انیتاراج بنش کی بیٹی بن کررخصت ہوئی ظریفول بیگم

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
انیتاراج بنش کی بیٹی بن کررخصت ہوئی ظریفول بیگم
انیتاراج بنش کی بیٹی بن کررخصت ہوئی ظریفول بیگم

 

 

مکٹ شرما/ گوہاٹی

شنکر۔ اذان کی سرزمین آسام میں صدیوں سے مذہبی اتحاد اور بھائی چارے کی دھرتی رہی ہے۔ اگرچہ فرقہ وارانہ تنازعات اور مذہبی عدم رواداری نے ملک کو غیر مستحکم کیا ہے، لیکن تمام ذاتوں اور مذاہب کے لوگوں نے آسام میں اتحاد اور ہم آہنگی کی توانائی کو برقرار رکھا ہے۔

مذہبی اتحاد اور ہم آہنگی کی ایک اور خوبصورت کہانی جو حال ہی میں سامنے آئی ہے، آج بھی عام لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔ مختلف ذاتوں اور مذاہب کے سنگم واشتراک نے سب کا دل جیت لیا ہے۔ وہ ایک مسلمان لڑکی ہے جو چھ کی عمر میں ہی ماں سے محروم ہوگئی۔

اس کی پرورش ایک ہندو خاندان نے کی اور پھر اسلامی طریقے سے اس کی شادی ایک مسلمان نوجوان سے کرادی۔ ظریفول بیگم اس ہندو خاندان کی مہربانیوں کے لئے مشکور ہیں۔

awaz

ظریفول بیگم کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ اس کی پرورش کرنے والی انیتا راج بنشی اسے رخصت کرکےجذباتی ہوجاتی ہیں۔ظریفول اسی دن ان کے گھر آگئی تھی، جس دن اس کی ماں کا انتقال ہوا تھا۔

آواز-دی وائس کے ساتھ ایک انٹرویو میں، کھٹانیہ پاڑا، گرام پنچایت کی صدر انیتا راج بنشی کہتی ہیں، "ہم نے ظریفول کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھا۔ اس کی بیمار ماں نے،اسے میرے حوالے کیا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔

تب سے لے کر اب تک ہم نے ساری ذمہ داری لی،وہ ہر کام میں ہماری مدد کرتی تھی،مگر ہم نے اسے کبھی کام والی لڑکی نہیں سمجھا، اسی لیے مجھے اس کی ماں کی طرح عزت دی گئی۔

گزشتہ ہفتہ، انیتا راج بنشی اور ان کے خاندان کے افراد نے ظریفول کی شادی کی تقریب کی۔ دھولا کے ہیراپارہ گاؤں میں شادی میں ہندوومسلم رسومات کی گئیں۔

اس موقع پر کھٹنیاپاڑہ کے طبیب الرحمن وہاں موجود تھے۔ اس سے پہلے دونوں خاندان نے مل کر شادی کی تاریخ بھی مقرر کی تھی۔ ظریفول بیگم اورطبیب الرحمٰن کی شادی ، سماج کے لئے ایک مثال بن گئی ہے۔

ایک شادی میں دومختلف مذاہب کے خاندانوں کا ملاپ اور اس کے ذریعے اتحادویکجہتی کا پیغام اپنے آپ میں بے مثال ہے۔

نیز ان سیاسی پارٹیوں کے چہرے پر طمانچہ بھی ہے جو اپنے ووٹ کے لئے عوام کو رنگ ونسل اور مذہب وعلاقے کے نام پر بانٹتی ہیں۔ انیتا راج بنشی کہتی ہیں، "آسامی ثقافت کی روایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم نے گھر گھر جاکرتقریب کی دعوت دی۔