرف عالم بیگ کے جسد خاکی کو اس کے وطن پہنچانا ہے تاکہ وہ اپنی موت کے لمبے عرصے بعد سکون پاسکے۔حالانکہ مورخ کے بیان کو بھی ایک لمبی مدت گزر چکی ہے مگر آج تک اس معاملے میں پیش رفت نہیں ہوئی۔بہرحال ہمیں بھی اس وقت کا انتظار ہے جب ہندوستان کے ایک عظیم سپوت کی کھوپڑی کو ہندوستان لاکر یہاں کی مٹی میں دفن کیا جائے۔