امیرخسروکو ہندوستان بہشت کیوں لگتا تھا؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 22-11-2022
امیرخسروکو ہندوستان بہشت کیوں لگتا تھا؟
امیرخسروکو ہندوستان بہشت کیوں لگتا تھا؟

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

آپ کو دنیا کی کس جگہ سے زیادہ پیار ہے؟ کونسا علاقہ آپ کو سب سے اچھا لگتا ہے؟ یہ سوال اگر کوئی آپ سے پوچھے تو یقیناً آپ کا جواب ہوگا وہ علاقہ جہاں آپ کا جنم ہوا،سب سے اچھا ہے اور دامن دل اسی جانب کھنچتا ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ حضرت امیرخسرورحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان سب سے اچھا لگتا تھا اور یہاں کی زبانیں، یہاں کی تہذیب، یہاں کی موسیقی، یہاں کے قدرتی مناظر، وحوش وطیور، پیڑپودے اچھے لگتے تھے۔ خسروؔ کے کلام کو پڑھتے ہوئےبار بار حب الوطنی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ وہ اس خطہ زمین کو ’بہشت ارضی‘ کہتے ہیں اور یہاں پیدا ہونے والے پھولوں، پھلوں، چڑیوں تک کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔

ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی

امیر خسرو کی شاعری اگرچہ فارسی زبان میں ہے مگر وہ ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور گزشتہ ہزار سال کے نمائندہ فنکار ہیں۔ انہیں اردواور ہندی کا بھی اولین شاعر قراردیا جاتاہے۔ ان کی جائے ولادت پٹیالی ہے،جو کہ کرشن نگری متھرا سے زیادہ دور نہیں۔ ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے ۔ 651ھ بمطابق 1252ء کو یہاں کے ایک امیر کبیر گھرانے میں انہوں نے جنم لیا ۔ یہ سلطان ناصر الدین محمود کا دور سلطنت تھا ۔ والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کا نام دولت ناز تھا ۔ والد مہاجر ترک تھے تو والد ہ ایک نو مسلم ، سیاہ فام ہندوستانی سیاستداں کی بیٹی تھیں ۔خسروتخلصؔ تھا اور اصل نام یمین الدین محمود تھا۔

ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی

خسرو ملی جلی تہذیب کا نمائندہ اس لئے بھی قرار پائے کہ انہوں نے اصل ہندوستان کو سمجھاتھا، دل میں بسایا تھا اوراسی کو اپنے فن میں پیش کیا تھا۔  خسرو نے اپنے آس پاس ماں ، نانا اور ماموں کو دیکھا، جو ہند و پس منظر رکھتے تھے اور انہیں نے ان کی تعلیم و تربیت بھی کی ۔ ظاہر ہے یہ خاندان ایک ہندوستانی خاندان تھا اور وہ بھی متھرا کے قریب رہنے والا خاندان تھاجو کہ ہندووں کا ایک مقدس شہر ہے اور اس علاقے کی آب و ہوا میں بھی کرشن بھکتی کی خوشبو رچی بسی ہے ۔

یہاں کی مقامی ’ برج بھاشا‘ کے لوک گیت اور بھجن ضرور ان کے کان میں پڑتے ہونگے ۔ ایک طرف جہاں انہیں عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم دی جارہی تھی، وہیں دوسری طرف وہ جس ماحول میں پرورش پارہے تھے اس کے اثرات ان پر پڑنے لازم تھے ۔ اس ماحول میں خسرو کی پرورش نے انہیں ایک سچا ہندوستانی بنا دیا تھا جو یہاں کی مخلوط تہذیب میں یقین رکھتا تھا۔حالانکہ ان کے والد ترک تھے مگر خسرو نے نانہال کا اثر زیادہ قبول کیا تھا۔

وطن سے محبت

امیر خسرواپنی شاعری میں جن ہندوستانی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں، ان میں پان بھی شامل ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پان صرف ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے، دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں پایا جاتا۔اپنے  فارسی مصرعوں میں خسرو کہتے ہیں

 خراسانی که هندی گیردش گول

خسی باشد به نزدش برگ تنبول

 شناسد آن که مرد زندگانی ست

 کہ ذوق برگ خائی ذوق جانی ست

 یعنی وہ خراسانی جو ہندوستانی کی نظر میں محض مسخرا ہے، اس کے نزدیک پان کا پتہ گھاس ہے،مگر جو مرد میدان ہے، اسے معلوم ہے کہ یہ ذوق روح ہے۔

خسرو نے کئی جگہ پان کا ذکر کیا ہے اور اسے استعارہ کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔

ہندوستان میں جن چڑیوں کو حسن ودلکشی کے لئے جانا جاتا ہے ان میں مور نمایاں ہے۔ یہ قومی پرندہ بھی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے امیر خسرو نے ہندوستان کو بہشت کہا ہے۔

گر نه بهشت است همیں هند چرا

از پئی طاؤس جنان گشت مرا

 یعنی اگر ہندوستان بہشت نہیں ہے تو مور کے سبب وہ میرےلئے جنت بن گیا ہے۔

ہندو۔مسلم بھائی چارہ

ہندوستان کے لئے ہندو۔مسلم بھائی چارہ ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔دونوں مذاہب کے لوگ اس ملک کی قوت ہیں جنھیں کچھ سیاسی عناصر اپنے مقاصدکی تکمیل کے لئے تقسیم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ امیرخسرو نے صدیوں قبل مذہبی ہم آہنگی کی وکالت کی تھی۔  

برون شدی دویی از سر ترک و ہندو

که ہندوستان با خراسان یکی شد

 یعنی مسلمان اور ہندو قوم کودوئی ختم کرکے ایک ہوجانا چاہئے تب ہندوستان سے خراسان تک ایک ہوجائے گا۔

وطن سےمحبت

 امیر خسرو، ان ہندوستانی فارسی شاعروں میں ایک ہیں جن کا احترام ایران والے بھی کرتے ہیں۔ خسرو نے اردو،ہندی میں بھی شاعری کی۔ البتہ ان کی پوری شاعری میں جو خصوصیت نمایاں ہے، وہ ہے ہندوستانیت۔ اسی طرح ان کی موسیقی میں بھی خالص دیسی عناصر موجود ہیں، جو ویدوں کے دور سے چلے آرہے ہیں۔ وہ اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔

انہیں ہندوستانی زبان اور اپنےوطن پرناز تھا۔

 خاک وطن از ملک سلیمان خوشتر

خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر

یعنی وطن کی مٹی ملک سلیمان سے بہتر ہے،اور یہاں کا کانٹا سنبل وریحان کے پھولوں سے بہتر ہے۔