اندرا گاندھی نے ملک کی سالمیت کے لیے کیا کیا؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-12-2021
اندرا گاندھی نے ملک کی سالمیت کے لیے کیا کیا؟
اندرا گاندھی نے ملک کی سالمیت کے لیے کیا کیا؟

 

awazthevoice

ثاقب سلیم، نئی دہلی

'مجھےبھیک مانگنےکی عادت نہیں، میں نے کبھی بھیک نہیں مانگی۔ میرااب بھیک مانگنےکاکوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔' یہ وہ بیان تھا جو24مئی1971کوارکان پارلیمنٹ کےسامنےوزیراعظم اندرا گاندھی نے دیا تھا۔ یہ بات انھوں نے تب کہی تھی، جب ان سے سوال کیا گیا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالی آبادی کی نسل کشی سے پیدا ہونے والے مہاجرین کے بحران میں 'بین الاقوامی سپر پاورز' کی مداخلت تلاش کریں.

کرکٹ کےکھیل کی طرح قومی جنگ بھی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن ایک کپتان کی طرح اس معاملےمیں قومی لیڈر کا کردار اہم ہوجاتا ہے۔ ایک لیڈرکواپنی ٹیم کی مشاورت سے اہم فیصلے لینے پڑتے ہیں اورہمت سےرہنمائی کرنی پڑتی ہے۔

اس جنگ میں بھی اندراگاندھی ایک عظیم لیڈر کے اندازمیں کھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ان کی قیادت  کا سب سے بڑا ثبوت کسی اور سے نہیں بلکہ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی سے ملتا ہے جنہوں نے 16 دسمبر 1971 کو ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔

پاکستان کی شکست کا ذمہ دار اپنی ہی سیاسی قیادت کو ٹھہراتے ہوئے جنرل نیازی لکھتے ہیں کہ اندرا گاندھی کی سربراہی میں ہندوستانی حکومت مناسب منصوبہ بندی کے بغیر اپنی فوجوں کو بے دریغ نہیں ڈالتی اور کبھی بھی کھلی دشمنی کا سہارا نہیں لیتی جب تک کہ انہیں کامیابی کا سو فیصد یقین نہ ہو۔

انہوں نے لکھا: بہت سےاسباق میں سےسب سےاہم جو جنگ نے سکھایا وہ بحران کے وقت سیاسی قیادت کی طرف سے فیصلہ سازی کی اہمیت سے متعلق ہے ۔ 26 مارچ 1971 کو پاکستانی فوج نےبنگالی آبادی کا منظم قتل عام شروع کردیا۔ اس کے بعد اندرا گاندھی نے بنگالی عوام کی مکمل حمایت کا اعلان کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی۔ اور ایک ماہ کے اندر آرمی چیف ایس ایچ ایف جے مانیکشاہ(S.H.F.J Manekshaw) کو مشرقی پاکستان میں فوجی جارحانہ آپریشن شروع کرنے کی ہدایت دے دی۔

جب مانیکشا نےانہیں بتایا کہ فوجی کارروائی کے لیے وقت مناسب نہیں ہے اور انہیں فوج کی منصوبہ سازی کے لیے وقت درکار ہے۔اندراگاندھی نے قوم کے ایک سچے رہنما طور پرایک فوجی جنرل کے عذر کو قبول کرلیا۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے شعبوں کے پیشہ ور افراد کے دلائل کو سن سکتی تھیں اور ان پر عمل کر سکتی تھیں، یہ اندرا کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے۔

بنگال سے پناہ گزینوں کی آمد ہو رہی تھی۔ اندراگاندھی نے خود سرحدی علاقے کا سروے کرنے کے بعد 24 مئی کو پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مشرقی پاکستان کی سرحد کے قریب کم از کم 335 مہاجر کیمپ لاکھوں لوگوں کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

یہ بحران ہندوستان کی داخلی سلامتی کے ساتھ ساتھ انسانی بنیادوں پر بھی تھا۔ جہاں ایک طرف ہندوستان، ایک جمہوری ملک کے طور پربنگالیوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم تھا، وہیں دوسری طرف بائیں بازو کے نکسلائیٹ جمہوری طور پر منتخب ہندوستانی حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے مہاجرین کے بحران کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ سنہ 1960 کی دہائی کے آخر سےہی مغربی بنگال عسکریت پسند کمیونسٹ نکسلائٹس کا گڑھ بن گیا تھا۔ انٹیلی جنس نے اطلاع دی کہ نکسلائٹ کولکاتہ پر چھاپہ مارنے کے لیے کیمپوں میں موجود لاکھوں لوگوں کا استحصال کرنے کا موقع دیکھ رہے تھے۔

گیتا مہتا نے پپل جیکر(Pupul Jaykar) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نکسلائیٹ ان لوگوں پر حملہ کر رہے تھے جو پناہ گزینوں میں کھانا اور دیگر سہولیات تقسیم کر رہے تھے۔ اس کا مقصد دس ملین لوگوں کو کولکاتہ کی طرف مارچ کرنے کے لیےمجبور کرنا تھا۔ نکسلیوں کا خیال تھا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے، اس وقت لانگ مارچ کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ ہندوستان کو حل کی ضرورت درکارتھی لیکن امریکہ اور چین پاکستان کا ساتھ دے رہے تھے۔

اندرا گاندھی نے ہندوستانی فوج، انتظامی خدمات اور حکومت کے دیگر عہدیداروں کو حکم دیا کہ وہ بنگلہ دیش کی ایک عارضی حکومت بنائیں اور اس کی ملیتا مکتی باہنی(Militia, Mukti Bahini) کو پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کے لیے تربیت دیں۔ دوسری طرف امریکہ کے تعاون سے یحییٰ خان نے اگست میں مجیب کو پھانسی دینے کا حکم دیا۔اندرا نے 9 اگست کو انڈیا گیٹ، نئی دہلی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کیا اور گرج کر کہا، "ہم غریب، ناخواندہ لوگوں کی قوم ہیں، لیکن ہم دنیا کو دکھا دیں گے کہ زمین کی کوئی طاقت اس ملک کو ڈرا یا محکوم نہیں کر سکتی"۔ انہوں نے عوامی حمایت کے لیے کہا اور ہندوستانیوں نے انہیں مایوس نہیں کیا۔

امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن نے امریکہ-چین معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے ردعمل ظاہر کیا، اس طرح امریکہ-چین-پاکستان اتحاد سے ہندوستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ امریکہ کی دھمکی کے تحت اندرا نے فوراً روس( USSR) سے رابطہ کیا اور امن اور دوستی کے لیے ہند-سوویت معاہدے پر دستخط کر دیے۔اس طرح امریکہ اور چین کو براہِ راست چیلنج دیا گیا۔ اس کےعلاوہ اندرا نے امریکہ اور سوویت یونین سمیت کئی ممالک کا سفر کیا، تاکہ پاکستان کے مظالم کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔

مغربی طاقتیں چاہتی تھیں کہ ہندوستان'مکتی باہنی' کی حمایت کرنا بند کردے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی مداخلت کی تجویز پیش کی۔ جب اندرا گاندھی یوروپی دورے پر تھیں، بی بی سی کے نمائندے مائیکل چارلسٹن نے ان سے پوچھا کہ وہ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرحد کے دونوں طرف اقوام متحدہ کے مبصرین کی تعیناتی کی تجویزکیوں قبول نہیں کر رہی ہیں؟

اس پراندرا گاندھی نے غصےبھرے لہجے میں جواب دیا کہ کیا آپ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ ہم قتل عام کو جاری رہنےہیں؟ کیا آپ نسل کشی کی حمایت کرتے ہیں؟ کیا آپ کے سوال کا یہ مطلب ہے؟ یہاں بدترین ممکنہ تشدد ہوا ہے۔ جب ہٹلرتشدد پر اتر آیا تھا تو کیا تم لوگ خاموش رہے تھے- یہودیوں کو مرنے دیا تھا؟

دسمبرکےاوائل میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش کے سوال پرصدر نکسن کا سامنا کیا۔ خیال رہے کہ انہیں ڈرانے دھمکانے کے کسی بھی حربے سے مایوس نہیں کیا جا سکتا تھا۔

تین دسمبر کو پاکستانی فضائیہ نے ہندوستان میں کئی مقامات پرگولے برسائے۔ وہ کولکاتہ میں تھیں۔ مگران پرگھبراہٹ کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی۔ اندرا نے اسی دوران ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا اور اسی رات نئی دہلی واپس پرواز کرنے سے پہلے کچھ لوگوں سےملاقات کی۔

فوج نے انہیں سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا، کیوں کہ پاکستان ایئر فورس ان کے ہوائی جہاز پر بھی حملہ کر سکتی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنے سکریٹری سے انکشاف کیا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کی فلائٹ بحفاظت نئی دہلی پہنچ پائے گی۔

فوج کو مشرقی پاکستان میں مارچ کرنے کا حکم دیا گیا، حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کو اس فیصلے سے ذاتی طور پر آگاہ کیا گیا اور آدھی رات کو انہوں نے اعلان جنگ کے بارے میں ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کیا۔ جنگ کے دوران مانیک شا نے اندرا گاندھی کو ایک محاذ پر ہونے والی شکست کے بارے میں بتایا۔ اپنے چہرے پرکسی بھی قسم کی پریشانی کو لائے بغیر انہوں نے مانیک شا سے کہا کہ لیکن سیم تم روز نہیں جیت سکتے۔ مانیک شا نے بعد میں یاد کیا کہ کس طرح ان کی ہمت اپنے جیسے تجربہ کار فوجی افسر کے لیے تحریک ہوا کرتی تھی۔اس بحران کے بعد اندرا نے مانیک شا کو بتایا تھا کہ وہ بازی پلٹ جانے کی خبر سن کر واقعی گھبرا گئی تھیں۔

 چھ دسمبرکوانہوں نے پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ تب تک گھبرا چکا تھا، اس نے اپنے بحری بیڑے کو تھیٹرآف وار(theatre of war) کی طرف بڑھانا شروع کر دیا۔ ہندوستانی فوج سے کہا گیا کہ وہ ڈھاکہ پر قبضہ یقینی بنائے اس سے پہلے کہ بحری بیڑے خلیج بنگال تک پہنچ سکے۔ اندرا نے اس موقع پربھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔اسی دوران اندرا نے نئی دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں ایک جلسہ عام بلایا اور ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ اس وقت ہندوستانی فضائیہ زمین پر کسی بھی فضائی حملے کو روکنے کے لیے آسمان میں گردش کرتا رہا۔

اندرا نے اس موقع پر گرج کر کہا کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ پپل جیکرکے مطابق ملک اندرا گاندھی کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ امریکہ کے خلاف شدید غصے نےملک کوایک پلیٹ فارم لاکھڑا کیا۔ آزادی کے بعد سے اب تک اتنی بڑی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا۔ امریکہ کےصدراوران کے مشیرحیران رہ گئے کیوں کہ انہیں اس ردعمل کی توقع نہیں تھی۔

ہندوستانی فوج نے بحری بیڑے کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔16دسمبر1971 کو، شام5:30 بجےاندرا گاندھی بریف کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آئیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک اعلان کرنا ہے، جس کا میرے خیال میں ایوان کچھ عرصے سے انتظار کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں مغربی پاکستان کی افواج نے غیر مشروط طور پرہتھیارڈال دیے ہیں۔ ہتھیار ڈالنے کے دستاویز پر لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی نے دستخط کیے،جسے  بنگلہ دیش افواج کے جی او سی-ان-سی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اڑورا نے قبول کرلیا۔ ڈھاکہ اب ایک آزاد ملک کا آزاد دارالحکومت ہے۔

انہوں نے مغربی پاکستان پر جنگ بندی کا اعلان اس خیال کے ساتھ کیا کہ طویل جنگ بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت کو راغب کرے گی، جو ملک کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ 17 دسمبر کو، انہوں نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ جیسا کہ گیتا میں کہا گیا ہے کہ  نہ خوشی اور نہ غم  میں اپنا توازن کھونا چاہئے اور نہ ہی مستقبل کے تعلق سے اپنی آنکھ بند کرنا چاہئے۔

یہ اعلان کرنے سے پہلے کہ مغربی پاکستان میں فوج کی کارروائیاں بند کر دی جائیں گی۔کئی برسوں کے بعد واشنگٹن پوسٹ کے جوناتھن پاور(Jonathan Power) نے ایک انٹرویو میں اندرا سے پوچھا کہ طاقت کا وہ کون سا ذریعہ تھا جس نے انہیں اس ہند پاک جنگ میں مستحکم بنائے رکھا؟ 

اندراگاندھی نے جواب دیا کہ ایک ہندو فلسفہ ہے، جس سے میری گہری وابستگی ہے۔ میری پرورش بچپن سے ہی ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جو ہندوستان کو نہ صرف اس کی سیاسی آزادی حاصل کرنے بلکہ اسے ہر طرح سے ایک قوم کے طور پر ترقی دینے کے لیے پرعزم تھا۔

جوناتھن پاور نے مزید استفسار کیا تاکہ اندا کچھ واضح جواب دیں۔ مگر اندرا نے کچھ بھی بولنے سے گریز کیا۔  

 انہوں نے جوناتھن پاور کو جواب دیا کہ آپ جانتے ہیں کہ پیٹرسیلرز(Peter Sellers) کی ایک فلم تھی 'دی پارٹی(The Party)۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس میں پیٹر سیلرز ایک ہندوستانی تھا۔ وہ ہر وقت اس میں قدم رکھتا تھا، وہ انتہائی بے وقوف لیکن بہت پیارا تھا۔ یہ سب فلمی لوگوں کے بارے میں ہے۔

ڈائریکٹر اس غریب لڑکی سے کہہ رہا ہے کہ اگر تم میرے ساتھ سونے جاؤ تو میں تمہیں حصہ دوں گا۔

اس سب کے بیچ پیٹر سیلر بازی مار لیتا ہے۔ ڈائریکٹر نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ آپ کو کیا لگتا ہے، آپ کون ہیں؟

پیٹر سیلرز نے جواب دیا: ہندوستانی نہیں سوچتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟