گوپی چند نارنگ: اپنی تحریروں کے سبب ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ادیب و شعرا

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-06-2022
گوپی چند نارنگ:  اپنی تحریروں کے سبب ہمیشہ زندہ  رہیں گے ۔ادیب و شعرا
گوپی چند نارنگ: اپنی تحریروں کے سبب ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ادیب و شعرا

 

 

شاہ تاج خان، پونے

عہد حاضر میں صف اول کے اردو نقاد، محقق اور ادیب پروفیسر گوپی چند نارنگ ہم میں نہیں رہے ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ ہندوستان اور پاکستان میں امن ,روابط کا فروغ اور مشترکہ تہذیبی بندھنوں کی مظبوط کیلئے ساری عمر کوشاں رہے   اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیاکا سفر کرتے رہے ہیں اورانہیں" سفیر اردو "کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں ہندوستان میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ چند ماہ قبل تک وہ  ہندوستان کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے انتقال سے اردو دنیا سوگوار ہے۔ یہاں مہاراشٹر کے شہر پونے سے تعلق رکھنے کچھ ادیب و شعرا کے تاثرات پیش کئے جا رہے ہیں۔

فریدہ نثار احمد انصاری : دوحہ)قطر(

وہ جید شخصیت کہ جسے " سفیر اردو" کے نام سے جانا جاتا تھا,وہ اعلی ہستی جو زبان اردو کے دور حاضر کے معزز ناموں میں شمار کی جاتی تھی,جس نے چہار سو جہاں بھی اردو کے چراغ جلے وہاں پیش قدمی کی۔ وہ ہم سبھی سے دور جا چکی ہے۔ میں دوحہ قطر کے "انجمن فروغ اردو ادب" کے اس مشاعرے کو بھول نہیں پائی جس میں انھیں مدعو کیا گیا تھا۔

محترم کی شعلہ بیانی کے ساتھ ہی مزاح کی شفگتگی نے محفل کو زعفران زار بنا دیا جب انھوں نے کہا کہ " بھئ خلیج کی دعوت قبول کرنے پر  ہمارا نام ہی بدل جاتا ہے۔ گوپی چند نارنگ کے بجائے ہم تو گوبی جند نارنج ہو جاتے ہیں.  یعنی گوبھی اور نارنجی سے جڑ جاتے ہیں۔"

 محترم عہد حاضر کے صف اول کے اردو نقاد, محقق اور ادیب رہے۔دہلی میں مقیم تھے۔ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ ہر جگہ دیکھا جاتا ہے۔وطن عزیز کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان کے چرچے عام ہیں۔انھیں پدم بھوشن کے اعلی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ان کی تحریروں نے تنقید کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ان کا یہ خیال تھا کہ ہمیں خود کو قدیم, جدید, ترقی پسند و غیر ترقی پسند کے دائروں میں قید نہیں ہونا چاہئے ۔ وہ ادب کو ایک اکائی مانتے تھے۔   

 محترم گوپی چند نارنگ صاحب کا دعوی تھا کہ " میں نے ادب کی روایت کامطالعہ نہایت سنجیدگی اور محنت سے کیا یے اور آج بھی یہی کوشش ہے کہ مطالعہ پر توجہ دیتا ہوں۔" دوسری زبانوں کے ادب پر بھی ان کی نظر رہتی تھی۔تنگ نظری انھیں چھو کر نہیں گزری۔یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کا ستارہ بن کر چمکے۔ آنجہانی کا نظریہ تھا کہ کسی گروہ سے وابستگی آہستہ آہستہ مذہبی عقائد یا سیاسی نظریات میں بدل جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ " کوئی سچا فنکار تنگ نظر نہیں ہوتا وہ سماج کا فرد ہوتے ہوئے بھی سماج سے بالاتر ہوتا ہے۔" وہ ادیب کی مکمل آزادی کے حامل تھے۔انھوں نے قاری کو فلسفیانہ اساس فراہم کیا۔ 

ادب, شاعری, تنقیدی اور ثقافتی علوم پر تقریباً ساٹھ سے زائد کتب تنصیف کیں۔جن کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔

اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب

اردو کی نئی کتاب دسویں جماعت کے لئے

امیر خسرو کا ہندوی کلام

اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو

راجندر سنگھ بیدی

ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات

ساہتک اردو گدھ سنچن

کاغذ آتش کدہ

یہ ان کی کچھ چنندہ کتابیں ہیں۔

یہ بھی ان کی سوچ رہی کہ " جدیدیت آج بھی تازہ زمینوں کی تلاش میں ہے جو ہر زمانے کے سچے فنکار کے دل کی دھڑکن ہے۔" اور آج وہ شخص ادیبوں کی نئی زمینیں تلاش کرنے اپنے دل کی دھڑکن بند کر ایک نئے سفر پر روانہ ہو گیا۔

پرماتما ان کی آتما کو شانتی دے۔

خان حسنین عاقب)ادیب ،شاعر اور نقاد( مہاراشٹر

گوپی چند نارنگ انگلی پر گنے جانے والے ان ادیبوں میں شمار ہوتے تھے جو بیک وقت تنقید، تحقیق اور لسانیات کے زمروں میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ ہم خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ ہم نے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے ساتھ ساتھ گوپی چند نارنگ کے عہد میں سانسیں لیں اور بیسویں صدی کے آخری دہائی سے لے کر اکیسویں صدی کے دو سے زائد دہائیوں سے گزرتے ہوئے تا حال اپنی ادبی زندگی ان نابغہ ادیبوں کی سرپرستی اور نگہداری میں گزاری ۔ فاروقی صاحب کی طرح نارنگ صاحب کا متبادل ملنا بھی کار محال ہے ۔

 ڈاکٹر ممتاز منور  پیربھای، صدر انجمن ترقی اردو (ہند)پونے

اردو کے ممتاز دانشور ،معروف ادیب،ماہر نقاداور اردو ساہیتہ اکادمی  نئ دہلی کے سابق صدر جناب گوپی چند نارنگ  ۹۱سال کی عمر میں امریکہ میں اس دار فانی سے کوچ کر گۓ۔

وہ اپنے أپ میں ایک انجمن تھے ۔انھوں نے ۶۰سے  زائد کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں  ساٹھ اردو میں بارہ انگریزی میں  اور سات ہندی میں  ہیں ۔ان کی کتابوں کا کئ دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔وہ اردو کے مذاکرات اور اجلاس کے لئے  ساری دنیا کا سفر کرتے تھے  اس لئے  انھیں اردو کا سفیر بھی کہا جاتا تھا ۔وہ اردو کے پہلے اسکالر تھے  جن کی ادبی خدمات کےاعتراف میں نہ صرف ہندوستان کی حکومت نےانھیں پدم بھوشن سے نواڑا تھا بلکہ پاکستانی  حکومت  نے بھی انھیں ستارۀ  امتیاز عطا کیا تھا ۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کو فرقہ واریت کی قید سے أزاد رکھنے کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دی تھی ۔

کچھ اجلاس میں مجھے ان کے ساتھ شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئ تھی ۔

وہ پونہ بھی تشریف لا چکے ہیں پروگرام کے تعلق سے ۔ اس وقت ان کی مہمان نوازی کا شرف ناچیز کو حاصل رہا۔

پرانے رند مےخانے سے اٹھتے جاتے ہیں اب تو

ہوئ جاتی ہیں سونی رونقیں  محفل کا کیا ہو گا

ڈاکٹر ابرار احمد،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، پونا کالج، پونے

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے

اردو کے ممتاز نقاد، محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ کی رحلت سے اردو ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔اردو ادب میں ان کی خدمات نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے ساٹھ سے زائد کتب تصنیف کیں ہیں۔ ان کی تحریریں اردو نثر اور شاعری کی باریکیوں کے ساتھ ان کی سماجی وثقافتی سیاق و سباق کو سمجھنے میں بھی مدد ومعاون ہوتی ہیں۔ وہ کئی زبانوں کے ماہر تھے اسی لیے ان کی تعبیرات میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ اردو کی ترقی کے لئے وہ ساری دنیا کا سفر کرتے تھے اسی لیے انہیں سفیر اردو کے نام سے  بھی جانا جاتا تھا۔  انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو کے گیسوئے برہم کو سجانے و سنوارنے میں صرف کردی۔ بالآخر وہ ١٥/ جون ٢٠٢٢ کو بزبان حال یہ کہتے ہوئے ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے۔

بڑاپیچ و خم ہے تیری زلف میں

کہاں تک سنواروں تجھے زندگی

وہ جسمانی طور پر اگرچہ ہم  سےدور ہوگیے ہیں لیکن وہ اپنی تحریروں کے باعث اردو والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔